حمایت علی شاعر (نجی زندگی، تعلیمی، تخلیقی اور علمی ادوار کا سفر)۔


حمایت علی شاعر کا تعلق اورنگ آباد (دکن) سے ہے۔ تقسیم ہندوستان کے بعد کچھ وقت دہلی اور بمبئی میں گزارنے کے بعد 1951 ء میں پاکستان آ گئے۔ ابتدا میں کراچی اور بعد ازاں حیدرآباد (سندھ) میں سکونت اختیار کی۔ 1986 ء کے بعد واپس کراچی چلے گئے۔ وہ شاعر ہونے کے قدم بہ قدم نثر نگار، ڈراما نگار، صحافی، محقق، مدرس، براڈ کاسٹر، فلم ساز و ہدایت کا ر بھی تھے۔ ان کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تصانیف و تالیفات کی تعداد پینتیس ( 35 ) کے قریب ہے۔

ان کے کلام کے دیگر زبانوں میں تراجم اور انتخاب کا سلسلہ بھارت اور پاکستان دونوں ممالک میں جاری ہے۔ چناں چہ سندھی، ہندی اور انگریزی میں اب تک ان کے کلام کے جو تراجم زیور طباعت سے آراستہ ہوچکے ہیں ان کی تعداد بھی ایک درجن کے قریب ہے جن میں ’بنگال سے کوریا تک‘ کا ترجمہ جو ’فلاور ان فلیمز‘ کے نام سے پروفیسر راجندر سنگھ ورما نے 1985 ء میں کیا۔ 1998 ء میں اسی نظم کا ایک اور انگریزی ترجمہ پرکاش چندر نے ’فلوٹ اینڈ بگل‘ کے نام سے اور سندھی میں عالمانی صاحب نے ’گل باہ مہ‘ کے نام سے اور ہندی میں جی ایم نداف نے اور تیلگو میں ڈاکٹر سرسوتی نے کیا۔

انتخاب کلام ’حرف حرف روشنی‘ کا انگریزی ترجمہ ’ایوری ورڈز ایگلو‘ کے عنوان سے راجندر سنگھ ورما نے 1993 ء میں کیا۔ جب کہ دو ہندی تراجم میں سے ایک ’شبد شبد پرکاش‘ کے نام سے قاضی رئیس نے 1992 ء میں اور ’حرف حرف روشنی‘ کے نام سے پروفیسر بھگتل نے کیا۔ انگریزی، ہندی، تیلگو کے ساتھ حمایت صاحب کے ڈرامے ’فاصلے‘ ، ’دشمن آسماں اپنا‘ اور ’بگولہ‘ کے سندھی تراجم علیٰ الترتیب رشید احمد لاشاری، ایم بی انصاری، ممتاز مرزا اور محمد اسحاق سرہندی نے کیے۔

حمایت صاحب نے تقریباً 75 برس وادی شعر و سخن کی سیر کی۔ اس دوران انھوں نے امریکہ، کینیڈا، یورپ، روس، چین، افریقہ، جاپان، خلیجی ممالک، بھارت اور بنگلہ دیش کے متعدد بار دورے کیے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں وہاں جناب حمایت علی شاعر کے عشاق موجود ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ یہ اضافہ ان کے کلام کی مقبولیت کا ضامن ہے کیوں کہ انھوں نے رواج عام سے ہٹ کر اپنے قاری کو زندگی کی مادی حدود سے آشنا کیا چناں چہ ان کے کلام میں گیسو و کاکل، گل و بلبل اور ہجر و فراق کے فرضی قصے کم ہیں۔

تو ساتھ ہو کہ نہ ہو زندگی کی راہوں میں
رہی ہمیشہ مری ہم سفر تری آنکھیں
٭٭٭
شمع کی مانند اہل انجمن سے بے نیاز
اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ
٭٭٭
پھر مری آس بڑھا کر مجھے مایوس نہ کر
حاصل غم کو خدارا غم حاصل نہ بنا

اب تک ان کے چار شعری مجموعے آگ میں پھول ( 1956 ء) جس پر انھیں 1958 ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مٹی کا قرض ( 1974 ء) یہ کتاب اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کے دیباچے میں حمایت صاحب نے پہلی مرتبہ اپنے نظریہ حیات کی وضاحت کی۔ اسی کتاب میں انھوں نے وطن اور خاک وطن کی پرستش کے حوالے سے ایک دانش وارانہ نکتہ نظر پیش کیا۔ ان نظریات کا مطالعہ قاری کی رہنمائی اس سمت میں کرتا ہے جہاں حمایت صاحب کی تخلیقی شخصیت اور فکر کا بنیادی مرکزہ موجود ہے۔

تشنگی کا سفر ( 1981 ء) اور ہارون کی آواز ( 1985 ء) منظر عام پر آئے۔ اب یہ تمام مجموعے ’کلیات شاعر‘ کی زینت ہیں جو 2008 ء میں ان کے لائق فرزند پروفیسر، ڈاکٹر اوج کمال کی مساعی جمیلہ سے دنیاے ادب کراچی نے نہایت اہتمام سے شائع کی ہے۔ اس سے قبل 1986 ء میں ان تمام کتابوں کا نہایت محتاط اور با معنی انتخاب بھی ’حرف حرف روشنی‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ اسی ضمن میں انھیں اپنے معاصرین میں یہ تقدم بھی حاصل ہے کہ انھوں نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’آئینہ در آئینہ‘ ( 2001 ء) کے عنوان سے منظوم کی۔ اردو ادب کی یہ طویل ترین سوانحی مثنوی ساڑھے تین ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ حمایت علی شاعر کی باریک بینی اور قدرت بیان کا یہ شاہ کار 2001 ء میں شائع ہوا جس میں ان کی ذات کے ہم راہ سیاست، معاشیات اور تہذیب و تمدن بھی بین السطور مذکور ہیں۔

حمایت علی شاعر 14 جولائی 1926 ء کو اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید تراب علی محکمہ پولیس میں ملازم تھے اور جب وہ خود عملی زندگی میں آئے تو ریڈیو دکن سے وابستہ ہوئے۔ جہاں انھوں نے صدا کار، اناؤنسر، نیوز ریڈر اور کمینٹیٹر کے فرائض بھی انجام دیے۔ 14 فروری 1949 ء کو ان کی شادی معراج النسا ء بیگم سے اورنگ آباد میں انجام پائی، جو اس وقت ایک ابھرتی ہوئی افسانہ نگار تھیں۔ شادی کے کچھ ہی عرصے بعد وہ دکن سے دہلی چلے گئے اور آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہو گئے وہاں سے بمبئی (ممبئی) اور پھر ترک وطن کر کے 1951 ء میں وارد کراچی ہوئے اور ریڈیو پاکستان میں ملازم ہو گئے۔

جہاں سے 1955 ء میں ان کا تبادلہ حیدرآباد (سندھ) ہو گیا۔ اپنے قیام حیدرآباد میں انھوں نے 1962 ء تک ریڈیو پر کام کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس مختصر عرصے میں وہ نہایت متحرک اور فعال رہے۔ یہیں سے انھوں نے اندرون سندھ کے مشاعروں میں باقاعدہ شرکت کا آغاز کیا۔ یہیں انھوں نے ’یک رکنی غزل‘ ، ’ایک مصرعہ ایک نظم‘ ، ’ایک اضافی بحر‘ ، ’یک کرداری تمثیل‘ ، ’ایک تصویری نظم‘ اور ’ثلاثی‘ کے عنوان سے متعدد تجربات کیے جن میں ’ثلاثی‘ مقبول عام ہوئی۔

کس طرح تراش کر سجائیں
ان دیکھے خیال کے بدن پر
لفظوں کی سلی ہوئی قبائیں
٭٭٭
مرنا ہے تو دنیا میں تماشا کوئی کر جا
جینا ہے تو ایک گوشہ تنہائی میں اے دل
معنی کی طرح لفظ کے سینے میں اتر جا
٭٭٭
دشوار تو ضرور ہے یہ سہل تو نہیں
ہم پر بھی کھل ہی جائیں گے اسرار شہر علم
ہم ابن جہل ہیں بو جہل تو نہیں

ثلاثی ہو غزل ہو یا نظم، زندگی کے بارے میں ان کا اپنا نکتہ نظر ہے جوہر جگہ اپنی موجودی کا احساس دلاتا ہے۔ یہ نکتہ نظر ان کے وسیع مطالعے، ترقی پسند تحریک اور اقبالیات کے اثرات سے ترتیب پاکر ان کے منفرد اسلوب کی تعمیر کرتا ہے۔ اس اسلوب کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں نظم اور غزل کی حد فاصل معدوم ہوتے ہوتے ایک نقطے پر آ کر شیر و شکر ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد نظم ہو یا غزل یا ثلاثی ہر جگہ ان کا اپنا نکتہ نظر روایتی موضوعات کو پس پشت ڈال کر اپنی بہار دکھلاتا ہے۔ چوں کہ وہ شروع ہی سے غور و فکر کے عادی تھے اس لیے انھوں نے انسانی زندگی کے متعدد چھوٹے بڑے مسائل کو سنجیدہ لیا اور ان کو مارکسی تدبر، مذاہب عالم کی تعلیمات اور فکر اقبال کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کی۔ اسی کوشش میں بہت سے ایسے

سوالوں نے ان کی فکر میں جگہ بنالی جو ہر دور کے سوچنے سمجھنے والے ذہن کے سامنے آتے رہے ہیں مثلاً خدا اور بندے کا تعلق، زمان و مکاں، حیات بعد الموت اور روح و جسم وغیرہ۔ وہ موضوعات الگ ہیں جن کا تعلق معاشیات سے ہے جن میں طبقاتی تضاد سے جنم لینے والا اضطراب جو بہ تدریج طبقاتی کشمکش میں تبدیل ہوتا ہے مذہبی رسومات اور جاگیردارانہ معاشرے سے جڑے ہوئے کچھ ایسے مسائل جنھیں عام طور پر بحث میں نہیں لایا جاتا ان کی توجہ کا مرکز و محور تھے یہ وہی سلسلہ ہے جو غالب سے شروع ہو کر اقبال کے وسیلے سے حمایت علی شاعر کے عہد تک پہنچتا ہے۔

فکر معاش کھا گئی دل کی ہر اک امنگ کو
جائیں تو لے کے جائیں کیا حسن کی بارگاہ میں
٭٭٭
میں سوچتا ہوں اس لیے شاید میں زندہ ہوں
ممکن ہے یہ گمان حقیقت کا گیان دے
٭٭٭
اب آگہی کی زد پہ ہیں صدیوں کے واہمے
لاکھ آسماں اٹھائے ہوئے اپنی ڈھال ہو
٭٭٭
یہ معجزہ بھی وقت کا کتنا عظیم ہے
اب دست سامری میں عصائے کلیم ہے

یہ بھی ایک حقیقت ہے حمایت علی شاعر کی طبع کو غزل کے بہ جائے نظم سے زیادہ مناسبت تھی۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے شاعری کی سب سے مختصر اکائی غزل کے شعر کے بعد اور رباعی کے درمیان تین مصرعوں کی مختصر وحدت ’ثلاثی‘ کی دریافت کے بعد قدرے آسودگی محسوس کی۔ یہی تخلیقی آسودگی انھیں نظم کی طرف اور زیادہ مائل کر گئی۔ یہی وہ میڈیم ہے جس میں انھوں نے غزل کے مقابلے میں زیادہ کھل کر بات کی ہے۔ ان نتائج کے بیان کے لیے جو ان کی فکر کا حاصل ہیں، اس کے علاوہ کوئی اور میڈیم ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ بہ طور شاعر انھوں نے اپنے بیان میں حسن پیدا کرنے اور بات کو واضح کرنے کے لیے کہیں ڈرامائی انداز اختیار کیا ہے۔ کہیں علامات اور استعاروں کی مدد سے بات کو آگے بڑھایا ہے اور کہیں ان کی ضد سے معنی پیدا کیے ہیں۔

اس بار وہ ملا تو عجب اس کا رنگ تھا
الفاظ میں ترنگ نہ وہ لہجہ دبنگ تھا
اک سوچ تھی کہ بکھری ہوئی خال و خط میں تھی
اک درد تھا کہ جس کا شہید انگ انگ تھا
اک آگ تھی راکھ میں پو شیدہ تھی کہیں
اک جسم تھا کہ روح سے مصروف جنگ تھا
میں نے کہا کہ یار تجھے کیا ہوا ہے یہ
اس نے کہا کہ عمر رواں کی عطا ہے یہ
میں نے کہا کہ عمر رواں تو سبھی کی ہے
اس نے کہا کہ فکر و نظر کی سزا ہے یہ
میں نے کہا کہ سوچتا رہتا تو میں بھی ہوں
اس نے کہا کہ آئینہ رکھا ہوا ہے یہ
دیکھا تو میرا اپنا ہی عکس جلی تھا وہ
وہ شخص میں تھا اور حمایت علی تھا وہ

ظاہر ہے ایسے شاعر کے لیے جس کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے اس کے لیے تنگنائے شعر کے محدود حصار سے نکلنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حمایت صاحب کا زندگی کے بارے میں اپنا تجربہ اور اپنا نکتہ نظر جو غزل کے اشعار میں محض اشارے کی حد تک بیان ہوا ہے نظم میں نہایت واضح اور مشرح ہو کر سامنے آتا ہے۔ اس کا اندازہ ’تذبذب‘ ، ’تجھ کو معلوم نہیں‘ ، ’ہوا‘ ، ’چاند خورشید کا راز داں‘ ، ’بگولہ‘ اور ’پرتو‘ جیسی کام یاب نظموں کے مطالعے سے کیا جا سکتا ہے۔ ایک نظم جس کا عنوان ’جواب‘ ہے ملاحظہ کیجیے :

سورج نے جاتے جاتے بڑی تمکنت کے ساتھ
ظلمت میں ڈوبتی ہوئی دنیا پہ کی نگاہ
کہنے لگا کہ کون ہے اب اس کا پاسباں
میں تھا تو اپنی راہ پہ تھی گام زن حیات
اب میں نہیں رہوں گا تو یہ ساری کائنات
ظلمات میں بھٹکتی پھرے گی تمام رات
سورج یہ کہہ کے جا ہی رہا تھا کہ اک دیا
چپکے سے جل اٹھا اور اسے دیکھنے لگا

قیام حیدرآباد میں پہلے انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور 1959 ء میں سندھ یونی ورسٹی سے ایم۔ اے (اردو) کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد فلم کی طرف بہ حیثیت نغمہ نگار متوجہ ہوئے اور بالترتیب 1962 ء اور 1963 ء کے نگار ایوارڈ ’آنچل‘ اور ’دامن‘ کے لازوال نغمات پر حاصل کیے۔ انھوں نے فلموں میں صرف نغمہ نگاری ہی نہیں کی بلکہ ہدایت کاری اور فلم سازی کی طرف بھی بھرپور توجہ کی۔ 1966 ء میں اپنی ذاتی فلم ’لوری‘ اور اس کے بعد 1975 ء میں ’گڑیا‘ بنائی۔ ’گڑیا‘ بہ وجوہ آج تک ریلیز نہ ہو سکی۔ ان کے تمام سدا بہار فلمی نغمات انور جبیں قریشی نے یک جا کر کے ’تجھ کو معلوم نہیں‘ کے عنوان سے 2003 ء میں شائع کر دیے۔

حمایت صاحب نے 1975 ء میں فلم انڈسٹری کو خیر باد کہہ کر اپنا ناتا ٹیلی ویژن سے جوڑ لیا اور معرکہ آرا پروگرام پیش کیے جن میں انھوں نے تنقید کے شانہ بہ شانہ داد تحقیق بھی خوب دی۔ ’غزل اس نے چھیڑی‘ ( 1974 ء) یا ’خوش بو کا سفر ’( 1988 ء) جس میں پاکستان کی علاقائی زبانوں کے شعرا کے اردو کلام کا جائزہ اور تعارف پیش کیا گیا۔‘ عقیدت کا سفر ’( 1995 ء) میں نعتیہ شاعری کے سات سو سالہ سفر کو بیان کیا گیا۔‘ لب آزاد ’(1989 ء) ۔ اس پروگرام میں احتجاجی لب و لہجہ رکھنے والی چالیس سالہ شاعری کو موضوع بنایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پانچ سو سال پر محیط سندھی شعرا کے اردو کلام پر مشتمل پروگرام‘ محبتوں کے سفیر ’( 1996 ء) یا پھر تحریک آزادی میں اردو شاعری کے کردار کے حوالے سے یادگار پروگرام‘ نشید آزادی ’نمایاں ہیں۔ وہ ٹیلی ویژن کے مقبول پروگرام کسوٹی ( 1977 ء) سے بھی بہ حیثیت میزبان تین سال تک وابستہ رہے۔ ان پروگراموں میں سے اکثر کے مندرجات تحقیقی، تنقیدی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے اور آج بھی حوالے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

ٹیلی ویژن کے ان پروگراموں کی مصروفیت کے علاوہ 1977 ء میں جامعہ سندھ کے شعبہ اردو سے بہ حیثیت استاد منسلک ہو گئے یہ سلسلہ6 1986 ء تک چلتا رہا۔ 6891 ء میں یونی ورسٹی سے رٹائرڈ ہونے کے بعد آپ دنیا بھر میں منعقد ہونے والے عالمی مشاعروں کی ضرورت بن گئے اور یوں انھوں نے 2002 ء تک تین مرتبہ ملکوں ملکوں سفر کیا۔ 2002 ء میں ان کی گوں نا گوں ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ حسن کار کردگی سے نوازا۔ اسی برس جب ان کی شریک حیات کا انتقال کینیڈا میں ہو گیا تو انھوں نے مشاعروں سے از خود دوری اختیار کر لی۔ ان کا کہنا تھا کہ:

’یہ رنگ و خوش بو جس کے دم سے تھا جب وہ ہی نہیں تو پھر کیسی شاعری اور کیسی گہما گہمی‘ ۔

حمایت صاحب اپنے بیٹوں، پوتوں، پوتیوں اور نواسے، نواسیوں کے ہم راہ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں خوش گوار زندگی بسر کر رہے تھے کہ 15 جولائی 2019 ء بہ عمر 93 برس موت کے بے رحم ہاتھوں نے اس نکتہ آفریں شاعر کو ہم سے جدا کر دیا۔

بدن پہ پیرہن خاک کے سوا کیا ہے
مرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے
یہ شہر سجدہ گزاراں دیار کم نظراں
یتیم خانہ ادراک کے سوا کیا ہے
تمام گنبد و مینار و منبر و محراب
فقیہ شہر کی املاک کے سوا کیا ہے
تمام عمر کا حاصل بہ فضل رب کریم
متاع دیدہ نم ناک کے سوا کیا ہے
یہ میرا دعویٰ خود بینی و جہاں بینی
مری جہالت سفاک کے سوا کیا ہے
جہان فکر و عمل میں یہ میرا زعم وجود
فقط نمائش پوشاک کے سوا کیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments