گھوٹکی ٹرین حادثہ: ’جنھوں نے شادی میں شریک ہونا تھا اب وہ تعزیت کے لیے آ رہے ہیں‘

عمر دراز ننگیانہ - بی بی سی اردو رحیم یار خان


ٹرین

حادثے کو ایک روز گزر چکا ہے اور رحیم یار خان کے شیخ زید ہسپتال کے ایمر جنسی وارڈ کے بستر پر ایک چھ سالہ بچی بے ہوش لیٹی ہے جس کی دونوں ٹانگوں پر گھٹنوں سے اوپر تک پٹیاں لپٹی ہیں اور ماتھے پر سوکھے خون کے دھبے اب بھی موجود ہیں۔

اس بچی کے سر پر پٹیاں بندھی ہیں مگر ڈاکٹروں کے مطابق سر کی چوٹ زیادہ خطرناک نہیں ہے۔

صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ڈہرکی کے مقام پر پیر کی صبح دو مسافر ٹرینوں کے تصادم میں اس بچی کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں اور منگل کے روز آپریشن کے ذریعے ڈاکٹروں نے انھیں جوڑا تھا۔

دواؤں کے زیرِ اثر وہ بے سدھ پڑی تھیں لیکن جب بھی ہوش میں آتی ہیں تو اپنی ماں کو پکارتی ہیں۔ ان کا خیال رکھنے والے ہسپتال کے عملے کے ایک شخص نے بتایا کہ وہ ’جب آنکھیں کھولتی ہے اپنی ماں کا پوچھتی ہے کہ وہ کب آئیں گی۔‘

بچی کے ساتھ ٹرین میں سفر کرنے والی ان کی والدہ کے بارے میں تاحال معلوم نہیں ہو پایا ہے۔ جائے حادثہ سے تمام تر ملبہ ہٹا دیا گیا ہے لیکن رحیم یار خان کے ہسپتال میں لائے جانے والے زخمیوں میں بچی کی والدہ شامل نہیں تھیں۔

تاہم ہسپتال میں آٹھ ایسی لاشیں موجود تھیں جن کی شناخت اب تک نہیں ہو پائی تھی۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی چھ سالہ بچی کے ساتھ اسی وارڈ میں ان کی بھابھی بھی زخمی حالت میں ایک بستر پر موجود تھیں۔ وہ چار ماہ کی حاملہ تھیں تاہم ہسپتال کی رپورٹ کے مطابق ان کی حالت خطرے سے باہر تھی اور بچہ بھی محفوظ رہا۔

کراچی میں ان کے رشتہ داروں کو اطلاع کی جا چکی تھی اور وہ رحیم یار خان کی طرف اپنا سفر شروع کر چکے تھے۔ ان کے آنے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ بچی کے والدین کو تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔

ٹرین

یہ بچی اکیلی نہیں تھی جو اس حادثے کے نتیجے میں اپنوں سے بچھڑ گئی تھیں۔ کچھ متاثرین اپنوں سے دوبارہ ملنے کی امید کی باریک سی رسی کے ساتھ جڑے تھے تو کچھ کے لیے دوری ہمیشہ کے لیے تھی۔ پنجاب کے شہر لودھراں کے رہائشی محمد عامر ان میں سے ایک تھے۔

وہ اپنے چھوٹے بھائی محمد سمیع اور خاندان کے دیگر کئی افراد کے ساتھ ملت ایکپریس میں سوار تھے۔ انھیں یاد ہے کہ ڈہرکی سٹیشن پر ایک گھنٹے سے زیادہ دیر رکنے کے بعد جب ٹرین چلی تھی تو تھوڑی ہی دیر بعد اس کی وہ بوگیاں الٹ گئی تھیں جن میں وہ اور ان کے رشتے دار سوار تھے۔

ہم نے ایک دوسرے کے نام لے کر پکارنا شروع کیا

یہ تمام افراد محمد عامر کے چچا زاد بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے لودھراں میں اپنے گاؤں آ رہے تھے۔ ان کے ساتھ دولہا اور دلہن کے لیے کپڑے اور دیگر سامان بھی تھا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محمد عامر نے بتایا کہ جب اچانک ان کی بوگی الٹی تو چند لمحوں کے لیے مکمل تاریکی ہو گئی تھی۔

‘کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کون کدھر ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کے نام لے کر پکارنا شروع کیا۔ اس کے بعد میں کسی طرح باہر نکلنے میں کامیاب ہوا اور پھر دوسرے لوگوں کو نکالنا شروع کیا۔ اتنے میں ایک اور ٹرین کے ہارن کی آواز آئی اور کچھ ہی سیکنڈ بعد وہ ٹرین نیچے پڑی بوگیوں سے ٹکرا گئی۔‘

محمد عامر کو کندھے پر گہری چوٹ آئی تھی، ان کا سر چکرا گیا تھا وہ وہ دور جا کر بیٹھ گئے تھے۔ اُن کی بوگیوں سے ٹکرانے والی سر سید ایکسپریس تھی جو مخالف سمت سے آ رہی تھی اور ملت ایکسپریس کی الٹی ہوئی بوگیاں اس کے راستے میں ٹریک پر الٹی پڑی تھیں۔

چیخ و پکار الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی

اسی بوگی میں موجود محمد عامر کے چچا زاد بھائی شہزاد بھٹی کو وہ لمحات اچھی طرح یاد تھے جبکہ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور لوگوں کی چیخ و پکار کی آوازوں نے ان کا دل دہلا دیا۔

یہ بھی پڑھیے

’ماں نے کہا تھا میرا دل نہیں چاہتا کہ تم اس ٹرین پر جاؤ‘

گھوٹکی ٹرین تصادم: ریسکیو آپریشن مکمل، ٹریک کی بحالی جاری

گھوٹکی ٹرین حادثہ: ’مسافر بوگیوں میں پھنسے تھے اور زخمی درد سے کراہ رہے تھے‘

‘پہلے یوں لگا جیسے ڈبے کو زور کا جھٹکا لگا ہے اور ہم سب لڑکھڑا گئے۔ جو جہاں تھا اس نے وہیں ڈنڈوں کو پکڑ لیا۔ اس کے بعد ہمارا ڈبہ الٹ گیا۔ اس وقت لوگوں نے چیخنا شروع کر دیا تھا لیکن جو چیخ و پکار اس وقت اٹھی جب دوسری ٹرین ہماری بوگیوں سے ٹکرائی وہ میں بیان نہیں کر سکتا۔’

گرد و غبار اور چیخ و پکار کے دوران محمد عامر اور ان کے خاندان کے دیگر لڑکوں نے اپنوں کو تلاش کرنا شروع کیا۔ اس وقت تک دن کی ہلکی روشنی ہونا شروع ہو چکی تھی لیکن ان کی بہن اور چھوٹی بھانجی مقدس کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔

ایک کو نکالتے تو دوسرا تکلیف سے بلبلا اٹھتا

Reuters

علاقے کے مقامی افراد بھی موقع پر پہنچ کر ان کی مدد کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر کی تلاش کے بعد محمد عامر کو ان کی بہن ٹرین کی بوگی کے ایک حصے میں دبی ہو ملیں جہاں سے انھیں باہر نکالنا مشکل تھا۔

‘وہ ایسے پھنس چکی تھیں کہ نیچے ایک اور شخص دبا ہوا تھا۔ اس کو نکالنے کی کوشش کرتے تھے تو میری بہن تکلیف سے بلبلا اٹھتی تھیں اور اگر بہن کو نکالنے کی کوشش کرتے تو اس شخص کو تکلیف ہوتی تھی۔’

ریسکیو کی ٹیموں کی مدد سے کچھ دیر کی کوشش کے بعد ان کی بہن کو اور دوسرے زخمی شخص کو نکال لیا گیا۔ ان کی بہن شدید زخمی حالت میں تھیں۔ اس دوران چھوٹی مقدس کو بھی نکال لیا گیا تھا۔ ان کی حالت زیادہ تشویشناک تھی۔

محمد عامر نے بتایا کہ اس وقت تک وہ زندہ تھیں لیکن ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ گئیں۔ عامر کے چھوٹے بھائی سمیع اللہ کی موت ہو چکی تھی۔ قریبی ہسپتال میں ڈاکٹروں نے ان دونوں کی موت کی تصدیق کی۔

گھر پر شادی کی تقریب ان کی منتظر تھی

اُدھر لادھراں میں محمد عامر کے والد، چچا اور دیگر خاندان والے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ گھر پر محمد عامر کے چچا زاد بھائی کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ منگل کے روز ان کی مہندی کی رسم تھی جس کے لیے گھر کے کشادہ صحن میں شامیانہ لگایا گیا تھا۔

گھر کی خواتین مہندی کی رسومات کے لیے ڈولیاں سجا چکی تھیں، نئے کپڑے اور جوتے تیار تھے۔ گھر کے چھوٹے بڑے آنے والے مہمانوں کو ملنے کی خوشی میں جاگ رہے تھے۔

محمد عامر کے چچا محمد اسحاق نے بتایا کہ وہ فجر کی نماز کے لیے اٹھے تھے اور نماز پڑھ کر بیٹھے ہی تھے کہ کسی نے اطلاع دی کہ کراچی سے آنے والی ٹرین کو حادثہ پیش آ گیا تھا۔

وہ فوری طور پر حادثے کے مقام کی طرف نکل پڑے تھے لیکن لودھراں سے وہاں تک کا سفر تین گھنٹے سے زیادہ کا تھا۔

جب وہ وہاں کے قریبی ہسپتال پہنچے تو انھیں اطلاع ملی کہ ان کے بڑے بھائی کا بیٹا اور ان کی ایک نواسی ہلاک ہو گئے تھے اور زندہ بچ جانے والوں میں کئی افراد زخمی تھے۔

جنھوں نے شادی میں شریک ہونا تھا اب وہ تعزیت کے لیے آ رہے ہیں

پیر کی رات کو وہ میتیں لے کر گھر پہنچے۔ جس گھر میں شادی کی تقریب ہونا تھی وہاں اسی شامیانے کے نیچے دریاں بچھا دی گئی تھیں اور جن مہمانوں نے شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے آنا تھا وہ اب تعزیت کے لیے آ رہے ہیں۔

رات ہی کو دونوں میتوں کو دفنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا کیونکہ گرم موسم کی وجہ سے انھیں زیادہ دیر رکھا نہیں جا سکتا تھا۔

محمد اسحاق نے بتایا کہ وہ اور ان کا باقی خاندان کافی عرصے سے کراچی میں مقیم تھا اور محنت مزدوری کرتے تھے۔ وہ خود اپنے خاندان کے افراد کے ہمراہ بیٹے کی شادی کے لیے دو ماہ قبل آبائی گاؤں آئے تھے۔

ان کے باقی دونوں بھائیوں کے خاندان کے لوگ اس روز ٹرین کے ذریعے شادی میں شرکت کے لیے آ رہے تھے۔

وہ کہتی ہیں ’کئی برس بعد ہمارے خاندان میں شادی کی کوئی خوشی کی تقریب ہونے جا رہی تھی۔ ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اچانک سب کچھ بدل جائے گا۔ جن مہمانوں نے شادی میں شریک ہونا تھا اب وہ تعزیت کے لیے آ رہے ہیں۔‘

اگر مؤثر اقدامات کیے جاتے تو شاید ہمارے پیارے آج زندہ ہوتے

محمد اسحاق کا کہنا تھا کہ انھیں صرف یہی افسوس ہے کہ پاکستان میں ریل کے متواتر حادثات کے باوجود حکومت نے بچاؤ کے اقدامات نہیں کیے تھے۔

’اگر پہلے ہی ایسے حادثات سے بچنے کے لیے اقدامات کیے جاتے تو شاید ہمارے پیارے آج زندہ ہوتے اور ہم سوگ کے بجائے آج خوشیاں منا رہے ہوتے۔‘

محمد عامر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب ملت ایکسپریس ڈہرکی سٹیشن پر رکی تو بوگی نمبر دس کے نیچے کوئی تکنیکی مسئلہ سامنے آیا تھا جسے دور کرنے کے لیے ٹرین لگ بھگ ایک گھنٹے سے زیادہ رکی رہی تھی۔

’لیکن پھر پتہ نہیں وہ ٹھیک ہوا یا نہیں، انھوں نے ٹرین کو چلنے کا کہہ دیا۔ ٹرین ابھی تھوڑی دور ہی چلی تھی اور رفتار بھی زیادہ نہیں تھی کہ کئی بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔ بوگی نمبر دس ہی اس کا سبب بنی تھی۔‘

تاہم ان کے خیال میں اگر حادثے کی اطلاع مل جانے کے بعد دوسری طرف سے آنے والی سر سید ایکسپریس کو روک لیا جاتا تو زیادہ جانی نقصان ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔

حادثے کی وجہ کیا بنی؟

کیا واقعی ہی بوگی نمبر دس میں خرابی ہی ملت ایکسپریس کے پٹڑی سے اترنے کا سبب بنی تھی اور دوسری طرف سے آنے والی ٹرین کو روکا کیوں نہیں گیا تھا؟

یہ اور اس طرح کے دیگر کئی سوال محمد عامر، زنیرہ اور ان جیسے دیگر افراد کے لواحقین کے ذہنوں میں ہیں مگر تاحال ان کے جوابات تلاش نہیں کیے جا سکے۔

وفاقی وزیر برائے ریلوے اعظم سواتی منگل کے روز رحیم یار خان کے شیخ زید ہسپتال میں زخمیوں کی تیمارداری کے لیے پہنچے تو وہاں موجود صحافیوں نے ان سے یہ سوالات پوچھے۔

اعظم سواتی نے بتایا کہ ’تاحال حادثے کی وجوہات کے حوالے سے ابتدائی تحقیقات مکمل نہیں ہو پائیں جو بدھ کے روز سامنے آنے کی توقع کی جا رہی ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ریلوے کے افسران حادثے کی وجہ بننے والی کسی غفلت کے مرتکب پائے گئے تو ان کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔‘

دوسری جانب ہوش اور بے ہوشی کے بیچ ہسپتال کے بستر پر ان تمام معملات سے بے خبر اپنی ماں کو پکارتی زنیرہ کو ان کی والدہ کبھی مل پائیں گی، یہ واضح نہیں ہے۔

یا پھر اس حادثے نے ان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp