پاکستان بمقابلہ امریکہ


جو بھی امریکہ کینیڈا سے آتا ہے اپنے لوگ اس کے گرد گھمن گھیریاں ڈالنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور ہر رشتے دار، یار دوست کی خواہش ہوتی ہے کہ آنے والا جاتے ہوئے چاہے اپنے سامان میں رکھ کر لے کر جائے لیکن انھیں ساتھ لے جائے۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ اگر انھیں امریکہ کینیڈا جیسے کسی ملک کی خاک نصیب ہو گئی تو سبحان اللہ، سمجھو مرنا امر ہو جائے گا۔ آنے والا کیسے حالات سے گزر کر آیا ہے یہ جاننے میں کسی کو فکر نہیں ہوتی۔

نہ کوئی یہ سوچتا ہے کہ وہ یہاں جو پیسے بھیجتا ہے اس کے لیے کتنی محنت کرتا ہوگا۔ اپنے پیاروں کی آنکھوں کے خواب پورا کرنے کے لیے اس نے اپنی خواہشوں کو کتنی بار مارا ہوگا۔ لیکن لوگ بس یہ سمجھتے ہیں کہ وہاں شاید مفت میں پیسے مل جاتے ہیں۔ معاوضہ محنت کا ملتا ہے جناب، وہ آپ جہاں بھی کریں گے مل جائے گی۔ لیکن یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آتی۔

زیادہ تر لوگ کسی نہ کسی طرح امریکہ کینیڈا جا کر بسنا چاہتے ہیں۔ دیار امریکہ میں جینے کے لیے مرے جاتے ہیں۔ ان احمقوں کو بڑی غلط فہمی ہے کہ وہاں سب کچھ میسر ہے۔ لیکن یہ ان کی خوش فہمی ہی ہے۔ کیونکہ جو عیش اپنے وطن میں نصیب ہے وہ کہیں اور نہیں۔

سچی بات ہے کہ مجھے دوسرے ملک متاثر کرتے ہیں نہ وہاں جاکر بسنے والے۔ بھلا وہ بھی کوئی ملک ہیں جہاں ڈر ڈر کے جیا جائے ارے بابا وہاں کے تو ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔ چیخنا چلانا تو دور آپ اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتے، اگر آپ امریکہ جیسے کسی ملک میں ہیں تو ایک بار جی کھول کر رو لیں، کہ وہاں کے شہری ہونے کے باوجود آپ ایسا کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے، کہ آپ کے ہمسائے تنگ ہوں۔ چاہے وہ اونچی آواز میں آپسی بات چیت ہی کیوں نہ ہو۔

اور اپنا یہ حال کہ کئی دفعہ محض ہمسائیوں کو تنگ کرنے کے خیال سے ہی بہت سارے کام کیے جاتے ہیں۔ اور ادھر اگر ہمسایہ آپ کے شور سے تنگ آ کر پولیس کو شکایت کردے تو کئی سو ڈالر جرمانہ ہوجاتا ہے۔ اپنے ہاں کی موجیں دیکھیں، جس وقت بھی دل کرے فل والیوم میں کسی بھی بات کا سیاپا ڈال کر بیٹھ جائیں، پولیس ہر گز رنگ میں بھنگ ڈالنے نہیں آئے گی۔ اور اپنے ہمسائے بھی بہت اچھے ہیں۔ سفید چمڑی والوں کی طرح ’سڑے‘ ہوئے نہیں، کہ کسی گھر میں کتنا سیاپا پڑا ہے اور وہ اپنا کام کرتے رہیں۔

نہیں جناب یہاں تو ایک دوسرے کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ اپنے سب کام ادھورے چھوڑ دیں گے لیکن آپ کی خانگی لڑائی کان لگا کر سنتے رہیں گے اور سب کچھ سن لینے کے بعد گھر میں آ کر وجہ بھی جانیں گے۔ ہاں اگر رات کے کسی پہر میاں بیوی میں کھٹ پھٹ ہو جائے ہو تو پھر کان لگا کر سننے کی ضرورت پیش نہیں آتی، بس شور کی آواز سے ہی لڑائی کی وجہ سمجھ لیتے ہیں۔ وہاں معمولی سی لڑائی ہو تو طلاق کی نوبت آجاتی ہے اور یہاں ہر لڑائی پر نئے بچے کی خوشخبری آتی ہے۔

یہاں باہر سے تھکے ہارے آئیے، بچے کو اپنا افسر سمجھیے اور شروع ہو جائیے، دے دھنا دھن۔ باس پہ آیا سارا غصہ بچے پہ نکالیں، کوئی مائی کا لعل بچے کو آپ کی مار سے نہیں بچا سکتا، کیونکہ بچہ آپ کا ہے۔ لیکن وہاں بچے کا قانونی باپ ہونے کے باوجود ایسا کرنے کا سوچیئے گا بھی مت، ورنہ پھر قانون کا غصہ آپ پہ اترے گا۔

اور سنیئے وہاں سرکاری اجازت نامے کے بغیر (بنا کورس کیے) بال بھی نہیں کاٹ سکتے۔ جبکہ ہمارے ہاں تو بارات کے لیے دیگیں پکاتے نائی کے پاس جائیے، حجامت بنوائیں یا خط یا پھر ختنے کروائیں، وہ ایک ہی ٹائم میں سب کر دے گا۔ اس کے لیے اسے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں۔ ہماری خواتین کو اپنے رنگ کی بہت فکر ہوتی ہے۔ ہر سانولی، کالی گندمی خاتون رنگ بدل کر ’چٹا‘ ہونا چاہتی ہے اب گوروں میں اتنی ہمت کہاں کہ وہ اپنا ’چٹا‘ رنگ بدلنے کا سوچیں، اور منہ کالا کرنے کی کوئی کریم ایجاد کریں۔

وہاں اپنے جیسا ماحول نہیں کہ جس کو چاہو چھیڑ لو، کوئی پوچھے گا نہیں۔ یہ اپنا ہی ملک ہے جہاں آپ کسی بھی راہ چلتی عورت کو چھیڑیں یا ریپ کر ڈالیں ایف آئی آر کٹے گی نہ کوئی عزت کے ڈر سے بولے گی۔ عورت اپنی عزت کی وجہ سے خاموش رہے گی۔ لیکن وہاں کی عورت سے تو اللہ بچائے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس کو اپنی عزت کی تو پرواہ ہی نہیں۔ دوسروں کی تو بات ہی نہ کریں، اس کی مرضی کے بغیر اس کا اپنا شوہر بھی اس پر نگاہ غلط ڈال لے تو وہ عذاب ڈال دیتی ہے کہ مرد کو اپنی عزت بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔

یہ بھی افواہ ہی ہے کہ امریکہ میں بہترین علاج کی سہولتیں ہیں۔ وہاں تو صاحب دو دو مہینے ڈاکٹر کا ٹائم ہی نہیں ملتا، اب اس عرصے میں چاہے کچھ کا کچھ ہو جائے۔ کئی متاثرین شاہد ہیں کہ بہت سارے پاکستانی جوڑوں کی طلاقیں محض علاج میں دیری کی وجہ سے ہوئیں۔ کہ وہاں مہینوں ڈاکٹر سے ٹائم ہی نہیں ملتا۔ جبکہ اپنے وطن کے چپے چپے میں طبیب موجود ہیں جو ہرگز طلاق کی نوبت نہیں آنے دیتے بلکہ مردانہ کمزوری والوں کو تو ایسا دبوچتے ہیں کہ وہ بیچارہ ایک دو بچے پہ رکتا نہیں پھر۔

اللہ سلامت رکھے اپنے وطن عزیز کو جس میں خدا کے فضل سے کسی بھی قسم کی حرکت کر لیں قید و بند کی صعوبت نہیں جھیلنا پڑتی اور اگر کسی مجبوری میں پولیس آ بھی جائے تو دے دلا کر معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔ ان سہولتوں کے ہوتے امریکہ جانا کہاں کی دانشمندی ہے۔

امریکہ کی جہاں اتنی خامیاں ہیں اس میں بس ایک خوبی ہے کہ وہاں جنسی گھٹن نہیں ہے۔ جبکہ یہاں میاں بیوی ایک دوسرے سے ڈرتے ڈرتے حجابوں میں ملتے ہیں، کہ ابھی کھڑکے پہ۔ چلیں اگلی بات رہنے دیں، آپ خود سمجھدار ہیں۔

تو بس صاحب اپنے وطن کی بہاریں ہی کچھ اور ہیں۔ سوچیئے اگر ہم امریکہ جیسے کسی ملک میں پیدا ہوئے ہوتے تو کیا یہ ساری عیاشیاں ہمیں نصیب ہوتیں؟ دل پر ہاتھ رکھیئے اور بتائیے کیا ہم وہاں پان کھا کر جگہ جگہ تھوک سکتے تھے، اشارے پہ کھڑی ٹریفک سے اپنی موٹر سائیکل نکال کے لے جا سکتے تھے۔ ہم جہاں جی چاہے گند پھیلا سکتے، کھانے پینے کی اشیاء کے خالی ریپر اور بچوں کے استعمال شدہ ڈائیپر اپنی گاڑی سے بیچ سڑک پر پھینکنے کی عیاشی بھی ہمارے حصے میں آتی، جب چاہے بیوی کو گھرک کر ہی جان نکال دیتے، یا دو چار ہاتھ جڑ کر اپنی مردانگی کا ثبوت دے سکتے تھے۔ نہیں نا؟ تو بس تسلیم کریں کہ ہم اگر امریکہ یا اس جیسے کسی ملک رہتے ہوتے تو ہم تو صحیح معنوں میں زندگی انجوائے ہی نہیں کر سکتے تھے۔ تو جائیے جا کر شکر ادا کیجیئے آپ پاکستان میں رہتے ہیں اور ابھی یہاں کے قانون سازوں کے دماغ میں ویسا خناس نہیں بھرا جو وہاں کے لوگوں میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments