گھڑی گھڑائی


گھڑی کی اہمیت اور افادیت میں کوئی کلام نہیں لیکن یہ شکوہ شاید سب ہی کو ہے کہ یہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ اس وقت ہی کرتی ہے جب آپ سو رہے ہوں۔

رات کو گیارہ بجے آپ صبح پانچ بجے کا الارم لگا کے سوئیں تو یوں لگتا ہے کہ ایک گھنٹے بعد ہی موبائل میں کسی موسیقار کی روح بیدار ہو گئی، شروع کے چند سیکنڈز تو آپ آنکھیں کھولے بغیر خود کو یہی یقین دلاتے ہیں کہ یہ شور شرابا حقیقی نہیں بلکہ آپ کے جاری و ساری خواب کا بیک گراؤنڈ میوزک ہے لیکن پھر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تاویلات اس الارم پہ کارگر نہیں اور وہ اپنی ذمہ داری سے پیچھے ہٹنے کو قطعاً تیار نہیں۔

مجبوراً آدھی آنکھ کھول کر موبائل کی طرف دیکھتے ہوئے اس پہ دست شفقت پھیرا جائے تو اس کی آہ و زاری کو قرار آ جاتا ہے۔

اب آپ اس سوچ میں ہیں کہ اس الارم کو چھے گھنٹے بعد بجنا تھا، یہ ایک گھنٹے بعد ہی کیوں چنگھاڑنے لگا؟

ہمت کر کے موبائل سکرین پہ نظر ڈالیں تو چند لمحات اسی حیرانی میں گزر جاتے ہیں کہ یہ گیارہ بجے کے صرف ایک گھنٹے بعد ہی پانچ کیسے بج گئے؟

آخر آپ یہ تسلیم کرنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ چھے گھنٹے گزر چکے ہیں۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ اپنے حساب سے ابھی تو آپ نے صرف ایک گھنٹے کی نیند کے مزے لیے ہیں۔ یہ چھے گھنٹے کیسے اور کہاں گزر گئے؟

اب اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ آپ ہمیشہ کی طرح حساب میں کمزور جبکہ گھڑی اپنے حساب کی پکی ہے۔

آپ اپنے نامکمل خواب کو یاد کرتے ہوئے خود کو سمجھاتے ہیں کہ اٹھنا تو پڑے گا، اس لیے کہ دفتر جانا ضروری ہے کیونکہ سوتے رہنے کی تنخواہ دینے کا رواج اب تک دنیا میں کہیں نہیں۔

ویسے یہ معمہ ابھی تک حل کا متلاشی ہے کہ رات کے اتنے سارے گھنٹے فوراً کیسے گزر جاتے ہیں؟

یہی گھڑی دفتری اوقات میں آپ کے صبرو ضبط کو گھڑی گھڑی آزماتی ہے کہ آدھا گھنٹہ کام کرنے کے بعد اس پہ نظر ڈالیں تو یہ صرف دس منٹ گزرنے کا اعلان کر رہی ہوگی۔

دفتری اوقات کے علاوہ گھڑی کی سست رفتاری اس وقت مسلمہ ہے جب آپ کسی کا انتظار کر رہے ہوں، ایسا لگتا ہے گھڑی کا سیل کمزور پڑ گیا بلکہ ختم ہی ہو گیا کہ وقت گزر کے ہی نہیں دیتا۔ یہی معاملہ بالکل بر عکس ہوتا ہے جب کوئی ہمارا انتظار کر رہا ہو، ایسا لگتا ہے کہ گھڑی میں کسی نے اضافی سیل ڈال دیا ہے، بھاگتی ہی چلی جاتی ہے۔

بھلا ہو موبائل، سوشل میڈیا اور سستے انٹرنیٹ پیکجز کا کہ وقت گزرنے کا احساس بہت ہی کم ہوتا ہے۔ ویسے بھی اچھا موبائل، ہائی سپیڈ انٹرنیٹ اور چارجنگ کی سہولت موجود ہو تو چاہے ہمیں قیامت کے انتظار میں بٹھا دو، کوئی غم نہیں۔

ہم سب کے پاس لے دے کے ایک وقت ہی تو ہے جسے ہم خوشی اور کھلے دل سے استعمال کر سکتے ہیں اور ہم اس موقع کو بالکل نہیں گنواتے اور پوری احتیاط سے وقت کو حتی الامکان کسی بھی فائدہ مند کام میں استعمال ہونے سے بچاتے ہیں، یہاں بھی گھڑی ہی ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ ہم وقت کی کتنی مقدار کو مال مفت کی طرح اڑا چکے ہیں، وہ الگ بات کہ ہم ایسے احساس کا بالکل احساس نہیں کرتے۔

راحیل احمد
Latest posts by راحیل احمد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments