لیٹرین۔ موبائل فون۔ رفع حاجت


خلوت ایک جادوئی نعمت ہے۔ خیالات اور تصورات کے گھوڑے ارض و سماء میں دوڑانے کا مزہ اور اس کا احساس ایک ماورائی قوت دیتا ہے۔ گیان کی طلسماتی دنیا اور نروان کے ادراک کے سفر میں سوالوں کے جواب اور پھر سوال کی لذت تنہائی ہی میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ تنہائی میں انسان خود شناسی کی کوشش کرتا ہے سوچتا و فکر کرتا ہے۔ تفکر کرتا ہے۔ تخلیق اور تنقید کا جائزہ لیتا ہے۔

کبھی رفع حاجت بھی ایک کام ہوا کرتا تھا۔ سویرے سویرے جاگنا پانی کا لوٹا بھرنا اور کھیت کی طرف۔ کھلا آسمان ٹھنڈی ٹھنڈی صبح۔ بیلیوں کی ٹولی ہنسائے کھیڈے۔ گلے شکوے۔ حساس سماجی معمولات پر مختلف زاویوں سے بحث و تکرار۔ بستی کا خبر نامہ لوٹا پارٹی کے نامہ نگاروں کی زبانی۔

پھر گھروں میں لیٹرین بن گئے اور ذاتی تنہائی کا وقت سوچ بچار کرنے، کاروباری اور روزمرہ کی منصوبہ بندی تکے اور بے تکے خیالات۔ تخلیقی خیالات کی آمد اکثر یہیں ہوتی۔ جسم اور ذہن دونوں کا بوجھ کم ہو جاتا۔ پر اب کمروں میں لیٹرین ہیں۔

دوڑتی ہوئی تیز تر ترقی موبائل فون اور انٹرنیٹ جیسی ایجادات نے تو جیسے تنہائی کی تعریف ہی بدل کر رکھ دی ہے۔ خلوت کے لمحے اب ماضی کا خیال لگتے ہیں۔ ملینیم نسل کا آدمی سانس بھی شاید انٹرنیٹ اور موبائل فون سے لیتا ہے۔ سوتے جاگتے چلتے پھرتے چہل قدمی کرتے میل ملاقات کرتے ہر پل موبائل فون ساتھ ہے جیسے آدمی کے وجود کو کنٹرول کرنے والی ایک بیرونی ڈیوائس جس کو چارج کرو استعمال کرو اور چلتے چلو چوہا ریس میں اپنی اپنی دوڑ دوڑتے چلو جیتتے چلو۔ کیونکہ اسی رفتار میں ہی تو سرمایہ دارانہ نظام کی بقا ہے۔

جب وقت بدلا اور آدمی کی تنہائی میں چپکے سے انٹرنیٹ کا وائرس اپنی نت نئی اقسام جس میں بہت زیادہ تیزی سے پھیلنے والا سوشل میڈیا ویرینٹ ہمراہ موبائل فون گھس بیٹھے۔ اب ہر وقت آدمی نے ان کے ساتھ ہنسی خوشی رہنا شروع کر دیا۔ صبح جاگنے سے لے کر بستر تک ہر لمحہ یہ ساتھ ساتھ۔ اس وائرس کا تعلق دماغ سے ہے۔ دماغ کے وائرس کی ویکسین صدیوں میں ایجاد ہوتی ہے۔ سب سے مشکل علاج سوچ کا بدلنا ہے جس میں وقت لگتا ہے۔

نیو ملینیم میں رفع حاجت کے لئے موبائل فون لازم ہے۔ آدمی کموڈ پر بھی فارغ نہیں بیٹھ سکتا۔ یوٹیوب فیس بک ٹک ٹاک انسٹا گرام اور جانے کیا کیا بس انگلی کے اشارے پر جو چاہو دیکھو پڑھو اور کمنٹ کرو۔ ان لائن شاپنگ کرو دنیا جہان کے ساتھ رابطے میں رہو۔ وقت کا بھرپور استعمال کرو۔ سکون سے پاٹی بھی نہیں کر سکتے اور کرنے کے بعد بھی اس پر بیٹھے ہو کیونکہ موبائل شریف نے اٹھنے کی اجازت نہیں دی جب یکایک خیال آیا بیٹھے بیٹھے تھک گئے ہیں فلش کیا اور اگر وہ بھی بھول گے تو اگلا آنے والا فلش کر دے گا اور یہ جا وہ جا۔ موبائل اسکرین پر نظریں جھکائے روزمرہ کی دوڑ میں دوڑتا آدمی۔ کاپی پیسٹ روزمرہ کا روبوٹ۔ جو خودی سے کائنات کا مصروف ترین اثاثہ ہونے کے غرور میں مبتلا اسپیشی ہے۔ پر سکون سے پیشاب بھی نہیں کر سکے۔

آدمی نے وقت تو بچا لیا پر کس لئے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments