مغربی ادب: افلاطون سے پوسٹ مارڈن ازم تک (دوسری قسط)


مغربی ادب یونان میں :

افلاطون سے پوسٹ مارڈرن ازم کی پچھلی قسط میں ہم نے زمانہ قدیم یعنی موسوی دور میں مغربی ادب کی بنیادی روایتوں یعنی ہیلینک اور ہیبریک کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ آئیں گفتگو کے اگلے مرحلے میں اب ہم یونانی دور میں چلتے ہیں اور مغربی ادب کے ارتقائی سفر پر نظر کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہی ہیں کہ حضرت عیسی کی پیدائش سے تین سے چار برس قبل کا یونان علم و ادب کا مرکز تھا درحقیقت مغربی ادب کی کم و بیش تمام اصناف کے بانی اسی دور میں پیدا ہوئے۔

ایتھنز کا کلچر سراسر ہیمونسٹ تھا جہاں پہلے پہل ڈیموکریسی پریکٹس ہوئی، جہاں ڈرامے اور تھیٹر کو عروج ملا، جہاں عظیم ترین درسگاہیں اکیڈمی اور لائسیم قائم ہوئی، جہاں سیاست، نفسیات، مذہب اور کم وبیش سماج کے ہر ایک علم پر ایسی فلسفیانہ کتابیں لکھیں گئیں جن سے پرورش پانے والی عظیم تر انسانی قدروں نے نہ صرف مغربی ادبی دنیا کو کلاسیکس عطا کیے بلکہ بعد ازاں عیسائیت میں شامل ہو کر اخلاقیات کے نئے زاویے بھی اس کی مذہبی قدروں میں شامل کر دیے جس کے اثرات آج کی جدید مغربی دنیا میں جابجا دکھائی دیتے ہیں۔

یونان کے تہذیبی منظر نامے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے اس دور کے سیاسی منظر پر ایک نظر ڈال لیں تاکہ ہمیں وہاں کی ایک عمومی معاشرتی ساخت کا اندازہ ہو سکے۔ یونان کی سماجی عظمت کے اس دور کو ہم ایٹک دور بھی کہتے ہیں۔ ایتھنز جو علمی تہذیب کا مرکز تھا وہ یونان کے ایٹک پینی سولا میں واقع تھا۔ 508 بی سی میں کلایستھینز ایتھینز کا سیاستدان تھا۔ اسے ہم بلاشبہ بابائے ڈیموکریسی کا لقب دے سکتے ہیں۔ اسی نے دنیا میں پہلی بار ا یتھینز میں جمہوریت کا تجربہ کیا تھا۔ اس کے فوراً بعد یعنی 497۔ 479 بی سی کے دوران فارس

نے کئی بار ایتھنز پر حملے کیے مگر ہر بار ناکام ہوا حتی کہ 477 بی سی میں تمام یونانی سلطنتوں نے ایتھینز کی رہنمائی میں ڈیلائن لیگ بنائی جس کا مقصد تمام یونانی اسٹیٹس نے مل کر فارس کے ان مسلسل حملوں کو روکنا تھا۔ پھر 461۔ 429 بی سی کے دوران ایتھنز میں پیراسیلز کی حکومت آ گئی۔ یہی وہ دور تھا جس دوران ایتھنز کو بے مثال خوشحالی نصیب ہوئی اور اسی دور کو ہم ا یتھنز کے لیے علم و آگہی اور تہذیب کا سنہرا دور یا کلاسیکل پیریڈ کہتے ہیں۔

مگر پھر 454 بی سی میں ڈیلائن لیگ کو ڈیلوز آئی لینڈ سے ایتھنز منتقل کیا گیا تو یونان میں ایک ناخوشگواری کی فضا ء پھیل گئی جو بالآخر ایتھنز اور اسپارٹا کے درمیان سخت سیاسی مخالفت کا سبب بنتی چلی گئی جس کے نتائج میں دونوں سلطنتوں کے درمیان پیلو پینیشین وار شروع ہو گئی۔ کئی برسوں کی طویل لڑائی کے بعد بالآخر اسپارٹا کو فتح نصیب ہوئی جس کے اثرات ایتھنز کی تہذیبی دنیا پر بھی پڑے۔ پیلو پینیشین وار کے بعد کئی ایک سیاسی و سماجی خلفشار یونان کے حصے میں آئے حتی کہ سلطنت اس قدر کمزور ہو گئی کہ 338 بی سی میں فلیپ آف میسی ڈون نے یونان پر قبضہ کر لیا اور پھر اس کے بعد اس کے بیٹے سکندر اعظم نے یونان سے نکل کر دنیا کے کئی حصوں پر اپنی حکومت کو پھیلانے کے سلسلے کو بڑھادیا اور یوں جنگ کے بادلوں نے دنیا کے کئی ایک بڑی سلطنتوں کو لپیٹ لیا حتی کہ یہ سلسلہ 323 بی سی

میں اس کی موت پر ہی آ کر رکا اور یوں یونان کے اس یادگار دور کا ہی خاتمہ ہو گیا۔

یونان کے اس کلاسیکل دور میں مغربی ادب کی بنیاد رکھی گئی۔ اس دوران خصوصاً نثری ادب یعنی ڈرامہ، تاریخ اور فلسفے کو عروج حاصل ہوا۔ ارسطو کی ’پوٹیکس‘ نے فلاسفی اور ادب کی بنیادی تھیوریز کا تعین کیا جس کے اثرات مغربی ادب پر بہت گہرے مرتب ہوئے۔ سیفو کی شاعری کو مرتب کیا گیا، پنڈر کی شاعری کی سترہ جلدوں میں طبع آزمائی اور اس کے ماسٹر پیس ایپی نیشیا کا ظہور ہوا۔ یونانی ڈرامہ ’ڈیانسیان گاڈ‘ جہاں مذہبی قدروں سے آراستہ تھا تو ارسٹافین کے کلاؤڈ نے مغربی ادب میں ابتدائی کامیڈین انٹلکیچوئل فیشن کی بنیاد رکھی۔

مجموعی طور پر اس دور کے ڈرامے طنزیہ (سائیتر) ، مزاحیہ (کامیڈی) اور رنجیدہ (ٹریجڈی) اقسام کے ہوتے تھے۔ ان ڈراموں میں ناچ گانے اور نغمے بھی ہوتے تھے جن کے ذریعے دیوی دیوتاؤں کی تعریف توصیف کی جاتی تھی۔ شروع میں ان ڈراموں میں ڈائلوگ کا رجحان نہیں تھا مگر پھر ان ڈراموں میں کئی ایک تجربات ہوئے اور نہ صرف اداکار بلکہ ڈائلاگ بھی شامل ہوتے چلے گئے۔ اس دور میں زیادہ تر ڈرامے مختلف فیسٹولز وغیرہ میں مقابلوں کی نیت سے پرفارم کیے جاتے تھے جن میں ایکٹر ز چہروں پر ماسک لگا کر اوپن ائر تھیٹرز میں پرفارم کرتے تھے۔

ان تھیٹرز کے بیچوں بیچ ایک اسٹیج ہوا کرتا تھا جہاں دیوی دیوتاؤں کے کردار نصب کیے جاتے تھے۔ ڈراموں میں عموماً قدیم یونانی دور کی کامیڈی پرفارم کی جاتی تھی جس دوران کبھی کبھار انتہائی فحش تو کبھی نہایت سنجیدہ یا رنجیدہ پرفارمنز دی جاتی تھی۔ ٹریجڈی ڈراموں کے مرکزی کرداروں کی کمزوریوں جسے یونانی ادبی زبان میں ’ہمارشیا‘ کہا جاتا ہے یا غیر ضروری غرور جسے یونانی اساطیر میں ’ہائیبرس‘ یا ’ہیوبرس‘ کہا جاتا ہے، کو شامل کر کے نتائج میں فطری مسائل اور مصیبتوں کو شامل کیا جاتا تھا۔ یونانی ادب کا یہ ارتقائی عمل مغربی اصناف کی نشو و نما کا قیمتی ترین دور تھا۔

(جاری ہے )

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments