اسرائیل، فلسطین تنازع: آتش گیر غبارے چھوڑے جانے کے بعد غزہ پر اسرائیل کے تازہ فضائی حملے


اسرائیل غزہ

غزہ میں تازہ اسرائیلی حملوں کی فوٹیج

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ کی پٹی میں حماس کے اہداف کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں اور یہ حملے اس علاقے سے فائر کیے جانے والے آتش گیر غباروں کے بعد انتقامی کارروائی کے طور پر کیے گئے ہیں۔بدھ کو علی الصبح غزہ شہر میں دھماکوں کی آوازیں سُنی گئی تھیں۔ اسرائیلی فائر سروس کے مطابق منگل کے روز متعدد آتش گیر غبارے غزہ سے اسرائیل کی جانب فضا میں چھوڑے گئے تھے جن کے باعث متعدد مقامات پر آگ بھڑک اٹھی تھی۔

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 21 مئی کو اسرائیل اور حماس کے جنگجوؤں کے مابین 11 روزہ لڑائی کے ختم ہونے کے بعد یہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر کیے جانے والا پہلا فضائی حملہ ہے۔

غزہ سے آتش گیر غبارے چھوڑے جانے کا واقعہ منگل کے روز مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں یہودی قوم پرستوں کی جانب سے کیے مارچ کے بعد پیش آیا تھا۔ قوم پرست یہودیوں کی جانب سے مارچ کے اعلان کے بعد حماس نے کارروائی کی دھمکی دے رکھی تھی۔

ہم ان حملوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تازہ حملوں میں اس کے لڑاکا طیاروں نے خان یونس اور غزہ شہر میں حماس کے زیر انتظام فوجی کمپاؤنڈز کو نشانہ بنایا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ نشانہ بنائے جانے والے کمپاؤنڈز میں ’دہشت گردی کی سرگرمیاں‘ ہو رہی تھیں اور یہ کہ ’اسرائیلی دفاعی فورسز غزہ کی پٹی سے جاری دہشت گردی کی کارروائیوں اور کشیدگی سمیت ہر طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار تھیں۔‘

فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ آیا فضائی حملوں میں کوئی ہلاک یا زحمی ہوا ہے یا نہیں۔

حماس کے ترجمان نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا ہے کہ فلسطینی عوام بیت المقدس میں اپنی ’جراتمند مزاحمت اور اپنے حقوق اور مقدس مقامات کا دفاع‘ جاری رکھیں گے۔

Masked Palestinians launch incendiary balloons from the Gaza Strip towards Israel.

آتش گیر غبارے (فائل فوٹو)

اسرائیل کی فائر سروس نے کہا ہے کہ غزہ سے چھوڑے جانے والے آگ کے غباروں کی وجہ سے جنوبی اسرائیل کے کھیتوں میں کم سے کم 20 مقامات پر آگ لگ چکی ہے۔

رواں ہفتے اسرائیل کی نئی مخلوط حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ کشیدگی کی پہلی کارروائی ہے۔ اسرائیل میں نئی مخلوط حکومت کی سربراہی نفتالی بینیٹ کر رہے ہیں۔ نئی مخلوط حکومت کا قیام سابق وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے 12 سالہ دور اقتدار کے بعد ہوا ہے۔


ایک نازک فائر بندی کی یاد دہانی تجزیہ: رشدی ابو الوف، بی بی سی نیوز، غزہ شہر

حالیہ فضائی حملے صرف 10 منٹ تک جاری رہے لیکن یہ حالیہ سیز فائر کے بعد بحالی کی کوششوں میں مصروف فلسطینی باشندوں کو یہ یاد دلانے کے لیے کافی تھے کہ یہ سیز فائر انتہائی نازک ہے۔

یہ صرف ان دھماکوں کی آوازیں ہی نہیں ہیں جو لوگوں کو یہاں جنگ کی یاد دلاتی ہیں۔ آپ کو صرف اپنی گاڑی چلانی ہو گی یا شہر کی گلیوں میں چلنا ہو گا تاکہ شہر میں ہونے والی تباہی کا مشاہدہ کر سکیں۔ غزہ کے وسط میں اب بھی ٹنوں ملبے بکھرا ہوا ہے جس کے باعث سڑکیں بند ہیں۔

ایک مقامی ریڑھی بان ابو محمد رمل نامی علاقے کے قریب ایک چھوٹی سی ریڑھی پر میوے فروخت کرتے ہیں۔ وہ تشدد کے پچھلے دور میں اب تک کے سب سے بڑے حملوں سے متاثر ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا ’اب ہم مزید جنگیں برداشت نہیں کر سکتے، کورونا وبا نے کئی مہینوں سے ہمارا کام روزگار بند کر رکھا تھا اور گذشتہ ماہ ہونے والی لڑائی نے مزید نقصان پہنچایا ہے۔ میں اپنے چھ بچوں کو مزید کھانا نہیں کھلا سکتا۔‘

تازہ ترین حملوں میں متاثر ہونے والے حماس کے ایک فوجی ٹھکانے کے قریب رہنے والے ایک شخص نے مجھے فون پر بتایا کہ ’وہاں سے اٹھتے دھوئیں کے بگولوں کا نظارہ خوفناک تھا۔‘


یروشلم مارچ میں کیا ہوا؟

منگل کے روز اسرائیلی پولیس نے مشرقی بیت المقدس کے علاقوں کو مارچ کے لیے خالی کروانے کی غرض سے فلسطینی مظاہرین کے خلاف سٹن گرنیڈز اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا جس سے 30 سے زائد فلسطینی مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ 17 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ اسرائیلی مظاہرین نے مقامی فلسطینیوں کے خلاف ’عربوں کے لیے موت‘ کے نعرے لگائے۔

یروشلم فلیگ مارچ ایک سالانہ تقریب ہے جس میں مشرقی یروشلم پر اسرائیلی قبضے کی نشاندہی کی یاد منائی جاتی ہے۔ یہ قدیم شہر، جو مقدس مقامات کا گھر ہے، سنہ 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں اسرائیل کے قبضے میں آ گیا تھا۔

اس سال یہ تقریب گذشتہ جمعرات کو ہونا تھی لیکن اسرائیلی پولیس کی جانب سے حفاظتی خدشات کے پیش نظر اس کے مجوزہ راستے کو مسترد کرنے کے بعد منتظمین نے اسے منسوخ کر دیا۔

بعد ازاں اسے اسرائیل کی مخلوط حکومت نے منظور کر لیا۔ وزیر خارجہ یائر لاپڈ نے نسل پرستانہ اور پُرتشدد گانے گانے والے اسرائیلی شرکا پر تنقید کی ہے۔

مسٹر لاپیڈ نے کہا ’حقیقت یہ ہے کہ ایسے انتہا پسند بھی ہیں جن کے لیے اسرائیلی پرچم نفرت اور نسل پرستی کی نمائندگی کرتا ہے اور یہ ان کے لیے مکروہ اور ناقابل برداشت ہے۔‘

’یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کس طرح کوئی شخص ہاتھ میں اسرائیلی پرچم تھامے ’عربوں کی موت‘ کا نعرہ لگا سکتا ہے۔‘

اسرائیل

یہ بھی پڑھیے

اسرائیل اور فلسطین کو درپیش داخلی چیلنجز کے بیچ سیزفائر کتنا دیرپا ثابت ہو گا؟

غزہ: ’جنگ ختم ہو چکی، اب مجھے اپنا خوبصورت گھر واپس چاہیے‘

اسرائیل سے 11 روزہ جنگ فوجی صلاحیتوں کو آزمانے کا موقع تھا: حماس رہنما

اسرائیل، غزہ تنازع پر امریکہ کے ڈیموکریٹس میں بنیادی تبدیلی

گذشتہ ماہ ہونے والی لڑائی کی وجہ کیا تھی؟

غزہ میں اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسندوں کے درمیان لڑائی کا آغاز 10 مئی کو مشرقی بیت المقدس میں کئی ہفتوں سے بڑھتے ہوئے تناؤ کے بعد ہوا، جس کے نتیجے میں مقدس مقام مسجد اقصیٰ میں جھڑپیں شروع ہوئیں۔

حماس نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ شیخ جراح سے پولیس کو ہٹا دیں جہاں فلسطینی خاندانوں کو یہودی آباد کاروں کی جانب سے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

حماس نے اسرائیل کو اس مقام سے پیچھے ہٹنے کے انتباہ کے بعد راکٹ فائر کرنا شروع کر دیے جس کے بعد اسرائیل نے فضائی حملے کیے۔ بعد ازاں مصر اور دوسرے ممالک نے جنگ بندی کروائی جو 21 مئی سے نافذ العمل تھی۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق لڑائی کے دوران غزہ میں کم از کم 243 افراد جن میں 100 سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں مارے گئے تھے۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ 11 روزہ لڑائی میں اس نے کم از کم 225 فلسطینی عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا۔

اسرائیل کے مطابق حماس کے راکٹ حملوں کے باعث اسرائیل میں دو بچوں سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp