نتن یاہو کے 12 سالہ اقتدار کا خاتمہ، پارلیمان نے نئی اتحادی حکومت کے منظوری دے دی


اسرائیل کی پارلیمان نے اتوار کو نئی اتحادی حکومت کے قیام کی منظوری دے دی اور اس طرح بنیامن نتن یاہو کے 12 سالہ اقتدار کا اب خاتمہ ہو گیا ہے۔

دائیں بازو کے قوم پرست نفتالی بینیٹ نئے وزیر اعظم کے عہدے حلف اٹھائیں گے۔

اقتدار کی شراکت سے متعلق معاہدے میں یامینا پارٹی کی سربراہی کرنے والے مسٹر بینیٹ، ستمبر 2023 تک اس عہدے پر فائز رہیں گے جبکہ مزید دو سالوں کے لیے اقتدار سینٹرسٹ یش اتید کے رہنما، یائیر لاپڈ کے حوالے ہو گا۔

نئی حکومت جو مختلف پارٹیوں کا اتحاد ہے صرف ایک نشت کی معمولی اکثریت رکھتی ہے۔

اتوار کو بینیٹ نے سالوں تک اسرائیل کی خدمات کے لیے مسٹر نتن یاہو کا شکریہ ادا کیا۔

انھوں نے کہا کہ نیا اتحاد ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول کی اجازت نہیں دے گا۔

نتن یاہو سب سے طویل عرصے تک اسریئل کے وزیر اعظم رہے ہیں جو سالوں تک سیاسی افق پر چھائے رہے۔ نتن یاہو لیکود پارٹی کے رہنما برقرار رہتے ہوئے حزبِ اختلاف میں رہیں گے۔

انھوں نے پہلے ممکنہ حکومت کو ’فراڈ اور ایک خطرناک اتحاد‘ قرار دیتے ہوئے بہت جلد اسے ’ختم کرنے’ کے عزم کا اظہار کیا۔

دریں اثنا ان کے خلاف رشوت، دھوکہ دہی اور اعتماد کو نقصان پہنچانے کے الزامات کا مقدمہ جاری ہے۔

اتحاد کی جانب سے امن برقرار رکھنے کی کوشش

اس سے قبل نیا اتحاد یہاں کنیسیٹ کے راہداریوں میں آخری لمحے کی محاذ آرائی سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ نفتالی بینیٹ اور یائیر لاپڈ سیاسی مجبوریوں کے باوجود ماحول کو پرسکون رکھنے کی کوشش میں دکھائی دیے۔

یہ بھی پڑھیئے

’نتن یاہو مشرق وسطی میں امن خراب کر رہے ہیں‘

نتن یاہو: اقوام متحدہ ’جھوٹ کا گڑھ‘ ہے

اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو تاریخی فتح کے قریب

ہفتہ کی رات نامزد وزیر اعظم نے نتن یاہو کے گھر کے باہر جمع ہونے والے مظاہرین سے اپیل کی کہ وہ ’اشتعال انگیزی‘ سے بچیں۔

انھوں نے نتن یاہو کی جانب سے متعدد الزامات کے بعد بھی خود پر کنٹرول رکھا۔

نتن یاہو نے پانچ مرتبہ یہ عہدہ سنبھالا ہے جو ایک ریکارڈ ہے ۔پہلی بار 1996 سے 1999 تک ، پھر 2009 سے لے کر 2021 تک ۔

انھوں نے اپریل 2019 میں ایک الیکشن کرایا لیکن نئی مخلوط حکومت تشکیل دینے کے لیے خاطر خواہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے بعد دو اور انتخابات ہوئے جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔

تیسرا انتخابات نیشنل یونیٹی کی حکومت کے حق میں آیا جہاں نتن یاہو نے اس وقت کے حزب اختلاف کے رہنما بینی گانٹز کے ساتھ اقتدار بانٹنے پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن یہ معاملہ دسمبر میں ختم ہو گیا، جس کے نتیجے میں چوتھے انتخابات کا سلسلہ شروع ہوا۔

اگرچہ لیکود 120 نشستوں والی پارلیمان میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے لیکن نتن یاہو دوبارہ حکومت کے لیے اتحاد بنانے میں ناکام رہے اور یہ کام لاپیڈ کے حوالے کیا گیا جن کی پارٹی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔

نتن یاہو کے اقتدار میں رہنے کی مخالفت صرف بائیں بازو اور سینٹر میں ہی نہیں بلکہ دائیں بازو کی جماعتوں میں بھی بڑھ گئی ہے جو عام طور پر نظریاتی طور پر لیکود سے جڑے ہوئے ہیں جس میں یامینا بھی شامل ہے۔

اگرچہ یامینا انتخابات میں صرف سات نشستوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہی تاہم مخلوط حکومت کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے اس کی حمایت اہم تھی۔ ہفتوں کے مذاکرات کے بعد لاپیڈ پارٹیوں کے اُس اتحاد میں یامینا کو شامل کرنےمیں کامیاب رہے جس کا واحد مشترکہ مقصد مسٹر نتن یاہو کو عہدے سے ہٹانا تھا۔

اکثریت کے لیے درکار 61 نشستوں کے ساتھ آٹھ گروپوں سے وابستہ معاہدے پر 2 جون کو ڈیڈ لائن ختم ہونے سے محض آدھا گھنٹہ قبل دستخط کیے گئے تھےجس نے نتن یاہو کی قسمت پر مؤثر طریقے سے مہر لگا دی۔

نئی حکومت کیسی ہو گی؟

بظاہر بینیٹ کی حکومت اسرائیل کی 73 سالہ تاریخ میں آنے والی حکومتوں کے برعکس ہوگی۔ اس اتحاد میں ایسی جماعتیں ہیں جن میں وسیع نظریاتی اختلافات ہیں اور ممکنہ طور پر سب سے نمایاں طور پر پہلی آزاد عرب پارٹی بھی شامل ہے جو ممکنہ حکمران اتحاد ’رام‘ کا حصہ بن سکتی ہے۔ اس میں آٹھ خواتین وزرا کی ریکارڈ تعداد بھی متوقع ہے۔

رام اور بائیں بازو کی غیر عرب اسرائیلی جماعتوں کو شامل کرنے کا مطلب ہے کہ فلسطینیوں کے بارے میں اسرائیلی پالیسیوں جیسے معاملات پر تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یامینا اور ایک اور دائیں بازو کی جماعت ‘نیو ہوپ’ اسرائیلی مقبوضہ علاقے غربِ اردن میں اسرائیلی بستیاں بسانے کی حق میں ہیں، اس کے علاوہ سماجی پالیسیوں پر بھی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ کچھ جماعتیں ہم جنس پرستوں کے حقوق کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں جیسا کہ جنسی شادیوں کو تسلیم کرنا، اسلامی جماعت، رام اس کے خلاف ہے۔

اس کے علاوہ کچھ جماعتیں مذہبی پابندیوں میں نرمی لانا چاہتی ہیں۔

مسٹر بینیٹ نے اشارہ کیا ہے کہ ان کی حکومت متنازع معاملات سے گریز کرتے ہوئے ان معاملات پر زیادہ توجہ دے گی جہاں معاہدہ ممکن ہے مثلا معاشی معاملات یا کورونا وائرس کی وبا۔

انھوں نے حال ہی میں کہا کہ ’کسی کو بھی اپنا نظریہ ترک نہیں کرنا پڑے گا، لیکن سب کو اپنے کچھ خوابوں کی تعبیر کو ملتوی کرنا پڑے گا … ہم اس بات پر توجہ دیں گے کہ کیا حاصل کیا جا سکتا بجائے اس پر بحث کہ کیا نہیں کیا جا سکتا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp