ویلینٹینا تیریشکووا: ’ستاروں کی سنڈریلا‘ کا فیکٹری ورکر سے پہلی خلا نورد خاتون بننے تک کا سفر


’میں چائکا ہوں۔۔۔ میں چائکا ہوں۔‘ زمین سے ہزاروں میل دور ایک ٹوٹتی ہوئی آواز میں کہے گئے ان الفاظ نے خلا میں پہلی خاتون کے پہنچنے کی نوید سنائی۔

’چائکا‘ روسی زبان میں سمندری بگلے کو کہتے ہیں اور یہ خلاباز ویلینٹینا تیریشکووا کا کال سائن تھا۔ وہ اپنے نارنجی خلائی لباس اور سرمئی جوتوں کے ساتھ ووسٹوک 6 نامی راکٹ میں بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کے ہیلمٹ پر ’یو ایس ایس آر‘ درج تھا۔

روس خلا میں پہلی سیٹیلائٹ، پہلے جانور، پہلے مرد خلاباز کے بعد اب پہلی خاتون خلاباز کو بھی بھیج چکا تھا۔ اس خلائی دوڑ میں کم از کم سنہ 1963 تک تو روس کو امریکہ پر سبقت حاصل تھی۔

آج سے 58 برس قبل 16 جون سنہ 1963 کو سوویت یونین نے خلا میں پہلی خاتون خلاباز ویلینٹینا تیریشکووا کو بھیج کر دنیا کو حیران کر دیا تھا۔

وہ صرف تین روز تک ہی خلا میں رہی تھیں۔ بی بی سی کی لوسی ایش نے پروگرام وٹنس ہسٹری کے لیے چند سال قبل روس جا کر اس تاریخی سفر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جو یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔

فیکٹری ورکر سے خلا تک کا سفر

نیلی آنکھوں والی اس 26 برس کی لڑکی کو بچپن سے ہی متحرک رہنا پسند تھا۔ وہ بچپن میں ٹرین ڈرائیورز کو دیکھ کر یہ سوچا کرتی تھیں کہ ’کاش میں ان کی جگہ ہوتی اور دنیا بھر میں ٹرینیں چلاتی۔‘

زمین کے سفر سے اکتا کر ان کی نظریں آسمان کی جانب اٹھیں اور انھوں نے ایک مقامی پیراشوٹ کلب میں داخلہ لے لیا۔

ویلینٹینا تیریشکووا

Science Photo Library
ویلینٹینا تیریشکووا بچپن میں ٹرین ڈرائیورز کو دیکھ کر یہ سوچا کرتی تھیں کہ کاش میں ان کی جگہ ہوتی اور دنیا بھر میں ٹرینیں چلاتی

لیکن یہ کہانی دراصل روس کی جانب سے خلا میں بھیجے گئے پہلے مرد خلاباز یوری گاگارن سے شروع ہوتی ہے۔ یوری گاگارن جب اپنے خلائی سفر کے بعد بحفاظت وطن واپس پہنچے تو پورا ملک ان کے سحر میں ڈوب چکا تھا۔

ویلینٹینا تیریشکووا بھی ان افراد میں شامل تھیں جنھیں خلا میں جانے کا جنون کی حد تک شوق تھا اور وہ بھی گاگارن سے بہت متاثر تھیں۔

یہی وجہ تھی کہ تیریشکووا نے حکام کو ایک خط لکھا اور خلا میں جانے کی فریاد کی۔ ایک معمولی سی چٹھی انھیں خلا میں لے جانے کی کنجی ثابت ہو گی یہ ایک فیکٹری میں کام کرنے والی لڑکی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

تاہم روس کی مرکزی کمیٹی نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی ہیروز کی تلاش میں تھی۔ سو کچھ روز بعد روس کے خلائی پروگرام کے چند کارکنان نے خفیہ طور پر ان کے پیراشوٹ میں ان کی نگرانی کی اور جب سب اچھا کی رپورٹ حکام تک پہنچی تو انھیں فوراً ماسکو طلب کر لیا گیا۔

یہاں تیریشکووا کو وہ تربیت دی جانی تھی جس کی مدد سے وہ بحفاظت خلا کا سفر کرنے میں کامیاب ہوئیں لیکن یہاں وہ اکیلی نہیں تھیں بلکہ ان کے ساتھ چار اور خواتین بھی تھیں۔

’دوسری ویلینٹینا‘ اور خلا میں جانے کی کشمکش

ان چار خواتین میں سے ایک ویلنٹینا پوناماری اووا بھی تھیں اور یہاں ان کا ذکر اس لیے اہم ہے کیونکہ خلا میں جانے والی خواتین کے انتخاب میں وہ آخری مرحلے تک پہنچی تھیں۔

پوناماری اووا اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ہم پانچ خواتین آغاز میں خاصی محتاط تھیں لیکن وقت کے ساتھ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ زیادہ وقت گزارنا شروع کر دیا۔‘

’ہم ایک ساتھ رہتے تھے، ایک ساتھ ٹریننگ کرتے، ساتھ کھاتے اور سب کچھ اکٹھے کرتے۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ ’کینٹین میں ایک پیانو بھی موجود تھا اور ہم تمام لڑکیاں شام میں وہاں جمع ہو کر انتہائی پرجوش انداز میں گانے گایا کرتے۔‘

’ہمیں گانے گنگنانے میں بہت مزہ آتا تھا، خاص کر وہ جو اس دور میں خلانوردوں کے حوالے سے بنائے گئے تھے۔‘

اور پھر وہ دن آ گیا جس کا ان تمام لڑکیوں کو انتظار تھا۔ 19 نومبر 1962 کو یہ فیصلہ ہونا تھا کہ خلا میں کون جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

خاتون کا خلا میں طویل ترین قیام کا ریکارڈ

پیگی وِٹسن خلا میں جانے والی معمر ترین خاتون

ایک مجسمہ جو خلا تک پہنچ سکتا ہے

آخر میں جو دو خواتین بچ گئیں وہ ویلنٹینا تیریشکووا اور ویلینٹینا پوناماری اووا تھیں لیکن آخری انتخاب کے لیے نظریے نے مہارت پر سبقت حاصل کر لی۔

تیریشکووا سرِ عام مرکزی پارٹی کے لیے اپنی حمایت کے بارے میں بات کرتی تھیں اور ان کی بیٹی یولینا اب اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ ان کے انتخاب میں کہیں نہ کہیں ان کی خوبصورتی کا بھی ہاتھ تھا۔

وہ ان کے تازگی سے بھرپور چہرے کے بارے میں بات کرتی اور بتاتی ہیں کہ اس وقت کے سوویت رہنما خروشوو کو ان کی خوبصورتی بھا گئی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک تو وہ ایک فیکٹری ورکر تھیں اور دوسرا یہ بات سچ ہے کہ خروشوو انھیں پسند کرتے تھے۔

’میری ماں جیکی کینیڈی (جے ایف کینیڈی کی اہلیہ اور امریکہ کی سابق خاتونِ اول) سے خاصی متاثر تھیں اور وہ ان جیسا دکھنا چاہتی تھیں۔‘

ادھر ویلینٹینا پوناماری اووا کے ٹیسٹ کے نتائج بہترین تو تھے لیکن وہ سیلیکشن بورڈ کو متاثر کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ جب ان سے انٹرویو کے دوران پوچھا گیا کہ وہ زندگی سے کیا چاہتی ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’وہ سب کچھ جو یہ مجھے دے سکتی ہے۔‘

وہ رد کیے جانے کے کئی سال بعد بھی خاصی مایوس رہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ ایک انتہائی کرب ناک لمحہ تھا جب تیریشکووا نے خلا کے لیے پرواز بھری اور ہمیں پیچھے چھوڑ گئیں۔‘

’انھوں نے ہمیں کہا کہ مایوس نہ ہوں، آپ سب کو خلا میں جانے کا موقع ملے گا اور ہم اس امید کے سہارے کئی سال تک جیتے رہے۔ مجھے لگا میری زندگی اچانک ختم ہو گئی ہے اور اب کچھ کرنے کو نہیں رہا۔‘

خلا میں قدرتی آوازوں کی یاد

جب ویلینٹینا تیریشکووا خلا میں پہنچیں تو ان کے کیپسول کی تصاویر میں ہوا میں معلق قلم اور لکھنے والی کاپی خاصی مشہور ہوئی جسے ایک برطانوی ٹی وی پروگرام میں خاصی پذیرائی ملی۔ ان کی سوویت رہنما سے خلا سے ہونے والی گفتگو دنیا بھر سنائی گئی۔

اس گفتگو کے دوران وہ کہتی ہیں کہ ’تمام سسٹمز بہترین انداز میں کام کر رہے ہیں‘ اور وہ ’بہت اچھا‘ محسوس کر رہی ہیں۔

اس پر خروشیو نے جواب دیا کہ ’ویلینٹینا مجھے خوشی اور فخر ہے کہ خلا میں جانے والی پہلی خاتون سوویت یونین سے ہے اور وہ اتنے جدید آلات استعمال کر رہی ہے۔‘

ان کا زمین سے رابطہ ٹوٹتا جڑتا رہتا لیکن وہ کہتی ہیں کہ میں زمین سے جتنی دور ہوتی جاتی، اتنا ہی مجھے قدرتی آوازوں کی یاد آنے لگتی، جیسے بارش۔

انھیں اس مشن کے دوران مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس وقت انھوں نے خلا میں زیادہ سونے کے الزامات کی تردید کی تھی لیکن بعد میں اسے تسلیم کر لیا۔ انھوں نے کیپسول میں قے کرنے کی بھی تردید کی تھی تاہم آج کل اسے خلابازوں کے لیے ایک معمول کی بات سمجھا جاتا ہے۔

ان کی بیٹی بھی اس بات کی تردید کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ جن لوگوں نے یہ باتیں پھیلائیں ان کے بارے میں ان کی والدہ کا خیال تھا کہ وہ ان سے حسد کرتے ہیں اور یہ خاصی پیچیدہ صورتحال تھی۔

تین روز خلا میں گزارنے کے بعد اب ان کی واپسی کا وقت آن پہنچا تھا۔ انھیں پہلے زمین سے سات کلومیٹر اونچائی پر کیپسول سے نکالا گیا اور پھر چار کلومیٹر پر آ کر ان کا پیراشوٹ کھل گیا۔

ان کی بیٹی بتاتی ہیں کہ وہ زمین پر جس جگہ اتریں وہاں انھیں سب سے پہلے کسانوں نے دیکھا اور انھیں خلابازوں کے لباس میں ملبوس دیکھ کر انھیں چھونا شروع کر دیا اور کہا کہ ’اوہ تم زندہ ہو، تم کتنی دلچسپ ہو۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ میری ماں نے انھیں اپنا خاص کھانا بھی چکھایا کیونکہ ان کے لیے یہ انتہائی دلچسپ تھا۔

’ایک انتہائی عمر رسیدہ خاتون نے میری والدہ سے پوچھا کہ اوہ میری بیٹی، کیا تم نے خلا میں خدا کو دیکھا کیونکہ تم تو اتنی بلندی پر تھیں۔ تو میری والدہ نے جواب دیا کہ نہیں، میں نہیں دیکھ پائی۔‘

’ہزاروں کارکنان نے اس سفر کویقینی بنایا‘

واپسی پر ویلینٹینا تیریشکووا کا شاندار استقبال کیا گیا اور جب وہ سرخ قالین پر سفید ہیل پہن کر چل رہی تھیں تو کچھ افراد نے انھیں ’ستاروں کی سنڈریلا‘ اور ’سکرٹ میں ملبوس گاگارن‘ کے القابات سے نوازا۔

اپنی تقریر کے بعد خروشوو نے انھیں گلے سے لگایا اور پھر وہ اپنی روتی ہوئی عمر رسیدہ والدہ سے ملیں۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد ویلینٹینا تیریشکووا کی شادی ساتھی خلاباز ایندریان نکولووا سے ہوئی اور خروشوو نے اس شادی کی ریاستی سطح پر میزبانی کی۔

اس تاریخی خلائی سفرکے 17 برس بعد دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مشن کی کامیابی کا سہرا ان تمام افراد کو دیا جنھوں نے یہ مشن یقینی بنایا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہزاروں کارکنان نے اس سفر کویقینی بنایا، جن میں ڈاکٹر، ڈیزائنرز، سائنسدان اور دیگر افراد شامل ہیں جنھوں نے مجھے اس پرواز کے لیے تیار کیا۔‘

ان کے خلا میں جانے کے 19 برس بعد ہی کسی خاتون کو خلا میں بھیجا جا سکا۔

سوویت حکام سے خلا میں مزید خواتین نہ بھیجنے پر احتجاج

اس تاریخی سفر کے کئی برس بعد ویلینٹینا تیریشکووا نے بی بی سی نیوز کو بتایا تھا کہ انھوں نے مرکزی کمیونسٹ پارٹی پر احتجاجی خط میں مزید خواتین کو خلا میں نہ بھیجنے پر تنقید کی تھی۔ انھوں نے بتایا تھا کہ سوویت حکام سمجھتے تھے کہ ایسا کرنا ’اتنہائی خطرناک‘ ثابت ہو گا۔

انھوں نے بی بی سی نیوز کے پلاب گھوش سے سنہ 2015 میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر زمین پر مرد اور خواتین ایک ہی طرح کے خطرات سے نبرد آزما ہیں تو خلا میں کیوں نہیں۔‘

’ہم خلا میں مزید خواتین کو بھیجنے کے بارے میں سوچ رہے تھے لیکن خلائی پروگرام کے سربراہ سرجی کورولیو نے فیصلہ کیا کہ یہ خواتین کے لیے انتہائی خطرناک ہو گا کیونکہ اس ٹیم میں ایک شادی شدہ خاتون شامل تھیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp