کینیڈا میں بیٹھ کر سندھ کی حکمرانی کا الزام: یونس میمن کون ہیں؟


سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پیر کو تجاوزات کے خلاف کیسز کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے سندھ میں نظامِ حکومت اور طرزِ حکمرانی پر سوالات اٹھائے اور کراچی کا نظام کینیڈا سے چلائے جانے کے ریمارکس دیتے ہوئے یونس میمن کو سندھ کا اصل حکمران قرار دیا۔ اعلیٰ عدالت کے جج کی جانب سے ریمارکس کے بعد بہت سے ذہنوں میں یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ یونس میمن کون ہیں؟

وائس آف امریکہ نے یونس میمن سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو انتہائی باوثوق ذرائع نے بتایا کہ کراچی میں زمینوں کی الاٹمنٹ کے معاملات ہوں، ان کی خرید و فروخت، آکشن یا ان کی حیثیت تبدیل کرنے کے معاملات۔ یونس میمن ان تمام معاملات میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔

کچھ لوگ اس شخص کو ‘یونس میمن’ کے نام سے جانتے ہیں، کچھ اسے ‘یونس سیٹھ’ کہتے ہیں اور کچھ کے مطابق یہ ‘یونس قدوائی’ ہیں؛ لیکن یہ تمام نام ایک ہی شخص کے ہیں۔

ماضی میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں انتہائی کلیدی عہدے پر تعینات ایک سابق افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر جنرل منظور قادر عرف کاکا کے بیرونِ ملک فرار ہونے کے بعد صوبے میں زمینوں کی خرید و فروخت، لیز، آکشن اور اس سے جڑے دیگر معاملات یونس مین دیکھنے لگے تھے۔

جسٹس گلزار احمد نے پیر کو جب یہ ریمارکس دیے کہ سندھ میں زمینوں کا سارا نظام یونس میمن چلا رہے ہیں تو اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ طالب الدین خاموش رہے۔

عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ آخر سندھ میں کس کی حکومت ہے؟ یہاں مکمل لاقانونیت کا راج ہے۔ کیا یہ ہوتا ہے پارلیمانی نظام حکومت اور ایسی ہوتی ہے حکمرانی؟

سندھ حکومت کی جانب سے چیف جسٹس کے ریمارکس پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

اس بارے میں صوبائی حکومت کا مؤقف حاصل کرنے کے لیے سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضٰی وہاب سے رابطے کی بارہا کوشش کی گئی۔ لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

یونس میمن کون ہیں؟

کینیڈا میں بیٹھ کر سندھ میں زمینوں کے سودے، آکشن کے معاملات اور اسے استعمال کرنے کا فیصلہ آخر کینیڈا میں بیٹھ کر وہ کیسے کرتے ہیں؟ اور وہ اس قدر طاقتور کیسے ہوگئے؟

ان دنوں یونس میمن کینیڈا میں مقیم ہیں جنہیں صوبے کے انتہائی بااختیار شخص کا بہت ہی قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی)، ادارہ ترقیات کراچی (کے ڈی اے)، لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے)، محکمہ لینڈ یوٹیلائزیشن اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں اہم ترین تقرریاں یونس میمن کی ایما پر کی جاتی رہی ہیں۔

ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ، فروخت اور آکشن اور ان کی حیثیت کا یہ متوازی نظام سال 2008 سے چلا آرہا ہے۔

زمینوں کی ہیرا پھیری کے لیے محکمہ لینڈ یوٹیلائزیشن کا استعمال

لینڈ یوٹیلائزیشن ڈپارٹمنٹ محکمہ بورڈ آف ریونیو کا ذیلی محکمہ ہے۔ اس کا کام سرکاری زمینوں کو استعمال کے قابل بنانے کے لیے پالیسیوں کا بنانا اور ان پر عمل درآمد کرانا ہے۔

یہ محکمہ دیہی علاقوں میں زرعی مقاصد کے لیے زمینوں کے علاوہ رہائشی مقصد کے لیے دیہی اور شہری علاقوں میں انتظام، کمرشل، صنعتی، رفاہی اور مذہبی مقاصد کے لیے زمینوں کے استعمال کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔

موجودہ وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی کچھ عرصے کے لیے محکمہ بورڈ آف ریونیو کے وزیر رہ چکے ہیں، لیکن اُس وقت بھی ان کے پاس لینڈ یوٹیلائزیشن کا ذیلی محکمہ نہیں تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ لینڈ یوٹیلائزیشن کا محکمہ اگرچہ محکمہ بورڈ آف ریونیو کا ہی ذیلی محکمہ ہے لیکن ریونیو ڈپارٹمنٹ کا قلم دان سنبھالنے والے کسی وزیر کو لینڈ یوٹیلائزیشن کا محکمہ نہیں دیا گیا۔ اس طرح یہ محکمہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہی کی براہِ راست نگرانی میں رہا ہے۔ یہ سلسلہ سال 2003 سے کم و بیش برقرار ہے۔

ذرائع نے وائس آف امریکہ کو مزید بتایا کہ سال 2008 کے بعد سب سے پہلے محکمہ لینڈ یوٹیلائزیشن کی باگ ڈور وزیر اعلیٰ کے بجائے سابق وزیرِ داخلہ ذوالفقار مرزا چلاتے تھے۔ لیکن 2010 سے 2014 میں یہ محکمہ سندھ کے ایک اور وزیر اور ڈی فیکٹو وزیر اعلیٰ سمجھے جانے والے اویس مظفر ٹپی کے پاس آگیا تھا اور وہ اس وقت بیرونِ ملک مقیم ہیں۔

انسداد کرپشن کے محکمے (نیب) میں مظفر ٹپی کے خلاف انکوائریز کا آغاز ہوا تو ‘زمینوں کا یہ نظام’ سابق ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی منظور قادر کے پاس آگیا۔

ذرائع کے مطابق جب نیب نے 2015 کے بعد چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا تو زمینوں کی الاٹمنٹ، لیز اور دیگر پیسے اکٹھنے کرنے کا نظام غیر سرکاری طور پر یونس میمن کے پاس آگیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یونس میمن کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا اور سیاست سے دور رہنے کے باوجود وہ اس سسٹم کی براہِ راست نگرانی کرتے رہے اور کبھی وہ بیرونِ ملک بیٹھ کر معاملات چلاتے رہے۔

بعض دیگر ذرائع کے مطابق، سپریم کورٹ میں جس یونس میمن کے نام کی گونج سنائی دی وہ درحقیقت یونس قدوائی ہیں جو جعلی بینک اکاونٹس کیس اور سندھ بینک میں کرپشن کے مقدمے میں مفرور ہیں۔

احتساب عدالت سال 2020 میں مفرور یونس قدوائی کی تمام جائیداد، بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے ساتھ شناختی کارڈ بھی بلاک کرنے کا حکم دے چکی ہے۔

یونس قدوائی کے بارے میں نیب رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ کینیڈین شہریت رکھتے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے کراچی میں پبلک لائبریری اور مندر کے لیے مختص دو پلاٹس کی غیر قانونی طور پر حیثیت تبدیل کر کے انہیں فروخت کر دیا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں مفرور اور پھر اشتہاری قرار دیے جانے کے بعد یونس قدوائی کے خاندان کے دیگر افراد بھی پاکستان چھوڑ کر خلیجی ریاستوں اور کینیڈا میں رہائش اختیار کر چکے ہیں۔

بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کے ایک قریبی رشتہ دار کا نام بھی یونس قدوائی ہے اور وہ بھی ان دنوں کینیڈا میں مقیم ہیں۔

اہم سرکاری عہدوں پر تعینات بعض افسران کے بقول، ایم کیو ایم کے بانی رہنما کے رشتہ دار یونس قدوائی کا بھی ماضی میں شہر کے سرکاری اداروں بشمول کے ایم سی، کے ڈی اے اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں اہم کردار رہا ہے۔ تاہم، یہ وہ یونس قدوائی نہیں جن کا ذکر پیر کو سپریم کورٹ میں کیا گیا۔

سندھ میں زمینوں کا کارٹیل کیسے کام کرتا ہے؟

کراچی میں اہم سرکاری عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زمینوں کے معاملات کی نگرانی، اس سے متعلق سرکاری دفاتر کی انتہائی اہم پوسٹوں پر من پسند افسران کی تقرری، ان سے من پسند آرڈرز کا حصول، شہر میں خالی سرکاری زمینوں کی حیثیت تبدیل کرانا یعنی رہائشی کو کمرشل اور رفاہی پلاٹس کو رہائشی یا کمرشل استعمال کے لیے اجازت دلانے کے لیے ایک نیٹ ورک کام کرتا ہے۔

سرکاری عہدیدار نے مزید بتایا کہ زمینوں کی ہیرا پھیری سے حاصل ہونے والا بھاری کمیشن صرف ایک دو نہیں بلکہ مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے درجنوں افسران، اہلکار اور پرائیویٹ افراد کو اکثر ‘نقد رقم’ کی صورت میں دیا جاتا ہے اور یہ مجموعی رقم اکثر کئی کئی ارب روپے ہوتی ہے۔

ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ یونس میمن اس نیٹ ورک کی قیادت کرتے رہے ہیں۔

پویلین کلب کو گرانے کا حکم

سپریم کورٹ نے پیر کو اپنے حکم میں کراچی میں الادین پارک کے سامنے قائم شاپنگ ایریا اور پویلین اینڈ کلب کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ عدالت کی جانب سے تحریری حکم جاری ہونے کے بعد منگل کو پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں غیر قانونی قرار دیے گئے اسٹرکچر کو مسمار کرنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ الہ دین پارک کو فوری طور پر اصل شکل میں بحال کیا جائے۔ غیر قانونی تعمیرات مسمار کر کے ملبہ فوری ہٹایا جائے جب کہ ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی اور کمشنر کراچی دو روز میں کارروائی مکمل کر کے عدالت میں رپورٹ جمع کرائیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ الا دین پارک کے لیے متصل پویلین کلب بنایا گیا ہے جس میں بھاری فیسز وصول کی جاتی ہیں جب کہ یہ زمین پبلک پارک کے لیے مختص کی گئی تھی۔ زمین واگزار کرا کر تمام کمرشل سرگرمیاں فوری ختم کی جائیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments