ہیرے اگلتا میدان افسانہ یا حقیقت؟ ایک گاؤں میں سینکڑوں لوگ کھدائی میں مصروف


جنوبی افریقہ، پتھر

’میں نے کبھی اپنی زندگی میں ہیرے کو نہیں چھوا۔ میں یہاں اسے پہلی بار چھو رہا ہوں۔‘

سکھمبوزو مبھلے ان سینکڑوں افراد میں شامل ہیں جو اپنی زندگی کے بدلنے کی امید میں جنوبی افریقہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں آئے ہوئے ہیں۔

صوبہ کوازولو نٹا کے شہر ڈربن کے شمال میں تقریباً 250 کلومیٹر میں ہیرے کی تلاش میں یہ رش ایک ہفتہ قبل ایک حادثاتی دریافت کے بعد شروع ہوا۔

صوبائی حکومت نے انتباہ کیا ہے کہ یہ کھدائی غیر قانونی ہے لیکن بہت سارے لوگوں کے لیے یہ غربت سے نکلنے کے لیے زندگی میں صرف ایک بار ملنے والا موقع ہے۔

یہ رش شروع کیسے ہوا؟

ایک چرواہے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے سب سے پہلے کسی کھلے میدان میں ان پتھروں کا انکشاف کیا۔

تب سے سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی ویڈیوز اور تصاویر سامنے آنے لگیں جس میں لوگوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انھیں بھی ہیرے جیسے کنکر ملے ہیں۔

اس آن لائن دھماکے نے پڑوس کے قصبوں اور دیہات سے سینکڑوں لوگوں کو اس خزانے کی جگہ پر جانے پر مائل کیا۔

جنوبی افریقہ، خواتین

خوش قسمتی کے متلاشی کون ہیں؟

جنوبی افریقہ میں بی بی سی کے نامہ نگار نومسا ماسیکو کہ مطابق اس پتھر کی تلاش میں آنے والوں میں زیادہ تر بے روزگار خواتین شامل ہیں۔

نومسا ماسیکو کہتی ہیں کہ ’صبح سویرے جب سے ہم یہاں پہنچے ہیں، اس وادی میں سینکڑوں لوگ موجود ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کے پاس کلہاڑیاں اور بیلچے ہیں اور وہ ہیرے کی تلاش میں کھدائی کر رہے ہیں۔‘

’بہت سی خواتین نے یہاں کھدائی کرتے ہوئے رات بھی گزاری ہے، ان میں سے کچھ نے گاؤن پہن رکھے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ رات کو یہاں سردی تھی۔‘

یہ بھی پڑھیے

پیراگرینا پرل: دنیا کا سب سے مشہور اور مہنگا موتی جو دولت اور طاقت کی علامت بنا

نایاب گلابی ہیرے نے نیلامی کے ریکارڈ توڑ دیے

نادر سفید ہیرا ڈیڑھ کروڑ ڈالر کے ’سستے سودے‘ میں فروخت

اس مقام پر موجود ایک خاتون ویلیل ویلاکازی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’یہ کمیونٹی کے لیے بہت مددگار ثابت ہو گا۔ ہمیں امید ہے کہ اس سے جرائم ختم ہو جائیں گے خاص طور پر خواتین کے خلاف جرائم کیونکہ نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے ایسی چیزیں کرتے ہیں۔‘

سکھمبوزو مبھلے نے کہا: ’مجھے امید ہے کہ اس سے ہمارے گھر میں تبدیلی آئے گی کیونکہ ہم بہت جدوجہد کر رہے ہیں تو مجھے امید ہے کہ چیزیں بہتر ہو جائیں گی۔‘

جنوبی افریقہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں بے روزگاری کی شرح 33 فیصد ہے اور 15 سے 34 برس کی عمر کے لوگوں میں یہ شرح 46 فیصد ہو گئی ہے۔

جوہانسبرگ یونیورسٹی میں سینٹر فار سوشل ڈیویلپمنٹ کی ایک ماہر نفیسات ڈاکٹر میلنڈا ڈو ٹائٹ کہتی ہیں کہ کھدائی کرنے والے، جن میں سے اکثریت کے پاس ’کچھ نہیں‘، یقین رکھتے ہیں کہ یہ ایک خدائی تحفہ ہے۔

’ہیروں کے بارے میں کچھ لوگ یہی کہتے ہیں کہ یہ خدا مہیا کر رہا ہے، یہ زمین ہمارے لیے مہیا کر رہی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ کچھ سامنے آئے گا۔‘

جنوبی افریقہ، پتھر

افسانہ یا کوئی خواب سچ ہو گیا؟

صوبہ کوازولو نٹا کی حکومت نے لوگوں کو یہاں سے جانے کا کہا ہے۔ پریمیئر سہلے زیکالاالہ نے کہا ہے کہ ’ہمیں پریشانی ہے کہ اگر صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو افراتفری اور ممکنہ بھگدڑ مچ سکتی ہے۔‘

حکومت نے کہا ہے کہ محکمہ معدنیات اور توانائی کے ماہرین پتھروں کی حیثیت کے تعین کے لیے ان کا تجزیہ کریں گے۔

ویب سائٹ geology.com کے مطابق جنوبی افریقہ دنیا بھر میں ہیروں کا چوتھا بڑا پروڈیوسر ہے اور ہیروں کی تلاش میں آئے لوگ شاید اسی وجہ سے پر امید ہیں۔

سنہ 1905 میں یہاں سے ہی دنیا کا سب سے بڑا کھردرا کوالٹی کا ’کلینن ہیرا‘ ملا تھا۔

سٹیلنبوسچ یونیورسٹی میں مٹی پر تحقیق کرنے والی ڈاکٹر مشعل فرانسس کہتی ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ یہ حالیہ دریافت شدہ پتھر کوارٹز ہو سکتا ہے، جو ایک بہت ہی کم قیمتی کرسٹل ہے اور ہیرے کی طرح دکھائی دیتا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’ہیرے تلاش کرنا انتہائی نایاب ہے۔ کان کنی کی کمپنیاں اس کے لیے بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتی ہیں اور گندگی میں ہیرے ملنے کا امکان بہت کم ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp