سینیٹر عرفان صدیقی کا ناقابل اشاعت کالم: کچھ اہل دانش کی مختصر آرا


سینیٹر عرفان صدیقی کے ناقابل اشاعت کالم پر کچھ اہم اہل دانش کی مختصر آرا موصول ہوئی ہیں۔ جو کہ حاضر خدمت ہیں۔ اصل کالم پڑھنے کے لئے ذیل کے لنک پر کلک کیا جا سکتا ہے۔

ان دنوں حقیقت پر مبنی ہر تحریر ناقابل اشاعت ہےآپ کو معلوم ہونا چاہیے تھا “سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے”۔

(عطا الحق قاسمی)

اس تحریر کی اشاعت روکنے کی کوئی جائز وجہ نظر نہیں آتی۔ معلوم ہوتا ہے کہ سیلف سنسر شپ کی کارفرمائی ہے۔

(عارف نظامی)

میں نے آپ کا مضمون پہلی بار ٹرین میں پڑھا۔ دوسری بار ابھی آفس آ کر پڑھا۔ آپ ذمہ دار صحافی ہیں، جو لکھا ہوگا یا لکھا ہے یقیناً ذمہ داری کے ساتھ ہے۔ مجھے اس مضمون میں کوئی ناقابل اشاعت بات یا مواد نظر نہیں آیا

(شفیع نقی جامعی)

جناب من یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ کسی بھی اخبار کے ایڈیٹر کو اپنے اخبار میں چھپنے والی کسی تحریر کو ایڈٹ کرنے کاحق حاصل ہے۔ اسے سنسر شپ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایڈیٹر کو اپنی رائے یا اعتراض واضح طور پر کالم نگار کو بتا دینا چاہئیے۔ ایڈیٹر پوسٹ مین نہیں ہوتا کہ جو کچھ اس کے پاس پہنچے، من و عن پرنٹنگ پر یس میں بھجوا دے۔ کسی ایڈیٹر نے اپنا حق یا اختیار آزادانہ استعمال کیا ہے یا کسی دباو کے تحت اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ لیکن اسے بھی یک طرفہ نہیں ہو نا چاہئیے

(مجیب الرحمان شامی)

میری ناقص رائے میں کوئی قابل اعتراض جملہ اور لفظ نہیں جس کو ناقابل اشاعت قرار دیا جائے

(ارشاد احمد عارف)

دیانت داری سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے اس میں کچھ قابل اعتراض معلوم نہیں ہوا۔ یہ میری معروضی رائے ہے۔ اس کا ہمارے ذاتی تعلق اور باہم احترام سے کوئی تعلق نہیں۔

(نصرت جاوید)

اس کالم میں آپ نے خالص سچ شائستگی کے ساتھ لکھا ہے اور خالص سچ آج کل صحافتی ہاضمہ کے لئے مُضر ہے۔

(ابصار عالم)

معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپکے اس کالم میں نہیں بلکہ آپ کے اندر ایک بہت بڑی کمزوری تھی۔ یہ دراصل آپکے ادراک کی کمزوری تھی اور وہ یہ کہ آپ نے یہ کالم لکھ کر ایسے اخبارات کو بھیجا جو صحافت نہیں، صرف کاروبار کر رہے ہیں۔ اچھی صحافت اچھا کاروبار بن سکتا ہے لیکن جب کاروبار بچانے کے لئے صحافت کی جائے تو پھر وہ صحافت نہیں رہتی افسوس آپ کو یہ بات سمجھ نہیں آئی لیکن آخرکار آپکا کالم ہم تک پہنچ ہی گیا۔  اور ان کے ذریعہ پہنچا جو کاروبار نہیں، صرف صحافت کر رہے ہیں

(حامد میر)

جناب ماورائے آئین طاقتیں ماضی کے واقعات کا ذکر بھی عوام سے چھپانا چاہتی ہیں کیونکہ مستقبل میں اسی طرح کا کام کرنے کے عزائم ادارتی طور پر موجود رہتے ہیں۔ اسی لیے ان موضوعات پر تقریر اور تحریر شجر ممنوعہ ہے۔

(مرتضی سولنگی)

مجھے ہمیشہ میڈیا سے بہت دلچسپی رہی ہے۔ پرنٹ میڈیا نے آپ کا کالم جس میں بظاہر کوئی قابل اعتراض بات بھی نہیں تھی شائع نہ کرکے اپنے خاتمے اور سوشل میڈیا کو راستہ دینے کا خود ہی اعلان کر دیا ہے۔ اب روایتی میڈیا میں سکت نہیں رہی کہ جبر کے نظام کے سامنے کھڑا ہو سکے اور عوامی جذبات کی ذرہ بھر بھی نمائندگی کر سکے۔ معمول کی خبروں والا شعبہ الیکٹرانک میڈیا پہلے ہی روزناموں سے چھین چکا ہے۔ پاکستان میں اب اگر کوی ہفت روزہ یا پندرہ روزہ سیاسی میگزیں شروع ہو جس کا انحصار سرکاری اشتہارات پہ نہ ہو تو وہ البتہ کچھ مزاحمت کر سکتا ہے۔

(ظفر حجازی)

صحافت اور ابلاغیات کے شعبہ تدریس سے منسلک ہونے کے سبب میں خود کو صحافت کی ایک طالب علم خیال کرتی ہوں۔ آپ کی ویب سائٹ پر شروع ہونے والا قومی مباحثہ ہمارے طلباء و طالبات میں بھی موضوع بنا ہوا ہے۔ میں نے عرفان صدیقی صاحب کا کالم ایک سے زیادہ بار پڑھا۔ جامعہ کے طالب علموں کے ایک گروپ میں بھی اس پر خاصی بحث ہوئی۔ سچی بات یہ ہے کہ اس کالم میں کوئی ایک بھی ایسی بات نہیں جسے ناقابل اشاعت قرار دیا جائے۔ یہ تقاضا تو بالکل ہی مضحکہ خیز لگتا ہے کہ بیس سال پہلے کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ان کرداروں کے نام نہ لئے جائیں، جنہوں نے صدر محمد رفیق تارڑ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔

اگر ہم اپنی نئی نسل کو اپنی تاریخ سے اتنا ہی نا بلد رکھنا چاہتے ہیں تو اس قوم کا کیا بنے گا؟ عرفان صدیقی صاحب خوبصورت ادبی زبان لکھنے والے کالم نگار ہیں۔ وہ اپنی بات کو بڑے سلیقے سے بیان کرتے ہیں۔ کم از کم تین دہائیوں کا تجربہ رکھنے والا شخص بھی اگر اس طرح کے سنسر کی زد میں آتا ہے تو اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

آپ نے بہت اچھا کیا کہ اس مسئلے کو ایک قومی ایشو بنا کر مباحثے کا پلیٹ فارم فراہم کر دیا ہے۔ ابلاغیات کے شعبے سے تعلق ہونے کے باعث میں سنجیدگی سے سوچتی ہوں کہ کیا اب اپنی تاریخ کا تذکرہ بھی جرم ٹھہرا ہے؟ کیا اب ہماری زمین اتنی ہی بنجر ہو گئی ہے کہ اس میں سچائی کا کوئی بیج پھوٹ ہی نہیں سکتا؟ میں اسے سیاست سے بالکل ہٹ کر ایک قومی المیہ خیال کرتی ہوں۔ اس المیے کا ایک سبب وہ خوف ہے جو ہمارے ذہنوں اور دلوں میں بٹھا دیا گیا ہے۔

اچھے خاصے جمہوری سوچ رکھنے والے بھی، سچ بات کہنے کا وقت آئے تو منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔ تاہم عرفان صدیقی صاحب کے ناقابل اشاعت کالم نے بیداری کی زبردست لہر اٹھائی ہے۔ اس سے واضح ہو گیا ہے کہ سچ لکھنے کی جسارت کرنے والے اب اخبارات کے محتاج نہیں رہے۔ انہیں ہزاروں لاکھوں قارئین میسر آ گئے ہیں۔ براہ کرام آپ اپنے مقبول پلیٹ فارم کے ذریعے یہ سلسلہ جاری رکھیے۔

(ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر)

اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین۔ مسئلہ اس تحریر کا نہیں اس سے کہیں زیادہ تلخ باتیں چھپتی ہیں۔ مسئلہ آپ کے نام کا ہے۔ آپ کا نام کے ساتھ زیادہ حساسیت آ جاتی ہے۔ اگر کثیر الاشاعت اخبار آپ سے معذرت کر گیا تو اندازہ لگا لیں۔ بہت سے اخباری مالکان تو اب کاروباری شخصیات ہیں اگر ہم یہ سمجھیں کہ وہ صحافت کی خدمت کرنے نکلے ہیں یا تاریخ درست کرنے نکلے ہیں تو یہ ہماری سادگی ہو گی۔

ویسے نہ چھاپ کر یہ کالم کہیں زیادہ پڑھا گیا لہذا ہمیں شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ آپ غور کریں کہ مریم بی بی کو میاں صاحب نے سارا زور کر بھی زیادہ سے زیادہ منظر عام پر جگہ ہی دلوائی تھی، ریاستی اہل کاروں اور عمران خان نے تین سال سے کم عرصے میں مریم نواز کو پاکستان کی سب سے بڑی لیڈر بنا دیا اور اس مقام پر لے گئے کہ اب اسے کوئی سیاست میں چیلنج نہیں کر سکتا۔

(انیق ناجی)

میں نے عرفان صدیقی صاحب کے زیر بحث کالم کو دو تین بار پڑھا۔ مجھے اس میں کوئی بات بھی ناقابل اشاعت نہیں لگی۔ جتنا میں اپنے پریس لاز کو جانتی ہوں مجھے اس کالم کا کوئی نقطہ یا جملہ پریس کے مروجہ قوانین یا ضا بطوںسے متصادم نظر نہیں آتا۔ اگر صحافتی اقدار کی بات کریں، تو بھی اس کالم میں کوئی شے قابل اعتراض نہیں۔ سو میری رائے میں یہ کالم کسی بھی پہلو سے ناقابل اشاعت نہیں ہے۔ اس کے برعکس مجھے تو یہ لگتا ہے کہ اسے نہ چھاپنے سے عوام کے جاننے کا حق مجروح ہوا ہے۔ اگر یہ کالم شائع کر بھی دیا جاتا تو کوئی خاص فرق نہ پڑتا کیوں کہ طاقت کے ایوانوں میں ہونے والی اس رسہ کشی سے سبھی واقف ہیں۔
لیکن ہماری تاریخ کا ” نازک موڑ” ایک ہی مقام پر رکا ہوا ہے۔ جیسے وقت ٹھہر گیا ہو۔ یہ سلسلہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ جیسا کہ میں نے اپنی رائے بتا دی ہے کہ میرے خیال میں کوئی قابل گرفت لفظ بھی استعمال نہیں ہوا نہ ہی کوئی قومی راز فاش کیا گیا ہے۔ تاہم ممکن ہے کہ ایڈیٹر صاحب موجودہ حالات کے تناظر میں اپنے ادارے کو مشکلات سے بچانے کے لئے یہ کالم چھاپنے سے گریز کر رہے ہوں۔ ایڈیٹر کی کرسی پر بیٹھ کر فیصلہ کرنا کچھ اور ہوتا ہے اور گھر کے پر سکون ماحول میں بیٹھ کر اصولی رائے دینا کچھ اور۔

(آمنہ مفتی)

آپ نے ایک سوال اٹھایا ہے کہ آپ کی ایک ایسی تحریر اخبار میں جگہ کیوں نہ پا سکی جس میں ایک تاریخی واقعے کا ذکر تھا اور اس میں چند ریٹائر افسروں کے نام آتے تھے۔ یوں یہ سوال اس معاشرے میں کچھ ایسا اجنبی نہیں کہ یہ قوم دہائیوں سے اسی قسم کے تجربات سے گزر رہی ہے لیکن زمانہ حال، لگتا ہے کہ ماضی پر بازی لے گیا ہے۔ یہ بازی کیسے ماری گئی ہے، اس کے ذکر سے قبل بہتر ہو کہ ایران کے تجربے کو سمجھ لیا جائے۔

ادیب اکبر مخدومی مختار مسعود نے لکھا ہے کہ جن دنوں شہنشاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب کی ابتدا ہو رہی تھی، اول اول اشرافیہ انقلاب کی خبروں سے صرف نظر کرتی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان لوگوں کی دلچسپی خبروں میں پیدا ہو گئی لیکن گفتگو میں حصہ لینے سے گریز کرتے۔ بعد کے زمانے میں ان موقع شناس لوگوں نے حالات کا رخ بھانپ لیا اور اس موضوع پر بڑھ چڑھ کر تبصرے کرنے لگے۔

 اس تجربے کی روشنی میں آپ کے اٹھائے ہوئے سوال کا جائزہ لیا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ یہ قوم بہت سے رازوں سے آگاہ ہے اور ان کا تجزیہ کر کے اپنے لیے لائحہ عمل مرتب کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس قومی سرگرمی میں ذرائع ابلاغ کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔ خود احتسابی یا خود شناسی کا یہ زمانہ گزر جانے کے بعد جب فرزندان وطن مختلف طبقات کی فرد عمل کا جائزہ لینے کے بعد انھیں جزا و سزا دینے کا فیصلہ کریں گے تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس طبقے کے ساتھ ویسا ہی سلوک نہ ہو جیسا انقلاب ایران کے بعد انقلاب کے مخالفین یا مصلحت کوش طبقات کے ساتھ کیا گیا تھا۔

(فاروق عادل)

اس تحریر کی اشاعت سے انکار دراصل ہمارے اخباری صحافت کے زوال کا آئینہ دار ہے۔ صحافتی ادارے آزاد اور منصفانہ طور پر کیسے کام کر سکتے ہیں اگر ان کا وجود کسی ایک یا دوسری سیاسی جماعت سے وابستگی پر منحصر ہو گا۔ آپ نے ہماری سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب دیانت داری سے بیان کیا ہے۔ میری تجویز ہو گی کہ آپ ان مشاہدات کی بنیاد پر ایک کتاب لکھیں۔

(عکسی مفتی)

سلامت رہیں سر آپ تاریخ کو محفوظ کر رہے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ اس میں کوئی ناقابل اشاعت بات ہے تاہم اب تو بہت کچھ ناقابل اشاعت قرار پایا ہے۔

(رضی الدین رضی)

بڑی سیدھی بات ہے۔ اس کالم میں چار فوجی جرنیلوں کے نام ہیں۔ کالم شائع کرنے میں بھلا اور کیا چیز مانع ہو گی؟

جہاں اخبار فردوس عاشق اعوان اور فیصل واؤڈا کے خلاف لکھے جانے والے کالموں سے ان دو افراد کے نام نکال دیتے ہوں وہاں جرنیلوں کا نام چھاپنے کی جرآت کون کرتا ہے؟

خالد مسعود (کالم نگار)

آپ کے کالم سے آئین شکن جرنیلوں کی شان میں گستاخی کا تاثر ملتا ہے۔ اگرچہ جن جرنیلوں کا آپ نے ذکر کیا ،وہ قصہ پارینہ ہوچکے مگر ان کا ذکر کرنے سے عہد حاضر کے “پرویز مشرف“ اور“جنرل محمود“ کے افعال کی طرف دھیان جا سکتا ہے۔  کیا یہی وجہ کافی نہیں ؟

(بلال غوری)

آپ کا یہ کالم صحافتی اعتبار سے تو قابل اشاعت ہے. ظاہر ہے اس میں کوئی بات تاریخی اعتبار سے غلط، توہین آمیز یا حساس نہیں ہے۔ البتہ آپ جانتے ہیں کہ آج کل کے حالات میں کوئی اخبار اسے چھاپنے کا رسک نہیں لے گا. ہر کوئی زیر عتاب آنے سے ڈرتا ہے۔ یہ ہمارے میڈیا کا المیہ ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ ابھی ایسی تحریریں سوشل میڈیا اور نیوز ویب سائٹس پر شائع ہو جاتی ہیں، مجھے تو خطرہ ہے کہ یہ آزادی بھی جلد سلب ہوجائے گی

(عامر خاکوانی)

میرے خیال میں تو آپ کا یہ کالم ہماری 70 سالہ ناقابل رشک اور تلخ سیاسی حقیقتوں کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ایسی حقیقت جس کا اظہار طاقتور حلقے کھلے عام نہیں چاہتے کہ وہ عوام میں زیر بحث آئے اور عام آدمی میں سیاسی بیداری پیدا ہو۔ انہیں میڈیا میں اس طرح کی آزادانہ آوازیں پسند نہیں ہیں کیونکہ یہ بنیادی طور پر سویلین بالادستی کا بیانیہ ہے۔ اب میڈیا میں اتنی سکت نہیں کہ اس بیانیہ کا بوجھ اٹھا سکے۔

علاوہ ازیں آپ نے کالم میں صدر تارڑ اور اعلی فوجی افسران کے مابین استعفی سے متعلق ہونے والی گفتگو کے جو مکالمے (جِنکی صداقت سے انکار نہیں) تحریر کیے ہیں، غالب امکان ہے کہ یہی اہم نکات کالم کے ناقابل اشاعت ہونے کی وجہ بنے ہیں۔

بیرسٹر راشد اقبال (کینیڈا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments