وفاقی بجٹ اور وزیر خزانہ کا پاکٹ اسکوائربج


بس اب میرا اس بات پر ایمان پکا ہو گیا ہے کہ پاکستانیوں کے نصیب میں اچھا محبوب اور اچھا بجٹ ہے ہی نہیں۔ میری آخری امید شوکت ترین صاحب سے تھی مگر وہ بھی اپنے کوٹ کی جیب سے بڑا پاکٹ سکوائر ( جیبی رومال) لگا کر خشک سی بجٹ تقریر کر کے سرخرو ہو گئے۔ موصوف کی بجٹ تقریر کا تقریباً ہر تیسرا جملہ تھا کہ یہ سب جناب وزیراعظم عمران خان صاحب کی کاوشوں سے ممکن ہوا۔ گویا بجٹ تقریر کم اور قصیدہ خوانی زیادہ تھی۔ قارئین اس تبدیلی کو محسوس کریں۔

پچھلے چند ہفتوں سے بلاجواز لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے حالانکہ بجلی کی مجموعی پیداوار، ملکی ضرورت سے کہیں گنا زیادہ ہے۔ اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے بیٹریاں مہنگی کر کے لوڈ شیڈنگ دوست بجٹ پیش کیا۔ اس کے علاوہ بائی سائیکلز پر ٹیکس کی چھوٹ ختم کر کے 850 سی سی تک کی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں معمولی سی کمی کر کے داد وصول کر رہی ہے۔ کیونکہ حکومت کی یہ خواہش ہے کہ سارے غریب چھوٹی گاڑیاں خرید کر ورلڈ ٹوور پر نکل جائیں۔

حالیہ بجٹ دستاویزات کے مطابق آئندہ مالی سال میں 17.2 ارب ڈالر کے قرضے لیے جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ ہو گا۔ جو میاں محمد نواز شریف کے نام کیا جائے گا۔

3420 ارب کے خسارے کا بجٹ ہے اور میں اس سوچ میں پڑا ہوں کہ حالیہ بجٹ کا خسارہ زیادہ بڑا ہے یا شوکت ترین صاحب کا پاکٹ سکوائر۔ قوم یوتھ تو شوکت ترین کو غریبوں کی ماں قرار دے رہی۔ حالانکہ شوکت ترین قوم یوتھ کی سوتیلی ماں ہے۔ اور قوم یوتھ واحد ناخلف اولاد ہے جو ہمیشہ سگی ماں پر سوتیلی ماں کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔

سوتیلی ماں سے یاد آیا صحت اور تعلیم کے ساتھ پھر سوتیلی ماں والا سلوک روا رکھا گیا۔ وزیراعظم ہاؤس جو کبھی یونیورسٹی اور کبھی لائبریری بننا تھا۔ اس کا بجٹ کروڑوں کے حساب سے بڑھا دیا گیا۔ جی ہاں! تقریباً 18 کروڑ روپے کا اضافہ۔ مجھے تو رہ رہ کر وہ معصوم بھینسیں یاد آ رہی ہیں جن کے چند ہزار کے پٹھے کھانے پر بھی خان صاحب کو جلن تھی۔ بقول بقلم خود

فقط ایک امیر کے گھر کا بجٹ بڑھا کر ’
ہم غریبوں کی غربت کا اڑایا ہے مذاق۔

مجھے بجٹ تقریر میں صرف ایک بات پر خوشی ہوئی کہ اب وزیراعظم پاکستان کی تنخواہ معقول ہو گئی ہے۔ خان صاحب اب اچھا کمانے لگے ہیں ماشاءاللہ سے۔ چوبیس لاکھ اکتالیس ہزار روپیز اونلی۔ اب ہم ملنڈا گیٹس کا ہاتھ خان صاحب کے لیے دھڑلے سے مانگ سکتے ہیں۔

اس بار بجٹ کی تقریر سن کر عام پاکستانی پسینو پسین ہونے کے ساتھ ساتھ ممبر اسمبلی عبد المجید نیازی کی حرکتوں پر شرمو شرم بھی ہوا۔ اس تبدیلی پر بھی ہم خان صاحب کو داد دیتے ہیں۔ اور امید کرتے ہیں حالیہ بجٹ میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے لیے جو 100 کروڑ کا اضافہ کیا گیا وہ کھانے پینے کے علاوہ عبد المجید نیازی جیسوں کی تربیت پر بھی خرچ کیے جائیں گے۔ پتا نہیں خان صاحب کو ایسا بندہ کہاں سے لبھا تھا۔

دودھ سے بنی مصنوعات پر جی ایس ٹی سترہ فیصد۔ اب یہ نہیں پتا کوئی گجر حکومت ساتھ ہاتھ کر گیا یا پھر حکومت گجروں ساتھ۔

چاکلیٹس اور کاسمیٹکس کی قیمتوں میں اضافے کا سن کر میں صدمے سے ابھی باہر نہیں نکل پایا تھا۔ کہ سننے میں آیا کہ ہر تین منٹ سے زائد کال، ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ ڈیٹا 5 جی بی سے زائد جی بی استعمال کرنے پر اضافی چارجز فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں ہوں گئے۔ او ظالمو! پہلے ہی کوئی عشق پروان نہیں چڑھ رہا تسی ہور مہنگی کرو چاکلیٹس اور کالز۔ تاہم حماد اظہر کے ایک ٹویٹ کے مطابق یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے ۔ نوجوان ہے دکھ سمجھ سکتا۔ پر بھائی ہمیں یقین تب آئے گا جب موجودہ وزیر بتائے گا ناکہ دو ہفتوں والا سابقہ وزیر۔

ٹک ٹاکرز کے لیے بری خبر۔ امپورٹڈ موبائل فون مہنگے۔ جو گردہ فروخت کر کے امپورٹڈ فون خریدنے کے خواہشمند تھے۔ اب وہ گردہ نہیں گردے فروخت کر کے خرید پائیں گئے۔ جو میڈیکل سائنس کے مطابق ناممکن ہے۔ ہاں مگر گھر کے دو افراد ایک ایک گردہ فروخت کر کے شاید خرید پائیں۔

ہر وہ چیز جس کا تعلق غریب سے ہے۔ گوشت سے لے کر نمک تک مہنگا کر دیا گیا۔ چھوٹی گاڑیوں سے سیلز ٹیکس میں کمی کر کے فلور ملز پر لگا دیا گیا۔ جس سے اب غریب آدھی روٹی ہی کھا پائے گا۔ سمارٹ وزیراعظم نے سب کو ڈائٹ پلان دے دیا تاکہ آپ سب بھی سمارٹ دیکھیں۔

ایک گزارش ہے حکومت وقت سے اگلا بجٹ اپنے باقی منصوبوں کی طرح ٹویٹر اور فیس بک تک محدود رکھیں۔ کیونکہ آپ کے سارے منصوبے، بجٹ، خیالی پلاؤ، تقریریں اور رونے دھونے سوشل میڈیا تک ہی اچھے لگتے ہیں۔

قارئین! اگر ایسے ہی بجٹ پیش ہوتے رہے تو حکمرانوں کے پاکٹ سکوائر کا سائز دن بہ دن بڑھتا رہے گا اور ملکی معیشت کا جنازہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments