آرمی چیف جج کو کیوں ہینڈل کروانا چاہتے تھے؟


”تم سے ہائیکورٹ کا ایک جج نہیں ہینڈل ہو رہا“ سپریم کورٹ کے پانچ ججز کے سامنے بولے جانے والا یہ صرف ایک جملہ نہیں بلکہ ان چند الفاظ نے ہماری چوہتر سالہ غلامی کی تاریخ بیان کر دی ہے۔ یہ کلمات اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے شوکاز نوٹس کے جواب میں عدالت عظمیٰ کے پانچ ججز کے روبرو پڑھے گئے بیان میں دہرائے۔ سپریم کورٹ میں بیان کردہ حقائق کے مطابق سابق جج کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ہماری تاریخ کا نوحہ بیان کرنے کے ساتھ ہمیں آگہی دے رہے ہیں کہ کیسے ایک طاقتور ادارہ اپنی آئینی حدود سے تجاوز کر کے دوسرے ریاستی اداروں کے حقوق سلب کرتا ہے۔ یہ متکبرانہ لہجہ انصاف کے بڑے ادارے کی لاچارگی کا تمسخر بھی اڑا رہا ہے اور ہمیں متنبہ بھی کر رہا ہے کہ اس یرغمالی نظام کو اپنے شکنجے میں جکڑنے والی پوشیدہ قوتیں آئینی بالادستی کی بات کرنے والوں کو کیسے نشان عبرت بناتی ہیں۔

سابق جج کے وکیل نے مغلق یا مبہم انداز کی بجائے بہت سادہ الفاظ میں بیان کیا کہ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے جسٹس شوکت صدیقی سے ایک ملاقات میں کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مجھ سے سخت ناراض ہوئے کہ میں ہائیکورٹ کے ایک جج کو ہینڈل نہیں کر سکا۔ جج صاحب کے مطابق فیض حمید صاحب ان سے نواز شریف کے حق میں فیصلہ نہ دینے کی پیشگی ضمانت طلب کر رہے تھے اور بدلے میں وقت سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنانے سمیت دیگر پرکشش مراعات بھی آفر کر رہے تھے۔ دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کے ججز سے ایکسٹینشن کے حق فیصلہ لینے کے بعد پارلیمنٹ سے بھی تمام سیاسی جماعتوں سے متفقہ ووٹ لینے والے آرمی چیف کا ایک جج کے ”ہینڈل“ نہ ہونے پر غصہ بجا تھا۔

اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کی کہانی نئی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی جج صاحبان دباؤ کا اعتراف کر چکے ہیں۔ سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کے لئے ان پر دباؤ تھا اور اسی طرح احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے بھی ایک ویڈیو میں اعتراف کیا کہ نواز شریف کو سزا سنانے کے لئے ان پر کچھ شخصیات کا دباؤ تھا۔ اسی طرح نواز شریف کے دور حکومت میں وزیر قانون خالد انور، احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمٰن، شہباز شریف اور لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج ملک قیوم کی بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کو زبردستی سزا دینے کے معاملے پر گفتگو سامنے آئی۔

ستم ظریفی یہ ہے نواز شریف کو بھی ایک ایسے جج نے سزا سنا کر جیل بھیجا جس نے اعلی عدلیہ کے ججز اور طاقتور حلقوں کے دباؤ کا اعتراف کیا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ جسٹس قیوم کو ہینڈل کرنے کا معاملہ بھی غلط تھا اور جج ارشد ملک سمیت باقی ججز پر دباؤ ڈال کر من پسند فیصلے لینا بھی غلط ہے۔ یہاں ججز کی کمزوری کا اعتراف کرنا بھی ضروری ہے جو صرف نوکری کی خاطر اپنا آئینی حلف بھول جاتے ہیں۔

ہائبرڈ نظام کی بات کی جائے تو اس وقت میڈیا بھی ”ہینڈل“ ہو چکا ہے۔ ریٹنگ لینے والے بہت سارے حق گو صحافی اپنے نوکریوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ اس ضمن میں محترم حامد میر صاحب کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ صف اول کے اینکر حامد میر صاحب کو صرف نوکری عزیز ہوتی تو وہ آج بھی نہ صرف نمبر1 شو کی میزبانی کر رہے ہوتے بلکہ اشاروں پر حکومتی مدح سرائی کرنے والے کچھ دیگر اینکرز کی طرح حکومتی مراعات بھی سمیٹ رہے ہوتے لیکن صحافی اسد طور کے ساتھ یکجہتی کے لئے ہونے والے صحافتی تنظیموں کے احتجاج میں میر صاحب نے ”جذبات“ میں آ کر کچھ ایسے حقائق بیان کر دیے جو آزاد منش صحافیوں کو ”ہینڈل“ کرنے والوں کو خاصے ناگوار گزرے۔

میر صاحب نے کسی کا نام نہیں لیا لیکن پھر بھی انھیں غدار قرار دینے کے لئے کٹھ پتلیاں میدان میں اتاری گئیں۔ یہ تاثر دیا جانے لگا کہ ان کا بیان فوج کے خلاف ہے۔ میر صاحب نے منتخب صحافتی نمائندوں سے ملاقات میں فوج کے خلاف بیان کا تاثر زائل کرنے کے لئے معذرت کی لیکن اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ حامد میر اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ سچ بولنے والے صحافیوں کو جبری ہتھکنڈوں سے ’ہینڈل‘ کرنے کے خلاف میدان میں آئے۔

اس ہائبرڈ نظام میں اداروں کا تقدس بچانا ہے تو ہمیں ایسے وزیراعظم چاہئیں جو ڈکٹیشن لینے سے انکار کریں، ایسے ججز چاہئیں جو ہینڈل نہ ہو سکیں، حامد میر، ابصار عالم، عمر چیمہ، احمد نورانی، وسیم عباسی، عمار مسعود، مطیع اللہ جان، اعزاز سید، طلعت حسین اور عاصمہ شیرازی جیسے بہادر صحافی اور کالم نگاروں کی ضرورت ہے جو تمام مشکلات و مصائب جھیلنے کے باوجود ”ہینڈل“ ہونے کی بجائے طاقتوروں کے سامنے آئینی پاسداری کی بات کرنے سے نہیں جھجکتے۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ہر شعبہ میں ایسے عالی ظرف اشخاص کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جنہوں نے جبر کے ہتھکنڈوں کے سامنے جھکنے سے انکار کیا ہے۔

آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے لئے متفقہ ووٹ دینے والی پارلیمنٹ کی بات کریں تو اسے کسی بھی صورت ایک آزاد پارلیمنٹ نہیں کہا جا سکتا۔ رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ نے چند دن پہلے ایک ٹی وی شو میں اعتراف کیا کہ ان کی جماعت مقتدرہ قوتوں سے بات چیت کے لئے تیار ہے۔ اس اعلان کے بعد قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجہ سے متحدہ اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات کے انجام کا تعیین ہو جائے گا۔

اس تحریک پر خفیہ ووٹنگ 18 جون جمعہ کو ہوگی۔ اگر پاور بروکرز کا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ہوا تو اپوزیشن مارچ میں ہونے والے سینیٹ الیکشن کی تاریخ دہرا سکتی ہے۔ ایسا ہو گیا تو آمدہ جمعہ سے عمران خان کی مشکلات میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

اس عدم اعتماد کی تحریک کا نتیجہ جو بھی نکلے لیکن مقتدرہ قوتوں کی مداخلت سے انکار ممکن نہیں۔ اگر پاور بروکرز کی یہی روش برقرار رہی تو آج صرف ایک جج کو ہینڈل نہ ہونے پر ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن بہت جلد وہ وقت بھی آئے گا جب ”آپ“ کو کہنا پڑے گا کہ تم سے چند جج ہینڈل نہیں ہو رہے، صحافی کنٹرول نہیں ہو رہے، پھر کہیں گے تم سے چند سویلین کنٹرول نہیں ہو رہے، پھر کہیں گے تم سے صرف سوشل میڈیا کنٹرول نہیں ہو رہا۔ جو شخص زندگی، موت اور رزق کا معاملہ اللہ پاک پر چھوڑ دیتا ہے وہ ہینڈل ہونے سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ خدارا اپنے جذبات و خواہشات کنٹرول کیجئے اسی میں پاکستان کی بقاء ہے۔ بقول راحت اندوری۔

اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے
چراغ ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنے لگے

آپ نے ”وسیع تر قومی مفاد“ میں کئی بار مارشل لاء لگایا ہے۔ ہر ادارے کو آپ ”ہینڈل“ کر چکے ہیں، جنہوں نے ہینڈل ہونے سے انکار کیا انھیں راندۂ درگاہ کر کے بھی دیکھ لیا لیکن عجیب مزاج کے لوگ ہیں کہ مشکلات کے باوجود آئینی بالادستی کی بات کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ سب کو ہینڈل کرنے کے باوجود آپ سے معاملات نہیں سنبھل رہے اور عوام میں تاثر بھی خراب ہو رہا ہے تو اس بار آپ اپنے آپ کو ہی ”ہینڈل“ کر کے دیکھ لیں۔ بصد احترام میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کیا آپ سے صرف اپنے وہ جذبات کنٹرول نہیں ہو رہے جو آپ کو سیاست میں مداخلت پر اکساتے ہیں۔

اگر اس بار ’ملکی مفاد‘ میں حلف کی پاسداری کرتے ہوئے ”آپ“ سیاسی مداخلت سے پیچھے ہٹ گئے تو یقین مانیں پاکستان حقیقی معنوں میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا۔ آپ ہی سب سے زیادہ طاقتور ہیں اس لیے فیصلے کا اختیار بھی آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ نے سب کو ہینڈل کر کے دیکھ لیا، صرف ایک بار اپنے آپ کو ”کنٹرول“ کر کے تو دیکھیں نتائج آپ کی توقع سے بڑھ کر مثبت نکلیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments