میرے دادا جان: بابو غلام محمد مظفر پوری


یہ کتاب کسی باقاعدہ مصنف کی تحریر نہیں ہے، ایک عام انسان کی روداد حیات ہے جس کی رسمی تعلیم بس واجبی سی تھی لیکن اس نے زندگی کا وسیع مشاہدہ کیا تھا۔ علم بھی اپنی کاوش سے حاصل کیا تھا۔ مشرقی پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے رہنے والے اس شخص کو حالات نے ہندوستان کے دوردراز علاقوں اور غیر ممالک میں جانے کے مواقع فراہم کیے۔ ان اسفار سے حاصل ہونے والے تجربات کو اس نے کسی تصنع اور بناوٹ کے بغیر بے تکلف انداز میں بیان کر دیا ہے۔

میرے دادا جان ایک سیلانی انسان تھے۔ انھوں نے اپنی سوانح حیات سفری زندگی کے عنوان سے تحریر کی تھی۔ بچپن میں جب ان کی زبان سے یہ سنتا کہ انھوں نے ہندوستان کا چپہ چپہ دیکھا ہوا تھا تو یہ بات بہت عجیب لگتی تھی۔ ہندوستان جیسے بڑے ملک کو دیکھنا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ ان کا تحریر کردہ احوال پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ ان کے اس دعوی میں ہرگز کوئی مبالغہ نہیں تھا۔

تحصیل نکودر، ضلع جالندھر کے ایک چھوٹے سے گاو ¿ں سے نکل کر دادا جان اپنے ایک رشتہ دار سے سول انجنیئرنگ کا کام سیکھنے کے لیے سن 1912ئی میں ان کے ہمراہ سنٹرل انڈیا کے ضلع کانپور جاتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے ساتھ چھ مہینے بمبئی میں بسر کرتے ہیں۔ وہاں سے پھر سنٹرل انڈیا کے ضلع ناگ پور اور وہاں سے مدراس پریذیڈنسی کے علاقہ میں جانا ہوتا ہے جہاں وہ باقاعدہ ملازمت کا آغاز کرتے ہیں۔ مدراس کے بعد سہارن پور اور وہاں سے بنوں اور پھر نوشکی جہاں ایران کی سرحد تک ریل کی پٹری بچھانے کا کام کرتے ہیں۔ اس کے بعد ڈیڑھ برس تک عراق میں قیام رہتا ہے۔ عراق سے واپس آ کر بڑودہ میں ملازمت اختیار کرتے ہیں۔ بڑودہ سے وہ برما چلے جاتے ہیں جہاں لوئر اور اپر برما میں تقریباً پونے دو برس بسر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد کچھ عرصہ بہار کے علاقہ دھن باد میں مختصر قیام کے بعد وہ آسام کا رخ کرتے ہیں۔ بعد ازاں اینگلو پرشین آئل کمپنی میں ملازمت ملنے پر ایران کے لیے رخت سفر باندھتے ہیں۔

ایران میں اسی زمانے میں رضا شاہ بادشاہ بنتا ہے۔ اس سیاسی تبدیلی کا احوال کافی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ایران سے واپسی کے بعد ایک بار پھر بڑودہ میں تقریباً تین برس تک بسلسلہ ملازمت قیام رہتا ہے۔ سن 1930 سے 38 تک انھیں کوئی ملازمت نہیں ملتی اور وہ گھر پر ہی وقت گزارتے ہیں۔ سن 1938 کے اواخر میں مشرقی افریقہ کا رخ کرتے ہیں۔ ان کے وہاں پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد دوسری جنگ عظیم شروع ہو جاتی ہے اور وہ افریقہ میں پھنس جاتے ہیں۔ جنگ کا سارا زمانہ یوگنڈا اور کینیا میں ملازمت کرتے ہوئے بسر کرتے ہیں۔ سنہ 1945ء کے وسط میں کسی وقت ہندوستان واپس آ جاتے ہیں۔ ملازمت کے تقاضوں کے پیش نظر ان کا زیادہ وقت شہروں اور آبادیوں سے دور جنگلوں اور بیابانوں میں ٹینٹوں میں بسر ہوتا ہے۔ ان تمام مقامات پر قیام کے دوران میں حاصل ہونے والے تجربات و مشاہدات کو انھوں نے اپنی اس سوانح عمری میں بیان کیا ہے جس میں میرے خیال میں عام قاری کی دلچسپی کا کافی سامان موجود ہے۔

ہم دادا جان کو میاں جی کہتے تھے، اس لیے میں آئندہ زیادہ تر میاں جی ہی لکھوں گا۔ ان کے نام کا مستقل سابقہ بابو تھا۔ وہ خود بھی اپنا پورا نام بابو غلام محمد مظفر پوری لکھا کرتے تھے۔ سبھی لوگ انھیں بابو جی، بلکہ پنجابی لہجے میں باؤ جی کہا کرتے تھے۔

میاں جی اکثر کہا کرتے تھے کہ انھوں نے تیس سال نوکری کی لیکن کبھی مستقل نوکری نہیں کی۔ وہ اس کی دو وجوہ بیان کیا کرتے تھے۔ ایک تو یہ کہ انھوں نے بچپن میں ایک خواب دیکھا تھا کہ وہ اڑتے پھر رہے تھے۔ اس لیے انھیں دنیا دیکھنے کا شوق تھا۔ دوسری وجہ کافی دلچسپ تھی کہ مستقل نوکری کرنے سے انسان بزدل ہو جاتا ہے۔ پنشن وغیرہ کی فکر میں افسروں کی جائز ناجائز بات ماننے پر مجبور ہوتا ہے۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ جہاں کسی کی بات ناپسند آئی یا کسی نے بے جا دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تو جھٹ استعفا لکھا اور گھر کو آ گئے۔

البتہ مجھے ایک حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔ میاں جی کا جو مزاج میں نے دیکھا ہوا ہے وہ اپنی کتاب میں اس کے بالکل برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ میاں جی ایک شعلہ مزاج شخص تھے۔ گالی کو تکیہ کلام کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اگر کوئی ان کو اکڑ دکھانے یا ان پر رعب جمانے کی کوشش کرتا تو وہ اس کی پت اتارنا فرض عین سمجھتے تھے۔ ابا جان بتایا کرتے تھے کہ گاؤں کے لوگ انھیں افسروں کے پاس سفارش کرانے، یعنی انگریزی زبان میں مدعا بیان کرنے کے لیے، ساتھ لے جاتے تھے۔ لیکن سارا راستہ وہ میاں جی کی منت سماجت کرتے جاتے کہ باؤ جی افسر سے لڑائی نہ کرنا۔ اس مزاج کے شخص کی تحریر پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ لکھتے وقت انھوں نے کمال ضبط سے کام لیا ہے۔ میں نے بچپن میں میاں جی سے اور خاندان کے دوسرے لوگوں سے بہت سے واقعات سن رکھے ہیں۔ میاں جی کا زبانی سنانے کا انداز کافی مختلف ہوتا تھا لیکن تحریر میں الفاظ کا استعمال بہت محتاط ہے۔ تحریر میں کسی جگہ خود نمائی کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ اپنے خاندان کے بارے میں بھی کسی لاف گزاف سے کام نہیں لیا۔ میاں جی نے اپنے خاندان کا جو شجرہ کتاب میں شامل کیا ہے وہ صرف گزشتہ پانچ پشتوں تک ہے۔ اس کا سبب شاید یہ تھا کہ زرعی زمین کی ملکیت کا ریکارڈ وہیں تک دستیاب تھا۔

میاں جی نے افریقہ میں اپنے قیام کے دوران میں سن 1944 میں اپنی سوانح حیات ’سفری زندگی‘ کے عنوان سے لکھنا شروع کی تھی۔ سن 1945ء میں انتخابات کا غلغلہ بلند ہو رہا تھا۔ ابا جان بتایا کرتے تھے کہ میاں جی کا ارادہ الیکشن لڑنے کا تھا لیکن افریقہ سے واپسی میں تاخیر ہونے کی بنا پر مسلم لیگ نے علاقے میں ایک اور شخص ولی محمد گوہیر کو ٹکٹ دے دیا تھا۔ واپس آتے ہی وہ اس کی الیکشن مہم میں شریک ہو گئے۔ پنجابی کے مشہور شاعر طالب جالندھری میاں جی کے ساتھ ہوتے تھے۔ ان دنوں ان کا ٹھکانہ ہمارا ہی گھر ہوتا تھا۔ دادا جان تقریریں کرتے اور وہ اپنی پنجابی نظمیں سنایا کرتے تھے۔

اس مقام پر ایک بات یاد آ گئی ہے جسے لکھنا مناسب خیال کرتا ہوں۔ نوے کی دہائی کی بات ہے جب ابا جان نے اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ طالب جالندھری لاہور کے سروسز ہسپتال میں داخل ہیں۔ ابا جان ملاقات کرنے ہسپتال گئے۔ اتنے برس گزر چکے تھے۔ پہلے تو انھوں نے نہیں پہچانا لیکن جب ابا جان نے اپنا تعارف کرایا تو بہت گرم جوشی کے ساتھ ملے اور پرانی یادیں تازہ کرنے لگے۔ اتنے میں ایک نرس کمرے میں آئی تو جالندھری صاحب نے ابا جان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ان کو دیکھو، یہ ہیں وہ لوگ جنھوں نے پاکستان بنایا تھا، وہ نہیں جو آج کل بنانے کے دعوے دار ہیں۔

تقسیم ہند کے بعد تحصیل نکودر اور چند دیگر تحصیلوں کو مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے باوجود بھارت میں شامل کر دیا گیا تو ہمارے خاندان کو بھی ہجرت کرنا پڑی۔ گھر بار چھوڑنے کا میاں جی کو اتنا شدید صدمہ ہوا کہ وہ نفسیاتی ڈپریشن کا شکار ہو گئے اور کئی برس تک اس مرض میں مبتلا رہے۔ پاکستان آنے کے بعد ریلوے میں نوکری مل گئی تھی لیکن طبیعت کی خرابی کی بنا پر جاری نہ رکھ سکے۔ بالآخر جب 1954ءمیں ہمیں زرعی زمین الاٹ ہو گئی تو وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گئے۔ لیکن انھوں نے اپنی سوانح عمری کا باقی حصہ لکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

گھر والے تو گاؤں منتقل ہو گئے لیکن اس وقت میاں جی کا قیام گوجرہ میں ہی رہا کیونکہ انھوں نے وہاں برتنوں کی دکان کھولی ہوئی تھی۔ ہفتہ واری چھٹی پر ہی گاؤں آتے تھے۔ لیکن 1959 ءمیں دکان بند کر کے وہ مستقل طور پر گاؤں شفٹ ہو گئے۔ گاؤں آنے کے بعد میاں جی نے داڑھی بھی بڑھا لی تھی۔ اس وقت ان کی عادت تھی کہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد جیب سے کنگھی نکال کر داڑھی میں پھیرا کرتے تھے۔

گاؤں منتقل ہو نے کے بعد میاں جی کے لیے بڑا مسئلہ اخبار کا روزانہ حصول تھا۔ اخبار کے بغیر وہ رہ نہیں سکتے تھے۔ اس زمانے میں ہر روز کوئی شہر بھی نہیں جاتا تھا۔ اس کا حل میاں جی نے یہ سوچا کہ نوائے وقت اخبار کا سالانہ چندہ جمع کرا کر ڈاک کے ذریعے منگوایا جائے۔ ڈاک میں اخبار ایک روز کی تاخیر سے پہنچتا تھا۔ اس طرح میاں جی کی وفات تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ان کی دیکھا دیکھی مجھے بھی تیسری جماعت سے ہی اخبار پڑھنے کی عادت ہو گئی۔

ان دنوں ملک میں آئین کی بحالی کی بات ہو رہی تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میاں جی ایوب خان کو اردو اور انگریزی میں لمبے لمبے خط لکھا کرتے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ سی آئی ڈی کا ایک کارندہ آیا اور اس نے میاں جی سے کہا کہ انھیں ڈی سی صاحب نے ملاقات کے لیے بلایا ہے۔ اس پر میاں جی غصے میں آ گئے اور اس کو برا بھلا کہہ کر بھگا دیا کہ میں کسی کو ملنے نہیں جایا کرتا۔ ایک تمھیں عقل کی بات بتاؤں، اوپر سے ملنے بھی جاؤں، یہ نہیں ہو سکتا۔

اس کے برعکس زیردست لوگوں کے ساتھ میاں جی کا بہت محبت اور شفقت کا سلوک ہوتا تھا۔ اس وقت دیہات میں چودھری اور کمی کی تفریق موجود ہوتی تھی۔ چودھری یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ کمی لوگ ان کے برابر چارپائی پر بیٹھیں۔ اللہ بخشے رشتے میں ہماری ایک پھوپھی تھیں۔ وہ دادا جان کے تایا زاد بھائی کی بیٹی تھیں۔ ان کے والد بھی نمبردار تھے اور خاوند بھی۔ وہ جب کبھی ہمارے گھر آتیں تو انھیں میاں جی کا یہ طرز عمل پسند نہیں آتا تھا۔ گلہ کرتی تھیں کہ ماموں جان کی یہ بڑی بری عادت ہے جو ہر ایک کو اپنے برابر چارپائی پر بٹھا لیتے ہیں۔ بہرحال میاں جی کے اس رویے نے گاؤں کے معاشرتی ماحول کو تبدیل کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔

میاں جی اگرچہ بہت دنیا گھومے ہوئے تھے لیکن گھر بار سے دور رہنے کی بنا پر گھر داری کے معاملات سے بالکل بے خبر ہوتے تھے۔ گھریلو انتظام سارا دادی جان ہی دیکھتی تھیں۔ میاں جی کی سادگی طبع کے ایک دو واقعات یاد آ رہے ہیں۔ ایک بار گاؤں کے قسائی گھر آئے اور ماں جی سے کہا کہ بھینس کا کٹا (کٹڑا) خریدنے آئے ہیں۔ ماں جی نے بیس روپے قیمت لگائی۔ وہ دس سے شروع ہو کر پندرہ روپے تک آئے لیکن ماں جی نے کہا کہ بیس روپے سے ایک آنہ بھی کم نہیں لینا۔ وہ واپس چلے گئے۔ گھر سے باہر نکلے تو گلی میں میاں جی مل گئے۔ میاں جی نے پوچھا کیسے آئے تھے؟ انھوں نے کہا کٹا لینے آئے تھے۔ میاں جی نے کہا لے لو۔ انھوں نے پوچھا کتنے کا دیں گے؟ میاں جی نے کہا دس روپے دے دو۔ یہ کہہ کر میاں جی گھر میں داخل ہوئے، لیکن وہ قسائی دروازے کے باہر ہی رک گئے۔ میاں جی بتانے لگے کہ راستے میں قسائی ملے ہیں جو کٹا لینا چاہ رہے ہیں، میں نے کہا ہے دس روپے کا لے لو۔ ماں جی نے کہا ابھی پندرہ روپے تو وہ مجھے دے رہے تھے لیکن میں نے بیس کہا ہے۔ یہ سن کر میاں جی نے کہا پچھلی بار بھی تو دس کا ہی دیا تھا۔ ماں جی نے کہا آپ کو اس کٹے اور اس کٹے میں فرق نظر نہیں آتا۔ اتنی دیر میں قسائی بھی ہنستے ہوئے گھر میں داخل ہوئے اور بیس روپے کا کٹا لے کر چلے گئے۔

ایک بار میاں جی اپنے رقبے پر جا رہے تھے۔ قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص ہمارے کھیت سے پٹھے کاٹ کر گٹھڑ سر پر رکھے آ رہا تھا۔ میاں جی جب رقبے پر پہنچے تو ہمارے ایک عزیز نے، جن کی زمین متصل تھی، میاں جی سے کہا، باؤ جی، وہ پٹھے چوری کر کے جا رہا تھا، آپ نے اس سے پوچھا نہیں۔ میاں جی نے جواب دیا، میں نے دیکھ لیا تھا، سوچا اس نے غلط حرکت کر ہی لی ہے، اب مجھے دیکھ کر شرمندہ ہو گا، اس لیے میں نے راستہ بدل لیا تھا۔ ہمارے وہ عزیز اکثر یہ واقعہ بیان کیا کرتے تھے کہ باؤ جی نے اسے کچھ کہنے کے بجائے خود راستہ بدل لیا تھا۔

شاید سن 1961 کی بات ہے۔ میں اس وقت چوتھی جماعت کا طالب علم تھا۔ ان دنوں ہمارا گاؤں ضلع لائل پور کی حدود میں آتا تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ ابھی ضلع نہیں بنا تھا۔ سید قاسم رضوی ضلع لائل پور کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ وہ ایک بار دورے پر ہمارے گاؤں تشریف لائے۔ ان کی آمد سے پہلے گاو ¿ں کے لوگوں نے دادا جان سے کہا، آپ ڈی سی صاحب کے جلسے میں آئیں۔ میاں جی نے انکار کر دیا کہ میں کسی فلانے ڈھمکانے سے ملنے نہیں جایا کرتا۔ گاؤں والوں کا اصرار تھا کہ آپ کو ہم نے ضرور لے کر جانا ہے کیونکہ ہماری بات تو آپ ہی کریں گے، سرکاری چودھری تو نہیں کریں گے۔ خیر وہ مجبور کر کے لے گئے۔

میاں جی جس طرح لیٹے ہوئے تھے اسی طرح اٹھ کر ان کے ساتھ چل دیے۔ لباس بدلنے کا تکلف نہ کیا۔ کرتہ، تہمد، سر پر کپڑے کی نماز والی ٹوپی، کندھے پر صافہ۔ وہاں ڈی سی صاحب سے مکالمہ شروع ہوا جو طویل ہوتا چلا گیا۔ ہمارے افسران کو بالعموم سوال جواب کی زیادہ عادت نہیں ہوتی چنانچہ وہ بہت جلد تنگ آ جایا کرتے ہیں۔ حلیے سے انھوں نے اندازہ لگایا کہ شاید امام مسجد ہیں۔ چنانچہ جان چھڑانے کے لیے انگریزی زبان کا سہارا لیا۔ جب دادا جان نے بھی انگریزی میں بات کرنا شروع کی تو انھیں اس وضع قطع کے شخص کو روانی سے انگریزی بولتے سن کر بہت اچنبھا ہوا۔ ایک مرحلے پر کہنے لگے، مولوی صاب بس کرو ہن عربی وچ نہ شروع ہو جانا۔ میاں جی نے جواب دیا تم عربی میں بات کرنا چاہو، فارسی بولنا چاہو، سواحلی بولنا چاہو، میں تیار ہوں۔ اب انھوں نے ہاتھ جوڑ دیے کہ بس بہت ہو گئی ہے۔

ایک نہری پٹواری میاں جی کے پاس آیا کرتے تھے۔ اس ٹاکرے کے کچھ دن بعد وہ آئے تو میاں جی سے ڈی سی صاحب کے متعلق رائے مانگی۔ میاں جی کا جواب بہت ناملائم تھا۔ اس پر وہ کہنے لگے، نہیں ڈی سی صاحب بہت اچھے آدمی ہیں۔ آپ نے ان کے ساتھ جو کی تھی اس کے بعد ہماری بڑی کھچائی ہوئی ہے۔

میاں جی ہماری تعلیم کی بہت فکر کرتے تھے۔ میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا کہ ابا جان ریڈیو لے آئے۔ اس پر میاں جی خفا ہوئے کہ بچے ریڈیو سن کر اپنا وقت ضائع کریں گے اور ان کی پڑھائی پر برا اثر پڑے گا۔ ابا جان کو بہت پریشانی ہوئی کہ اب کیا کیا جائے۔ دو تین دن اسی حیص بیص میں گزرے۔ ایک رات کھانا کھانے کے بعد سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ میاں جی نے کہا، ریڈیو لگاؤ، خبریں ہی سن لیں۔ اس پر ابا جان کا دم میں دم آیا اور بھائی جان سے کہا، جلدی سے اٹھ کر ریڈیو لگاؤ۔

یہاں ایک اور واقعہ یاد آ گیا ہے، سوچتا ہوں کہ وہ بھی لکھ دوں۔ پہلی جماعت کا نتیجہ سن کر میں سکول سے گھر واپس آیا تو میاں جی نے پوچھا کہ نتیجہ کیا رہا؟ میں نے جواب دیا، فیل تے آپاں کدی ہوئے نہیں۔ (ہم فیل تو کبھی نہیں ہوئے )۔ اس پر میاں جی نے اپنے مخصوص انداز میں کہا، سوری دا، پہلی جماعت چ پاس ہو کے کہندا اے فیل تے آپاں کدی ہوئے نہیں۔ شاید وہ کوئی قبولیت لمحہ تھا کہ آئندہ ساری تعلیمی زندگی میں کسی خاص کد و کاوش کے بغیر ہر امتحان میں پہلی ہی کوشش میں کامیاب ہوتا رہا۔

جون 1963ء کا آخری ہفتہ تھا۔ ایک شام میاں جی مغرب کی نماز کے بعد مسجد سے واپس آئے تو کہا، مجھے چھاتی پر بوجھ سا محسوس ہوتا ہے اور کچھ درد بھی ہے۔ ان کا اپنا خیال تھا کہ شاید پسینہ آنے پر ٹھنڈے پانی سے نہانے کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔ اس وقت کچھ پتا نہیں تھا کہ دراصل انھیں انجائنا کا درد تھا۔ سارا ہفتہ وہ اس کی شکایت کرتے رہے۔ گاؤں کی ڈسپنسری میں ایک کمپونڈر صاحب ہوتے تھے۔ ویسے تو وہ کافی سمجھدار تھے لیکن یہ معاملہ ان کی سمجھ میں بھی نہ آیا۔ میاں جی کو باقاعدگی سے ڈائری لکھنے کی عادت تھی۔ تیس جون کی شام کو ڈائری میں لکھا، آج طبیعت بہتر رہی۔

اسی رات میاں جی مسجد سے عشا کی نماز پڑھ کر آئے اور بستر پر لیٹ گئے۔ میں اس وقت سو چکا تھا۔ بستر پر لیٹتے ہی چھاتی میں درد کی شکایت کی۔ ماں جی نے ان کے سینے پر مالش شروع کی لیکن بس دو چار سانس ہی لیے اور ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ماں جی کی چیخ سن کر میری آنکھ کھل گئی۔ مجھے بس اتنا یاد ہے کہ میں میاں جی کی وفات پر بہت رویا تھا۔

جیسا کہ کتاب میں مذکور ہے کہ میاں جی نے افریقہ میں قیام کے دوران میں اسے لکھنا شروع کیا تھا۔ حالات زندگی اور مختلف علاقوں اور ممالک میں گزرے وقت کو کافی تفصیل سے بیان کیا ہے لیکن ایک کمی جو مجھے شدت سے محسوس ہوئی ہے وہ مجلس احرار کے زعما کا ذکر نہ ہونا ہے۔ بچپن میں دادا جان اور ابا جان سے سید عطا اللہ شاہ بخاری، مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی اور مولانا محمد علی جالندھری کا بہت ذکر سننے کو ملتا تھا۔ میاں جی کا سن تیس سے اڑتیس تک کے عرصے میں احرار کے ساتھ بہت قریبی تعلق رہا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد جب سن 1953 ء میں احمدیوں کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو شاہ جی ایک جلسے سے خطاب کرنے کے لیے گوجرہ تشریف لائے۔ میاں جی بھی ان کی تقریر سننے کے لیے گئے۔ شاہ صاحب کی تقریر کے دوران میں دادا جان نے بآواز بلند کوئی تبصرہ کیا تو شاہ جی نے چونک کر اس جانب دیکھا۔ دادا جان پر نظر پڑی تو کہا، اچھا آپ یہاں آ گئے ہیں۔ اس تحریک کے دوران میں جب جیل بھرو مہم کا آغاز ہوا تو میاں جی نے بھی گرفتاری پیش کی تھی لیکن تین چار دن بعد رہا ہو گئے تھے۔

گاؤں منتقل ہونے کے بعد میاں جی کہا کرتے تھے، میں نے شاہ جی سے ملنے جانا ہے اور ان سے معافی مانگنی ہے۔ چنانچہ بطور خاص ملتان گئے اور شاہ جی سے کہا، میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں کہ تحریک پاکستان کی مہم کے زمانے میں آپ کے بارے میں ناروا باتیں کرتا رہا ہوں۔ شاہ جی نے ہنس کر کہا، اس میں معافی کی کیا بات ہے۔ سیاست میں اس قسم کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ جب شاہ جی کی وفات کی خبر آئی تو میاں جی بہت افسردہ اور غمگین تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کوہستان اخبار کا وہ شمارہ انھوں نے سنبھال کر رکھا ہوتا تھا جس کے پورے صفحے پر شاہ جی کی تصویر شائع ہوئی تھی۔

دادا جان کا ہینڈ رائٹنگ بہت خراب تھا۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ صفحے کے ایک کونے سے لکھنا شروع کرتے تھے اور قلم اس وقت اٹھاتے تھے جب صفحہ ختم ہو جائے۔ اپنا لکھا ہوا بعد میں پڑھنے میں خود بھی دقت محسوس کرتے تھے۔ ان کی تحریر کو صرف ابا جان ہی پڑھ سکتے تھے۔ کتاب ایک رجسٹر میں لکھی ہوئی گھر میں موجود رہی۔ 1986 ءمیں بھائی جان ڈاکٹر امجد ظہیر کے پاس امریکہ جاتے ہوئے ابا جان وہ رجسٹر ساتھ لے گئے اور وہاں انھوں نے اس کی ایک صاف نقل تیار کی۔ ابا جان کا ہینڈ رائٹنگ بہت بہتر تھا۔ اس کے بعد میرے کزن، خالد بن بشیر، (میاں جی کے نواسے) وہ فائل لے گئے جو کئی برس تک ان کی تحویل میں رہی اور ہم یہ سمجھتے رہے کہ وہ فائل گم ہو چکی ہے۔

کتاب کے مسودے کی تدوین کرتے وقت ایک پیراگراف حذف کرنے کے علاوہ میں نے کوئی خاص تبدیلی نہیں کی۔ البتہ ابواب میں تقسیم، پیراگرافنگ اور ذیلی عنوانات، اوقاف و رموزکا استعمال میری جانب سے ہے۔ مقامات کے ناموں کی درست تعین کے لیے کتابوں اور گوگل کی مدد لی گئی ہے۔ بعض انگریزوں کے نام جو میں درست طور پر نہ پڑھ سکا، ان کو حذف کر دیا ہے کہ اس سے عبارت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ حواشی لکھنے کے بجائے چند مقامات پر میں نے قلابین [] میں اپنی طرف سے وضاحت شامل کر دی ہے۔

اس کتاب کی تدوین کے مراحل میں جن لوگوں کا تعاون حاصل رہا، ان کا شکریہ ادا کرنا مجھ پر فرض ہے۔ سب سے پہلے تو ابا جان کا شکریہ ادا کرنا بنتا ہے کہ اگر وہ اس کتاب کی صاف کاپی تیار نہ کرتے تو شاید اس کی اشاعت کی نوبت نہ آ سکتی۔ لیکن افسوس ہے کہ یہ مسودہ ابا جان کی وفات کے کئی برس بعد مجھے دست یاب ہو سکا۔ اگر وہ حیات ہوتے تو اسے کتابی صورت میں دیکھ کر یقیناً بہت خوش ہوتے۔ میں اپنے عزیز انجنیئر ارشد ارائیں کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے سول انجینئرنگ کی اصطلاحات کو سمجھنے میں میری مدد کی۔ عزیز دوست پروفیسر ضمیر نقوی کا شکریہ کہ پروف خوانی میں میری مدد کی اور کچھ تدوینی مشورے بھی ارزاں کیے۔ جاوید اقبال اعوان ایسا دوست ہے جس کی تنقیدی بصیرت پر مجھے ہمیشہ اعتبار رہا ہے۔ اس نے وقتاً فوقتاً جو مفید تنقیدی مشورے دیے ان پر اس کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اور آخر میں اپنے ہمدم دیرینہ باصر کاظمی کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے جس کی مدد کتاب کی کمپوزنگ کی ابتدا سے لے کر ہر مرحلے پر شامل حال رہی۔ میری کوئی تحریری کاوش ایسی نہیں ہوتی جس میں باصر کے انتقاد کو دخل نہ ہو۔ اس کتاب کے اقتباسات پر مبنی سترہ اقساط ویب سائٹ ”ہم سب“ پر شائع ہو چکی ہیں جن کے لیے وجاہت مسعود صاحب کا شکر گزار ہوں۔ کتاب کی طباعت کا انتظام کرنے پر عکس پبلیکیشنز کے مالک محمد فہد بھی تشکر کے حقدار ہیں جن کی مسلسل ترغیب و تشویق سے ان تمام مراحل کی تکمیل ممکن ہوئی۔ آخری بات یہ ہے کہ اس تمام تر کاوش کے باوجود اس کتاب میں جو کمی یا کوتاہی نظر آئے اس کی ذمہ داری مجھ پر ہی عاید ہوتی ہے۔

(دادا جان کی زیر طبع خودنوشت “سفری زندگی” کا تعارف)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments