نو پارکنگ


  

رضی بیٹا! میرے ساتھ گل پلازہ چلو وہاں سے چائے والے مگ خریدنے ہیں۔ اس بار بھی ماسی کے بغیر ہی سارے چائے کے مگ ٹوٹ گئے۔

ہم نے اپنی بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے بیٹے سے کراچی کے ایک شاپنگ سینٹر جانے کو بولا تو بیٹی حسب عادت معصومانہ انداز میں بولی کہ ”امی چائے کے مگ بہت کمزور تھے اسی لئے ٹوٹ گئے۔

ہاں جی! جب آپ کی اپنے بڑے بھائی سے لڑائی شروع ہوتی تو گھر کے گلاس اور مگ میں خود سے پر لگ جاتے اور ہوا میں اڑنا شروع کر دیتے۔

ہمارا بڑا بیٹا ہنستے ہوئے بہن کی طرف دیکھ کر بولا ”امی جی اس بار اسٹیل کے گلاس لائیں گے۔ ہم نے کہا کہ“ سوچ لو بیٹا! اسٹیل کے برتن سے چوٹ بھی زور دار ہی لگے گی۔ یہ سن کر ہماری بیٹی ہمیں یہ کہتی ہوئی دوسرے کمرے میں چلی گئی کہ آپ سب مجھے بہت تنگ کرتے ہیں۔

خیر ہم ماں بیٹے تیار ہو کر اپنی گاڑی کی طرف نکلے۔

ارے! گاڑی کا یہ ٹائر پھر سے پنچر ہو گیا؟ ابھی پرسوں ہی تو ہم نے نئی ٹیوب لگوائی تھی۔ ہم نے بیٹے کو ٹائر نکالنے کا بولا اور خود پڑوس میں مدد لینے نکلے کہ بیٹے کے ساتھ جا کر پنچر ٹھیک کروا لائیں۔

ہم اپنے اندر بڑبڑائے کہ ہر دو دن بعد دو سو سے ڈھائی سو کا پنچر لگ رہا آج یہ ٹائر تبدیل کروانا ہی پڑے گا۔

اللہ اللہ کر کے ہم ٹائر کے مسئلے مسائل حل کرتے ہوئے گل پلازہ پہنچے۔
امی چھ بجے شہر کی تمام مارکیٹ کرونا کی وجہ سے بند کردی جائیں گی آپ جلدی گاڑی پارک کردیں۔

لیکن ”بیٹا پلازہ کے اندر کافی رش نظر آ رہا ہے کیا شام چھ بجے سے پہلے اس رش میں کرونا نہیں پھیلتا؟ اور دیکھو زیادہ تر عوام نے چہرے پر حفاظتی ماسک بھی نہیں لگایا اور جنہوں نے لگایا ہے ان کے ماسک ناک سے نیچے ٹھوڑی پر لٹکے ہیں۔ اس مکمل حفاظتی اقدام کے ساتھ ہم دونوں تو اس شاپنگ سینٹر میں خلائی مخلوق لگیں گے چلو واپس گھر نکل چلتے۔

امی یہاں اتنی دور پہنچ کر واپس جانا میری سمجھ سے باہر ہے۔

لیکن بیٹا یہ چھ بجے سے پہلے اس طرح عوام کا کرونا میں ایس او پیز کے بغیر وہ بھی اتنے رش میں شاپنگ کرنا یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔

امی وہ گاڑی نکل رہی وہاں پارک کر دیں۔

ہم نے بھی دور سے نکلتی گاڑی اور اس جگہ کا جائزہ لیا دیوار کے ساتھ صرف گاڑیاں پارک تھیں اور ان کے آگے رکشے والے اپنے گاہک پکڑنے کھڑے تھے۔ ابھی ہم نے اپنی گاڑی پارک کرنے کو موڑی ہی تھی کہ سائیڈ سے ایک تیز رفتار موٹر سائیکل دو گاڑیوں کے درمیان سے نامعلوم طریقے سے داخل ہوئی پھر ہماری گاڑی کے سائیڈ والے شیشے سے صرف آسمان ہی نظر آنے لگا صرف ایک آواز آئی ”باجی سوری“ پھر یہ جا وہ جا۔

ہم چوں کہ کافی مہینوں سے شاپنگ کرنے کو ترسے ہوئے تھے ہم بھی شاپنگ سینٹر میں گم ہو گئے۔

تھوڑی دیر گزری پورے شاپنگ سینٹر میں ایک ہلچل مچ گئی کہ چھ بجنے والے ہیں کرونا کی وجہ سے سینٹر بند کرنا ہے۔ ہم ماں بیٹے اپنا مشن شیشے کے مگ لینے میں کامیابی کے بعد اپنی گاڑی کی طرف نکل پڑے۔

ارے! گاڑی کہاں گئی؟ اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھ کر ہمارا بیٹا ہمارے ساتھ گاڑی کو ڈھونڈنے لگ گیا۔

ہم نے قریب کھڑے ٹریفک پولیس کانسٹیبل سے جاکر پوچھا کہ ”بھائی یہاں ہماری گاڑی پارک تھی اب مل نہیں رہی۔

آپ کی گاڑی اٹھا کر لے گئے۔
ارے کیوں اور کون اٹھا کر لے گئے؟
باجی یہ نو پارکنگ ہے لوڈر اٹھا کر لے گیا۔
یہاں کب سے نو پارکنگ ہوئی؟
یہی کوئی بیس بائیس دن سے یہ والی جگہ نو پارکنگ پر ہے۔

تو بھائی یہاں نو پارکنگ کا بورڈ بھی تو لگانا تھا؟ ہمارے اس سوال پر کانسٹیبل ہمیں گھورتا ہوا آگے چلا گیا۔

ہم نے ایک رکشہ روک کر اسی کانسٹیبل سے پوچھا کہ یہاں سے گاڑیاں اٹھا کر جہاں لے جاتے اس رکشے والے کو وہ جگہ بتاؤ۔

گارڈن والے ہیڈ کوارٹر لے جاؤ۔

ہم ماں بیٹے رکشے میں سوار ہو کر مطلوبہ جگہ پر پہنچے تو ہماری گاڑی کافی موٹر سائیکلوں کے درمیان کھڑی ملی۔

ایک غیبی آواز آئی کہ اپنا سامان گاڑی میں رکھ کر یہاں ٹیبل کے پاس آجائیں۔

اپنی نظر اس آواز کی طرف دوڑائی تو گراؤنڈ میں ایک ٹیبل اور دو کرسیوں پر عام سے قمیص شلوار اور میلی چپل پہنے ایک صاحب ہماری طرف مخاطب ہوئے ”پانچ سو روپے لوڈر کے اور ہزار روپے نو پارکنگ کا فائن دیں۔

بھائی ہمیں وہاں کوئی نو پارکنگ کا بورڈ لکھا نظر نہیں آیا۔
اچھا ادی، پھر پانچ سو لوڈر کے اور باقی اپنی خوشی سے جتنا بھی دے دو۔
بھائی آپ رسید بنا کر دیں ہم فیس ادا کر دیتے۔
ادی آپ کے پاس گاڑی کے کاغذات موجود ہیں؟
ابھی ہمارے پاس صرف ڈرائیونگ لائسنس موجود ہے۔

ادی! پورے کاغذات بھی نہیں رکھتی اور رسید بھی مانگ رہی ہو؟ آپ کو ادی کہا اسی لئے پانچ سو لوڈر کے اور باقی اپنی خوشی سے جتنا بھی دے دو۔ آپ رسید بنوائیں گی تو پندرہ سو لگیں گے آپ کے لئے ہی آسانی کر رہا ہوں۔

بھائی! لوڈر سے اپنی گاڑی اٹھوانے میں ہماری کوئی خوشی نہیں، رکشہ والے کو سو روپے دینے میں ہماری خوشی نہیں پھر پانچ سو روپے وہ بھی بغیر رسید کے اپنی خوشی سے کیوں دیں؟ آپ ہم پر کوئی آسانی نہیں کریں ہم پورا فائن دیں گے بس آپ پکی رسید بنا کر دیجئے۔

ہماری یہ بات سن کر ان صاحب نے ہم سے بات کرنی بند کردی۔

کچھ دیر ہمیں کھڑا رکھنے کے بعد بولے کہ نام لکھوائیں۔ ہم نے اپنا نام بتایا تو جواب ملا کہ اپنے اس بیٹے کا نام لکھوائیں۔

بھئی گاڑی ہم چلاتے، نو پارکنگ پربھی ہم نے کھڑی کری پھر اپنے بیٹے کا نام کیوں لکھوائیں؟
ادی آپ کا نام نہیں لکھا جائے گا آپ کے بیٹے کا نام لکھے جائے گا اور پیسے دے ٹائر لے جائیں۔
ہم بولے کہ پکی رسید بنا کردیں اور فائن کی رقم لے لیجیے۔
ہماری یہ بات ان صاحب کو کافی ناگوار لگ گئی پھر بولے کہ ”ادی کاغذات نا رکھنے کا فائن بھی لگا دوں؟
ہم نے کہا کہ لگا دیجئے۔
لیکن وہ حضرت اپنی بات پر ضد لگا کر جمے رہے۔

افسوس کے ساتھ جیت بغیر رسید کے آٹھ سو روپے اور ہمارے بیٹے کے نام کو رجسٹر میں لکھ کر اس دھوکے باز دقیانوسی نظام کی ہوئی۔

اپنی گاڑی میں بے بسی میں بیٹھتے ہوئے ہم بولے کہ ”بیٹا! آج بی بی کے اس شہر میں ہم نے کھایا پیا کچھ نہیں لیکن گلاس ٹوٹا نو سو روپے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments