سول سروس کا زوال (مکمل کالم)


ہماری سول سروس کے ایک افسر ہیں، صاحب کردار، کھرے اور دبنگ، قانونی اصول و ضوابط کا چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا ہیں، آئین کی کوئی ایسی شق نہیں جو انہیں زبانی یاد نہ ہو اور سول سروس کا کوئی ایسا قانون نہیں جو انہوں نے گھول کر نہ پیا ہو۔ اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی اس قابلیت کا راز کیا ہے، کافی دیر تک وہ کسر نفسی سے کام لیتے رہے پھر میرے اصرار پر انہوں نے یہ واقعہ سنایا۔

یہ 31 اکتوبر 1971 کی شام تھی جب انہوں نے بطور ایک نوجوان افسر کے سول سروسز اکیڈمی میں رپورٹ کی۔ رسمی کارروائی مکمل ہونے کے بعد اگلے روز بعد دوپہر انہیں ڈائریکٹر مرحوم سید قاسم رضوی سے ملاقات کے لئے وقت بتایا گیا۔ ملاقات میں جہاں مختلف موضوعات پر کم و بیش 30 منٹ بات چیت ہوئی وہاں انہیں لاہور میں تعینات سروس کے چند معتبر سینئر افسران اور جج صاحبان کی فہرست بھی دی گئی تاکہ ان میں سے دو یا تین ’سرکاری انکلز‘ کا انتخاب کر لیں۔

مذکورہ افسر نے فہرست میں شامل ہائی کورٹ کے دو جج صاحبان اور ایک صوبائی سیکریٹری کے ناموں پر نشان لگا دیا، یہ سب حضرات جی او آر 1 کے رہائشی تھے۔ ان میں سے ایک جج صاحب سے پہلی ملاقات کا اہتمام اتوار کے لئے طے کروا دیا گیا۔ نوجوان افسر جج صاحب سے ملنے گیا تو وہ بہت تپاک سے ملے۔ ان کی نشست لائیبریری میں ہوئی، یہ جان کر خوشی کم اور حیرانی زیادہ ہوئی کہ انہوں نے آئندہ آنے کے لئے وقت لینے کی ضرورت سے استثنا دے دیا بشرطیکہ مناسب وقت پر آئیں۔ ساتھ ہی انہوں نے لائبریری استعمال کرنے کی مکمل آزادی بھی مل گئی، بس ایک ڈائری میں اندراج کرنا ہوتا کہ فلاں کتاب پڑھنے کی غرض سے نکالی ہے۔

نوجوان افسر کو وقت کی مناسبت سے فیملی کے ساتھ کھانے اور چائے وغیرہ میں گھر کے فرد کی طرح شمولیت کرنا ہوتی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ جج انکل فیصلہ لکھوا رہے ہوتے تو ’میں وارد ہو جاتا، وہ مجھے بیٹھنے کا کہہ کر سٹینو گرافر کو ڈکٹیشن جاری رکھتے جبکہ مجھے کوئی شائع شدہ عدالتی فیصلہ پڑھنے کے لئے تھما دیتے، میں سوال لکھ لیتا جو بعد میں پوچھ لیتا۔ یہ خاموش نشستیں اکثر خاصی طویل مگر بہت ہی مفید رہتیں۔ اگلی مارچ کے اوائل تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

14 مارچ 1972 کو ہمیں خبر ملی کہ ڈائریکٹر رضوی صاحب مرحوم ان 1300 افسران میں شامل ہیں جنہیں مارشل لا کے تحت جبری طور پر برخاست کر دیا گیا تھا۔ اکیڈمی سے رخصت کے بعد انہوں نے کیمپس کی پچھلی آبادی میں ایک انیکسی کرائے پر لے لی۔ اکثر اوقات رات کے کھانے کے بعد قہوے پر رضوی صاحب کے گھر پر ایک نشست ہوتی جہاں ہر قسم کے سوال جواب کی مکمل آزادی ہوتی۔ مذکورہ افسر بتاتے ہیں کہ‘ ہماری تربیت مکمل ہونے تک یہ سلسلہ جاری رہا تاہم ان ملاقاتوں میں ایک مرتبہ بھی رضوی صاحب کے منہ سے بھٹو صاحب کے بارے ایک منفی لفظ نہیں سنا گو کہ کئی بار دبیز عینک کے پیچھے ڈبڈباتی آنکھوں میں ایک چمک ضرور دیکھی۔ اکثر سوچتا ہوں کہ اپنے والدین، اساتذہ اور ان غیر رسمی درسگاہوں سے اگر کماحقہ استفادہ نہ کیا ہوتا تو عملی زندگی میں ان کی پیشہ ورانہ مہارت اور کردار کی وہ مشعل میسر نہ ہوتی جس کی لو کی بدولت زندگی میں مشکلات کا سامنا کرنے کی ہمت مجھ میں پیدا ہوئی۔ ’

سول سروس اکیڈمی میں نئے بھرتی ہونے والی افسران کی ابتدائی تربیت کی جاتی ہے، ان افسران کو probationary officers کہتے ہیں، ہمارے ایک دوست نے اردو میں اس کا ترجمہ ’افسر نما‘ کیا ہے۔ ستر کی دہائی کی جو روایت میں نے بیان کی ہے وہ اکادمی میں کب کی متروک ہو چکی، اب کسی جج صاحب کے پاس وقت ہے اور نہ کسی سیکریٹری کے پاس کہ نوجوان افسر کو چار پانچ ماہ کے لیے اپنے ساتھ نتھی کرے اور اس کی تربیت میں اپنا حصہ ڈالے۔

بظاہر یوں لگتا ہے جیسے معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح سول سروس کی زوال کا شکار ہے، آئے روز ہم بدعنوانی کے قصے سنتے ہیں، نا اہل افسران کو پر شکوہ دفاتر میں بیٹھے دیکھتے ہیں اور نالائق لوگوں کو گریڈ بائیس میں ترقی بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ملتی ہے۔ ان تمام باتوں نے عوام کی نظر میں سول سروس کا تاثر برباد کر کے رکھ دیا ہے، رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے، آئے روز وہاں کسی نہ کسی افسر کی بدتمیزی کی ویڈیو وائرل ہوئی ہوتی ہے یا اس کے شاہانہ ٹھاٹھ کی تصاویر پر عوام تبرا کرتے نظر آتے ہیں۔

سول سرونٹس سے پوچھو تو ان کے پاس اپنے دفاع میں تاویلوں کے انبار ہوتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ نہ ہمیں آئینی تحفظ حاصل رہا اور نہ ہماری تنخواہ وہ رہی جو ستر کی دہائی میں ہوا کرتی تھی، آج کل ہماری قابلیت اور تجربے کے برابر کے افسر کو نجی شعبے میں ہم سے چھ سے دس گنا زیادہ تنخواہ ملتی ہے اور کام ہم ان سے بہتر کرتے ہیں۔ ہر چند کہ یہ مشاہدہ حق کی گفتگو ہے لیکن اس میں سے بادہ و ساغر غائب ہے۔ تنخواہ والی بات درست ہے مگر تنخواہ کے ساتھ جو مراعات، افسرانہ طمطراق اور معاشرتی وقار (جو تھوڑا بہت باقی ہے ) جڑا ہے وہ نجی شعبے میں سول سروس کے مقابلے میں قدرے کم ہے اور یہی فرق کسی سول سرونٹ کو، سرکاری ملازمت کی تمام تر قباحتوں کے باوجود، استعفیٰ نہیں دینے دیتا۔

تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے اور وہ یہ کہ اس ملک کا جو تھوڑا بہت انتظام چل رہا ہے وہ سول سروس کی بدولت ہی چل رہا ہے۔ بے شک سول سروس زوال پذیر ہوئی ہے مگر اب بھی اس میں ایسے ایسے گوہر نایاب ہیں جو دن رات کی پروا کیے بغیر پوری تندہی سے اپنا کام کرتے ہیں۔ خاص طور سے نئے آنے والے افسران جو باہر کی جامعات سے پڑھ کر آئے ہیں، اپنی اپروچ میں تخلیقی بھی ہیں اور ان میں ’آؤٹ آف باکس‘ کام کرنے کی صلاحیت بھی ہے جو سال خوردہ افسران میں تقریباً مفقود ہو چکی ہے۔

ان نوجوانوں کو اگر اسی طرح سینئر افسران کی رہنمائی میسر آ جائے جیسے ستر کی دہائی میں سول سروس اکیڈمی میں رواج تھا تو آگے چل کر یہ بھی اسی طرح کے قابل اور متین افسر بن سکتے ہیں جیسے ساٹھ یا ستر کی دہائی میں ہوا کرتے تھے۔ تاہم ایک بات جو مجھے ہر قسم کے سول سرونٹس میں مشترک نظر آتی ہے کہ سروس میں شامل ہونے کے بعد افسران کا رویہ عوام کے بارے تبدیل ہو جاتا ہے، سول سرونٹس جو بھی پالیسیاں بناتے ہیں وہ عوام کی نظر سے نہیں بلکہ اپنی ملازمت کے بچاؤ کے نقطہ نظر سے بناتے ہیں اور ایسا کرنے کے نتیجے میں جب پالیسی کی حتمی شکل سامنے آتی ہے تو وہ ایسی مضحکہ خیز ہوتی ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے کسی نے مریخ پر بیٹھ کر پاکستانی عوام کے بارے میں فیصلہ کیا ہو۔

اس کے علاوہ سول سرونٹس یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ایماندار ہیں تو یہ گویا ان کا کوئی احسان ہے جبکہ ایمانداری تو سول سرونٹ کا بنیادی وصف ہونا چاہیے۔ ایسے ایمانداروں سے جب کسی مجبور بندے کو کام پڑتا ہے تو وہ غالب کا یہ شعر پڑھتا ہوا ان کے دفتر جاتا ہے کہ ’کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں، لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر۔‘

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments