عرفان صدیقی کا ناقابل اشاعت کالم: تاریخ بیان کرنا قوم کا قرض ادا کرنا ہے


عرفان صدیقی کے بارے میں کون نہیں جانتا وہ جب لکھتے ہیں تو خوبصورت الفاظ کی مالا تیار ہو جاتی ہے۔ ایک ادب پارہ یا یوں کہہ لیجیے اعلیٰ درجے کی انشاء کی تخلیق ہوتی ہے مگر وہ اسی پر اکتفا نہیں کرتے ملک اور قوم کو درپیش تلخ ترین سیاسی حقائق کا مرقع بھی اسی کے ساتھ تیار کر کے پڑھنے والوں کے لیے دوآتشہ وجود میں لے آتے ہیں۔ یوں ان کا شمار پاکستان کی اردو صحافت کے مقبول ترین اہل قلم میں ہوتا ہے۔ ہر کسی کو یہ کمال حاصل نہیں کہ واقعات جو رقم کیے جائیں مستند ترین ہوں۔

ان کی صداقت پر ہر کسی کو یقین آ جائے اور انہیں جس پیرایہ اظہار میں بیان کیا جائے وہ نظر افروز بھی ہو۔ عرفان محض لکھنے والا نہیں ہماری بدقسمت قومی و سیاسی تاریخ کے کئی ادوار کا عینی شاہد بھی ہے۔ نوے کی دہائی کے دوران سابق اور منتخب صدر پاکستان جناب رفیق تارڑ نے پریس سیکرٹری کے طور پر ان کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔ اسی دوران میں مملکت خداداد کا آئینی اور جمہوری عمل ایک اور شب خون کی بھینٹ کا شکار ہو گیا۔

منتخب وزیراعظم کو بزور طاقت گھر کی راہ دکھاتا ہوا فوجی راج اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف کی صورت میں بار چہارم ہم پر آن مسلط ہوا۔ مگر آئینی صدر کی حیثیت سے جناب رفیق تارڑ کو منصب سے ہٹانا اتنا آسان نہیں تھا۔ خدا خدا کر کے بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے جو پہلے بات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھے امریکہ کے پس پردہ دباؤ میں آن کر پاکستانی غاصب کو دورے کی دعوت دے ڈالی۔ اب یہ پورے طنطنے کے ساتھ وہاں جانا چاہتے تھے۔ محض چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے نہیں صدر مملکت بن کر۔ جس کا انہیں کوئی آئینی اختیار حاصل نہیں تھا۔ منصب خالی نہیں تھا۔ اوپر کے چار جرنیلوں نے مل کر طے کیا صدر رفیق تارڑ کو خوشگوار طریقے سے استعفیٰ دے دینے پر آمادہ کیا جائے۔ آگے کی کہانی عرفان صدیقی صاحب اپنے دلفریب انداز میں بیان کرتے ہیں اور حسب معمول قلم کا جادو جگاتے ہیں۔ ایک شب بغیر اعلان کیے عشائیے کی محفل سجائی۔ آئینی صدر مملکت کو مدعو کیا گیا۔

ان سے درخواست کی گئی مستعفی ہو جائیں۔ جناب صدر نے پورے تحکم کے ساتھ ملک کے سب سے طاقتور جرنیلوں سے استفسار کیا کون ہے جس کو استعفیٰ دوں۔ آئین تو آپ لوگوں نے معطل کر رکھا ہے۔ پارلیمنٹ کا وجود ختم کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا ہم جو ہیں۔ جواب آیا آپ سب میرے ماتحت ہیں۔ آپ کس حیثیت سے مجھ سے استعفے کے طلب گار ہیں اور میں کس واسطے آپ کے سامنے اپنے عہدے سے دستبردار ہو جاؤں۔ طاقت کے نشے سے سرشار ایک جرنیل بولا کہ کوئی صورت تو پیدا کرنا ہو گی۔

جناب صدر نے اتنا بڑا غیرآئینی قدم اٹھانے سے صاف انکار کر دیا۔ محفل برخواست ہوئی۔ اگلے دن چیف ایگزیکٹو کے دفتر سے تحریری حکم جاری ہو گیا جو صاحب مسند صدارت پر براجمان ہیں انہیں فوری طور پر اس ذمہ داری سے فارغ کیا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر آئین کی حکمرانی کو بوٹوں تلے روند کر رکھ دیا گیا۔ طاقت وروں نے باردگر آئین و قانون کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ ہمارے ملک تاریخ میں یہ سب کچھ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا تھا۔

1958 سے مارشل لاؤں کا یہ سلسلہ جاری تھا اور ختم ہونے کا نام نہیں لینا تھا۔ اس دوران ملک دولخت ہو گیا۔ پاکستان عظیم اور محب وطن فوج کو بھارت جیسے کمینے دشمن کی سپاہ کے آگے ہتھیار پھینکنے پڑے لیکن طاقت میں سرمست جرنیل اپنی خو سے باز نہ آئے۔ ایک کے بعد دوسرا مارشل لا اور فوجی راج مسلط کیا گیا۔ یہ ہماری تاریخ ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ عرفان صدیقی سے بس یہ گناہ سرزد ہو گیا ہے کہ اوپر رقم کردہ واقعے کو اپنے خاص اور دلفریب اسلوب میں لکھ ڈالا ہے۔

تاکہ تاریخ کا ریکارڈ بھی درست رہے اور نئی نسل کے اذہان و قلوب کی بھی اس طرح آبیاری ہو کہ انہیں اپنی قوم کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے دلکش انداز میں کماحقہ واقفیت حاصل ہو یوں ایک تاریخی حقیقت سے آگہی کے ساتھ ادب و انشاء کی لطافتوں سے بھی لطف اندوز ہو پائیں۔ جدید اذہان کی اس طرح آبیاری کسی کسی کے حصے میں آتی ہے۔ عرفان نے مگر اپنے خوبصورت قلم کو حرکت میں لا کر تلخ تر قومی حقائق کو نہایت درجہ خوش اسلوبی سے بیان کر دیا ہے۔

ایک ایک واقعہ کو درست انداز اور مستند طریقے سے لکھا ہے تو کون سا برا کیا ہے۔ تاریخ کی خدمت کی ہے۔ کھردرے حقائق کو نہایت جرات کے ساتھ خوبصورت انشا کے غلاف میں لپیٹ کر بیان کیا ہے تو بلاشبہ تاریخ کا قرض اتارنے کے ساتھ لفظ و بیان کی شمع روشن کی ہے تو کس قومی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ پھر بعض مالکان اخبار اسے شائع کرنے سے گریزاں کیوں ہیں کچھ تو قومی ذمہ داری ان پر بھی عائد ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments