آہ یہ عورت


وہ میرے سامنے بیٹھ کر بلک بلک کر رو رہی تھی ایک آنسوؤں کا ریلا تھا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا، ساتھ ساتھ بولتی بھی جا رہی تھی بلکہ بین کر رہی تھی، وہ میرے سر کا سائیں تھا، میرا سائبان تھا، میرے بچوں کا باپ تھا، ہائے میرے بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ اس کی بیٹیاں بھی سسکیاں لے لے کے رو رہیں تھیں۔ میں ان کو تسلیاں دے رہی تھی، صبر کرو، اللہ بڑا کریم ہے بہتر کرے گا لیکن میرے الفاظ میرے دل کا ساتھ نہیں دے رہے تھے، میں جانتی تھی جب باپ کا سایہ سر سے اٹھ جائے تو کوئی حوصلہ دینے والا نہیں ہوتا، لگتا ہے اب دنیا میں آپ بالکل تنہا ہو گئے ہیں۔ میرے والد کو ہم سے جدا ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں لیکن اب بھی ہر لمحہ ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ نظروں کے سامنے ہوتا ہے۔ دوسروں کا دکھ دیکھ کر اپنا دکھ بھی یاد آ جاتا ہے۔

ذکیہ میرے گھر میں پچھلے کئی سالوں سے کام کر رہی ہے۔ بہت اچھی اور صابر عورت ہے، ابھی چار دن پہلے اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ وہ پچھلے سال سے بیمار رہنے لگا تھا، بیچاری اس کو ہر مہینے کسی نہ کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاتی تھی، کوئی کہتا انتڑیوں میں سوزش ہے تو کوئی کہتا گردے میں پتھری ہے، غرض کہ بیچاری سخت پریشان تھی، شوہر پچھلے دس سال سے گھر بیٹھا تھا، کوئی کام دھندہ نہیں کرتا تھا۔ پہلے رکشہ چلاتا تھا، شومئی قسمت پاؤں رکشا چلاتے ہوئے مڑ گیا اور ٹوٹ گیا، اور پھر غربت اور تنگدستی کے ہاتھوں نہ صحیح علاج ہو سکا، اور سونے پہ سہاگہ گاؤں کے حکیموں نے اپنی جاہلیت کے ہاتھوں اس کے پاؤں کو بالکل ناکارہ کر دیا، اور اسے گھر بیٹھنے کا بہانہ مل گیا۔

میں اس کو اکثر غصے میں کہتی، کہ ایک پاؤں نہیں ہے تو کیا ہوا اسے کہو کوئی محنت مزدوری کرے، وہ فوراً جواب دیتی، نہیں باجی جب وہ کام کرتا تھا تو مجھے کبھی بھی کام کرنے کا نہیں کہا، یہ تو بس بیچارے کے ساتھ انہونی ہو گئی، اب وہ کہاں باہر جا کر دھکے کھائے۔ کوئی بات نہیں سارا دن گھر بچوں کے پاس ہوتا ہے تو مجھے فکر نہیں ہوتی۔ وہ اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ چار گھروں میں کام کرتی ہے، پھر بھی پوری نہیں پڑتی کیونکہ آٹھ بچوں کا پیٹ پالنا کون سا آسان کام ہے۔ اور مہینے کے آخر میں سارے پیسے شوہر کے ہاتھ پر رکھ دیتی تھی۔

اتنا بلند ظرف ایک عورت کا ہی ہو سکتا ہے، کون سا مرد ہے جو ایک معذور عورت کو برداشت کریے، بے شک وہ۔ اس کے بچے کو جنم دیتے ہوئے ہی کسی معذوری کا شکار کیوں نہ ہو گئی ہو۔ مرد کو تو مسئلہ ہوتا ہی ہوتا ہے ماں بہنوں اور رشتہ داروں کو زیادہ فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں، ہائے بیچارے کی روٹی کون پکائے گا، کپڑے کون دھوئے گا، گھر کون سنبھالے گا، بس یہ عورت تو اب بیکار ہے اب جلدی سے دوسری شادی ہو جانی چاہیے۔

کئی ایسے مرد دیکھے ہیں کہ ابھی بیوی کا کفن میلا نہیں ہوتا تو شادی رچا لیتے ہیں، نہ زمانے کا خوف نہ بچوں کی فکر، بھئی یہ تو ان کا شرعی حق ہے تو شرع میں شرم کیسی؟ اور گر کوئی عورت ایسا کرے یا سوچے بھی تو اس سے بڑا بدکردار کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ حیا، شرم، وفا شعاری سب عورت کے لئے ہی تو لازم و ملزوم ہیں اس سے مرد کا کیا لینا دینا ہے۔

یہ عورت جو رو رو کر دہائی دے رہی ہے اب میرے بچوں کے پاس کون ہو

گا، باجی پہلے تو دیر سویر سے بھی گھر چلے جاتے تھے لیکن کوئی فکر نہیں ہوتی تھی ان کے باپ کو پتہ ہوتا تھا ہم کدھر ہیں اور کیوں دیر سے آئے ہیں، اب میں کس کس کو جواب دوں گی۔ وہ صحیح تو کہہ رہی ہے، وہ جانتی ہے اکیلی عورت کا اس گلے سڑے معاشرے میں کیا حال ہوتا ہے، کیونکہ ہمیں اپنے گھر پر توجہ دینے کی بجائے دوسروں کے بارے میں جاننے کا زیادہ تجسس ہوتا ہے۔ اور جب جوان بیٹیوں کا ساتھ ہو، اور دو وقت کی پیٹ پوجا کے لئے کام بھی کرنا ہو، تو ایک بے بس عورت اور پھر بیوہ، جس کے پاس اب شادی شدہ ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی نہیں ہے۔ کیسے زندگی گزارے گی۔

وہ پچھلے دس سال سے اپنے شوہر کو گھر بٹھا کر کھلا رہی تھی لیکن خوش تھی کہ سر کا سائیں موجود ہے، وہ ہر مہینے کے آخر میں سارے پیسے اس کے سامنے جا رکھتی تھی اس کو ایک ایک پیسے کا حساب دیتی تھی اس کی مرضی کے بغیر کچھ خرچ نہیں کر سکتی تھی، لیکن پھر بھی مطمئن تھی کہ بچوں کا باپ سلامت ہے، اسے ہر مہینے یا ہفتے بعد اپنی عزت نفس کو کچل کر اس کے علاج کے لئے پیسے مانگنے پڑتے تھے مگر وہ اس کے باوجود رب کائنات سے دعا گو تھی، کہ وہ اس کو شفا دے، زندگی دے۔

کیونکہ وہ ایک عورت ہے، عورت ان پڑھ ہو یا پڑھی لکھی، امیر ہو یا غریب بس اس کی گٹھی میں ڈال دیا گیا ہے کہ شوہر سے محبت اور وفا ہی اس کے لئے بیش بہا خزانہ ہے اور اس کا خاندان اس کی دنیا ہے۔ یا شاید مرد جانتے ہیں کہ ماں اور بیوی بننا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ اس لئے عورت کے دماغ میں ٹھوکے جاتے ہیں، کیونکہ وہ تو بنی ہی اس مصرف کے لئے ہے۔ اور عورت کو تو بس اسی پر فخر کرنا چاہیے۔ عورت بیوہ ہو جائے تو اس کے اٹھنے بیٹھنے پہناوے تک کو تنقیدی نظروں سے دیکھا جاتا ہے، اگر اچھے کپڑے پہن لے یا چوڑیاں پہن لے تو لوگوں کے کلیجے پھٹ جائیں اور اگر مرد بیوی کے مرنے کے ایک مہینے بعد ہی سوٹ بوٹ پہن کر پوتے پوتیوں کے ہوتے ہوئے بیاہ رچا لے تو یہ اس غریب کی مجبوری ہے، بھئی بچے تو اپنے اپنے خاندان میں مصروف ہیں، تو اس بیچارے کی دیکھ بھال کون کرے، گھر کون سنبھالے۔

ذکیہ بیچاری بھی انہی ہزاروں لاکھوں عورتوں میں سے ایک ایسی عورت ہے جس کو اپنی مفلسی اور تنگدستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر گھر سے نکلنا پڑے گا، اور دنیا کی گلی سڑی نظروں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اللہ اس کو۔ ہمت اور حوصلہ دے، اور ہمیں اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لانے کی توفیق دے۔ اگر ہو سکے تو ایسے عورتوں کی اخلاقی اور معاشی معاونت کریں نہ کہ ان کے لئے وبال جان بن جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments