بنبھور: قدیم شہر ’دیبل‘ اور سرزمین پاکستان کی پہلی مسجد کے آثار

عقیل عباس جعفری - محقق و مورخ، کراچی


یہ 1928 کی بات ہے جب گھارو کے شمالی کنارے، شاہراہ حیدر آباد پر کراچی سے 40 میل دور ایک وسیع اور بلند ٹیلے کو دیکھ کر ہندوستان کے مشہور ماہر آثار قدیمہ رمیش چندر مجمدار نے کھدائی کا آغاز کیا۔

مرزا کاظم رضا بیگ کی ایک تحریر کے اقتباس کے مطابق اس ٹیلے کو دیکھ کر تاریخ دانوں کو یہی خیال آتا تھا کہ اگر اسے کھودا جائے تو ممکن ہے یہاں کوئی پرانا شہر نکلے اور کچھ ایسی چیزیں برآمد ہوں جن سے تاریخ کی بہت سی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھ سکیں، یا بعض ایسی باتیں معلوم ہوں جو ابھی تک ہمارے علم میں نہ ہوں۔

کھدائی شروع تو ہوئی مگر بات کچھ زیادہ آگے نہ بڑھ سکی اور کچھ عرصے بعد یہ کھدائی روک دی گئی۔ پاکستان بننے کے بعد سنہ 1951 میں محکمہ آثار قدیمہ کے ایک افسر لیزلی الکوک کی نگرانی میں یہ کام دوبارہ شروع ہوا۔

الکوک صاحب نے سرسری کھدائیاں کیں اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہاں اسلامی زمانے سے پہلے کے کوئی آثار موجود نہیں اور یہاں کی کسی چیز سے ثابت نہیں ہوتا کہ یہ وہی شہر دیبل ہے جسے محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا۔

سنہ 1957 میں اس کام کی نگرانی پاکستان کے مشہور ماہر آثار قدیمہ ایف اے خان کے سپرد کر دی گئی جنھوں نے سنہ 1965 تک اس شہر کی کھدائی کا کام سرانجام دیا۔ ان کھدائیوں کے بعد ماہرین آثار قدیمہ نے بتایا کہ یہ شہر تقریباً دو ہزار سال قدیم ہے اور پہلی صدی عیسوی سے 13ویں صدی عیسوی تک اپنے عروج پر تھا۔

سنہ 1966 میں شائع ہونے والے پاکستان محکمہ آثار قدیمہ کے کتابچے ’بنبھور‘ کے مطابق انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ یہ وہی بندرگاہ تھی جہاں سکندر اعظم نے اپنی فوجوں کو تقسیم کیا تھا۔

تازہ کھدائیوں کے بعد محققین نے دعویٰ کیا کہ لیزلی الکوک کا خیال غلط ہے اور یہ وہی شہر ہے جو عرب میں بنو امیہ کے دور حکومت کے وقت ہندوستان میں دیبل کے نام سے آباد تھا اور اس وقت سندھ کا تجارتی مرکز تھا۔ یہاں سے تاجروں کے قافلے سمندر اور خشکی کے راستے دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کرتے تھے۔ یہی وہ شہر تھا جسے محمد بن قاسم نے 712 میں فتح کیا تھا۔

رفتہ رفتہ اس شہر کی قدامت اور تہذیب کے مختلف پہلو سامنے آتے رہے اور تاریخ کے مختلف ادوار میں اس شہر کے وجود کی نشاندہی ہوتی رہی۔ کچھ محققین نے بتایا کہ یہی وہ شہر ہے جو محبت کی مشہور لوک داستان سسی پنوں کا مرکز تھا۔

محبت کی یہ داستان شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی کتاب ’شاہ جو رسالو‘ میں رقم کی اور یوں اسے لازوال بنا دیا۔ سسی پنوں کی داستان سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنبھور ایک بہت ہی خوشحال اور بڑا شہر تھا۔ پنوں کیچ مکران کا شہزادہ تھا اور وہ تاجروں کے ایک قافلے کے ساتھ بنبھور آیا تھا۔

دو مارچ 1958 کو بنبھور میں آثار قدیمہ کی کھدائی کا آغاز ہوا۔ ایف اے خان کو ان کھنڈرات میں دو اہم تعمیرات کا سراغ ملا، ایک تو مضبوط قلعہ بند شہر پناہ جو مشرق سے مغرب کی طرف 200 فٹ چوڑی اور شمال سے مغرب کی طرف 1200 فٹ طویل تھی۔

محکمہ آثار قدیمہ کے کتابچے ’بنبھور‘ میں درج تفصیلات کے مطابق اس شہر پناہ کی تعمیر کا سراغ سنہ 1958 میں ملا، دو برس بعد 17 جون 1960 کو محکمہ آثار قدیمہ کو انھی کھنڈرات میں ایک مسجد کے آثار ملے جو محکمہ آثار قدیمہ کے بیان کے مطابق برصغیر میں تعمیر کی جانے والی پہلی مسجد کے آثار تھے۔

اس مسجد کے ساتھ ہی کچھ کتبے بھی برآمد ہوئے جن پر خط کوفی میں تحریر کی گئی ایک عبارت کے مطابق یہ مسجد 109 ھجری (سنہ 727) میں تعمیر ہوئی تھی۔

اس تحریر کی برآمدگی کے بعد ماہرین آثار قدیمہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مسجد برصغیر میں تعمیر ہونے والی اولین مسجد تھی جو محمد بن قاسم کے ساتھیوں نے تعمیر کروائی تھی۔ تاہم چیرامن کے مقام پر سنہ 628 میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد کے دعوے کے بعد بنبھور کی یہ مسجد برصغیر کی پہلی مسجد تو نہیں کہلائی جا سکتی البتہ اسے موجودہ پاکستان کی سرزمین پر تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔

ماہرین آثار قدیمہ کے اس دعوے کو مشہور مؤرخ اے بی راجپوت نے اپنی کتاب ’آرکیٹیکچر اِن پاکستان‘ میں بھی تسلیم کیا اور محکمہ آثار قدیمہ نے اپنی شائع کردہ مطبوعات خصوصاً ’بنبھور‘ نامی کتابچے میں مزید سند عطا کی۔

بنبھور کے آثار قدیمہ سے برآمد ہونے والی اس پہلی مسجد کے آثار کی برآمدگی 23 ستمبر 1962 کو مکمل ہوئی۔ بتایا گیا کہ یہ مسجد کم و بیش مربع تھی۔ اس مسجد کا طول 122 فٹ اور عرض 120 فٹ تھا۔ اس کے چاروں طرف چونے کے پتھر کی اینٹوں کی ایک ٹھوس دیوار تھی جس کی موٹائی تین سے چار فٹ تھی۔ مسجد کے صحن کا طول 75 فٹ اور عرض 58 فٹ تھا، یہ صحن اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔

مسجد کے تین اطراف میں دالان اور غلام گردشیں تھیں، جن کی چھت لکڑی کے قطار در قطار ستونوں پر قائم تھی۔ کھدائیوں سے ملنے والے آثار سے معلوم ہوا کہ یہ دالان چھوٹے چھوٹے حجروں میں تقسیم تھے اور ہر حجرہ نو سے گیارہ فٹ بڑا تھا۔

مسجد کی مغربی جانب ایک وسیع ایوان تھا جس کی چھت 33 ستونوں پر قائم تھی۔ مسجد میں وضو کرنے کا ایک چبوترا بھی تھا جس پر چونے کا پلستر کیا گیا تھا۔

یہ بھی اندازہ ہوا کہ آخری زمانے میں یہ چبوترا گودام کے طور پر استعمال ہوتا تھا جس پر مٹی کے چراغ رکھے جاتے تھے۔ فرش پر ان چراغوں کا ایک ڈھیر بھی برآمد ہوا۔ مسجد کے دو بڑے دروازے تھے جو مشرقی اور شمالی سمت میں واقع تھے اور ایک چھوٹا دروازہ مغرب میں تھا جس کے ساتھ سیڑھیاں بھی بنی ہوئی تھیں۔

مشرقی دروازہ مسجد کا صدر دروازہ تھا جو ساڑھے پانچ فٹ چوڑا تھا۔ اس دروازے کے قریب ایک بڑے کتبے کے ٹکڑے بھی ملے جن پر خط کوفی میں تحریریں موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

راجہ داہر یا محمد بن قاسم، حقیقی ہیرو کون؟

وہ شہر جہاں محمد بن قاسم نے سندھیوں سے ’آخری‘ لڑائی لڑی

’سندھ کا بھگت سنگھ‘ جسے اپنی ہی دھرتی نے بھلا دیا

یہ صدر دروازہ خاصی بری حالت میں ملا تاہم مسجد کا شمالی دروازہ نسبتاً اچھی حالت میں تھا۔ یہ دروازہ سات فٹ چوڑا تھا اور اس کے ساتھ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ اس دروازے کے اندرونی حصے میں بھی چوکھٹے اور دہلیز کے نشانات موجود تھے۔

ان چوکھٹوں پر لگی ہوئی لکڑی گل چکی تھی۔ اس مسجد میں کوئی محراب نہیں تھی اوراس کا نقشہ کوفہ اور واسط کی مساجد سے مشابہہ تھا اور انھی کا تسلسل لگتا تھا۔ کوفہ اور واسط کی مساجد بالترتیب 670 اور 702 میں تعمیر ہوئی تھیں اور ان میں بھی کوئی محراب نہیں تھی۔ بنبھور میں برآمد ہونے والی یہ مسجد تیرہویں صدی عیسوی تک قائم رہی۔

بنبھور کی اس مسجد سے خط کوفی میں لکھے ہوئے کئی کتبات بھی برآمد ہوئے جو پتھروں پر کندہ تھے۔ یہ کتبات فن خطاطی کا بہت عمدہ نمونہ ہیں۔ یہ کتبات 109 ہجری (سنہ 727) اور 294 ہجری (سنہ 906) کے دوران تحریر کیے گئے تھے۔

اس مسجد کے شمال کی جانب ایک نہایت وسیع عمارت کے آثار بھی پائے گئے جس کے متعلق گمان کیا گیا کہ یا تو یہ مسجد سے ملحقہ مدرسہ ہے یا سرکاری نظم و نسق کی کوئی عمارت۔ اس عمارت کا دروازہ بہت شاندار تھا جو مسجد کے شمالی دروازے کے بالکل سامنے کھلتا تھا۔

بنبھور کے آثار کی کھدائی مکمل ہونے کے بعد 14 مئی 1967 کو نیشنل بینک آف پاکستان کے مینیجنگ ڈائریکٹر ممتاز حسن نے اس مقام پر ایک تاریخی عجائب گھر کا افتتاح کیا جہاں وہ نوادرات رکھے گئے ہیں جو بنبھور کی کھدائی کے دوران برآمد ہوئے تھے اور بنبھور کی تاریخ کا پتا دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp