ایس بی جون! ایک معذرت


سب سے پہلے تو ہم اس بات پر اپنے قارئین سے معذرت کے طلب گار ہیں کہ ایس بی جون صاحب کے حوالے سے مضمون میں ایک گانے ”“ گوری گھونگھٹ میں شرمائے ”کے بارے میں غلطی سے کہہ دیا کہ یہ گانا جون صاحب کا گایا ہوا ہے لیکن اصل میں یہ گانا محمد کلیم صاحب ( 1925 تاء 1994 ء) نے گایا ہے۔ ہم اس غلطی پر جون صاحب اور کلیم صاحب دونوں کے پرستاروں سے معذرت خواہ ہیں۔ اور اس حوالے سے ظفر مرزا صاحب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے استاد محترم رضا علی عابدی صاحب کی وضع کردہ اصطلاح بذریعہ کتاب چہرہ (یعنی فیس بک ) ہماری غلطی کے بارے میں مطلع فرمایا۔ ظفر صاحب نے ہی ہماری توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں ایس بی جون صاحب کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں دی ہیں۔ سو ظفر صاحب کی فرمائش سر آنکھوں پر۔ امید ہے کہ اب ان کی اور دیگر قارئین کی تسلی ہو جائے گی۔

سنی بنجمن جون المعروف ایس بی جون سنء 1934 ء میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ موسیقی ان کو وراثت میں ملی تھی۔ ان کے دادا بھی گلوکار تھے اور ان کے والدین بھی گیت سنگیت میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کے والد ہارمونیم بجاتے تھے جبکہ والدہ ننھے جون کو رات کو سونے سے پہلے لوریاں سناتی تھیں۔ ، یوں موسیقی کی جانب رجحان کے مواقع موجود تھے۔ پھر چرچ میں بھی مذہبی گیت سنتے تو ان کی اس شعبے میں دلچسپی مزید بڑھ گئی۔ ساتھ ہی وہ سینٹ پال ہائی سکول میں نصابی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ گھر والوں سے موسیقی کے بنیادی گر سیکھنے کے بعد انہوں نے باقاعدہ طور پر کراچی میں ”پنڈت رام چندر ترویدی“ کے موسیقی سکھانے کے ادارے ”کلیان سنگیت ویدیالا“ سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ وہ گانا گانے کے ساتھ ساتھ کئی طرح کے ساز بجانا بھی سیکھ گئے۔

جب وہ موسیقی کی تعلیم حاصل کر چکے تو گلوکاری کو بطور پیشہ اختیار کرنے کا سوچا لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ جس موسیقار کے پاس جاتے، وہ ان کو یہ کہہ کر مسترد کر دیتا کہ ان کی آواز فلمی گیت گانے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ یوں جون صاحب کے لیے موسیقی کے شعبے کا سفر آسان نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ثابت ہوا۔

ریڈیو پاکستان میں بھی انہیں مسترد کر دیا گیا۔ پھر ایک دوست نے ان کی ریڈیو پاکستان کراچی کے سٹیشن ڈائریکٹر سے سفارش کی کہ انہیں کم از کم ایک دفعہ موقعہ تو دیا جائے۔ ریڈیو پاکستان کے ہر فن مولا موسیقار، گلوکار، نغمہ نگار اور پیش کار مہدی ظہیر کی دروں بین نگاہوں نے ان کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور اپنے پروگرام ”سنی ہوئی دھنیں“ میں انہیں موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ اس پروگرام میں فلمی طرز کی غزلیں نشر کی جاتی تھیں۔

یوں سنء 1950 ء میں اس پروگرام میں ایس بی جون کی آواز میں غزل نشر کی گئی۔ معاوضہ تو معمولی تھا لیکن نوجوان ایس بی جون کو اس بات کی خوشی تھی کہ انہیں اپنے فن کو ریڈیو کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کرنے کا موقع تو مل گیا تھا۔ اس زمانے میں ایک گلوکار کے فن کی اصل معراج فلم ہوتی تھی۔ اس لیے انہوں نے ایک نئے جذبے سے فلمی موسیقاروں کے پاس جانا شروع کیا لیکن ہر کسی کا یہی جواب ہوتا کہ آپ کی آواز فلمی گیتوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔

مسلسل مسترد کیے جانے سے وہ اس قدر مایوس ہو گئے کہ انہوں فیصلہ کر لیا کہ اب وہ صرف ریڈیو کے لیے گائیں گے۔ اس دوران سنء 1957 ء میں ان کی شادی بھی ہو گئی۔ سنء 1958 ء میں موسیقار ماسٹر منظور حسین نے اپنی فلم ”سویرا“ میں نئے گلوکاروں کو متعارف کرانے لیے نئے گلوکاروں سے آزمائشیں (آڈیشن) لینے کا اعلان کیا۔ ایس بی جون کو بھی اس مقابلے کا علم ہوا لیکن دوبارہ سے مسترد ہونے کے خوف سے انہوں نے قسمت آزمائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ایک دوست کے ہمت بندھانے پر یہ سوچ کر کہ مسترد ہونے کی صورت میں نقصان کچھ نہیں ہو گا، قسمت آزمائی کے لیے چلے گئے۔

گلوکاروں کی آزمائش ماسٹر منظور حسین خود لے رہے تھے، جون نے ان سے کہا کہ آج مجھے بخار بھی ہے اور گلہ بھی خراب ہے، تو شاید میں اچھی طرح سے نہ گا سکوں۔ تو ماسٹر منظور حسین نے، جو اپنے غصے کے حوالے سے مشہور تھے، نے ان سے کہا کہ تم کوشش تو کرو، باقی تم سے فلم میں گیت گوانے یا نہ گوانے کے بارے میں فیصلہ کرنا میرا کام ہے۔ تو ایس بی جان نے ایک گانے کے بول گا دیے۔ انہیں سن کر ماسٹر منظور حسین ششدر رہ گئے، انہوں نے جون سے کہا کہ تم اب تک کہاں چھپے ہوئے تھے، تم تو پیدا ہی سنگیت کے لیے ہوئے ہو۔

جون کی گلوکار بننے کے حوالے سے جدوجہد کا سن کر انہوں نے جون کو نصیحت کی کہ کبھی گلوکاری مت چھوڑنا۔ یوں ہدایت کار رفیق رضوی کی فلم ”سویرا“ میں ماسٹر منظور کی موسیقی میں ملک کے نامور فلمی شاعر فیاض ہاشمی کے لکھے گئے گیت ”تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے، یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے“ کو جون صاحب نے گایا اور یہ گیت آتے ہی ہر جانب چھا گیا۔ یہ گیت اداکار کمال پر فلم بند کیا گیا تھا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ خود جون صاحب اس گیت میں اپنے انداز گلوکاری سے مطمئن نہ تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں خود اپنی کارکردگی سے اس قدر غیر مطمئن ہوا کہ گلوکاری ہی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن جب یہ گانا جاری کیا گیا تو ایک دن جون صاحب رکشے میں کہیں جا رہے تھے تو رکشہ ڈرائیور نے ریڈیو لگایا جس پر یہ گانا چل رہا تھا، رکشہ ڈرائیور غور سے اس گانے کو سننے لگا تو اس کی محویت کو دیکھ کر جون صاحب کو اندازہ ہوا کہ انہوں نے کچھ اچھا گایا ہے۔ اس گانے نے ملک کے اندر اور باہر دھوم مچا دی تھی۔ سویرا میں ایس بی جون نے ایک اور گیت بھی گایا تھا لیکن وہ تو جو نہیں ہے کے جیسی مقبولیت نہ پاء سکا۔

اس گیت کے بول تھے ”میری ملاقات ہوئی، پیا جی کے ساتھ ہوئی“ اس کے بول ناظم پانی پتی نے لکھے تھے۔ سن 1960 ء میں ”رات کے راہی“ میں انہوں نے احمد رشدی اور زبیدہ خانم کے ساتھ مل کر اے حمید کی موسیقی اور فیاض ہاشمی کے لکھے گیت کو گایا جس کے بول تھے ”بات چھوٹی سی ہے، مانو یا نہ مانو“ ۔ سنء 1961 ء میں وحید مراد کی فلم ”انسان بدلتا ہے“ میں انہوں نے زبیدہ خانم کے ساتھ مل کر ایک دو گانا گایا جس کے بول تھے ”ہم تم اور یہ کھوئی کھوئی رات“ ۔

سنء 1961 ء ہی میں ہدایت کار شیخ حسن کی فلم ”لاکھوں فسانے“ کے موسیقار دیبو بھٹا چاریہ نے ان سے تین سولو گیت گوائے تھے۔ یہ گیت تھے ”دنیا میں لاکھوں فسانے، کیا دل پہ گزری“ ، ”کسی ہم سفر کی تلاش ہے مجھے“ اور ”کتنے جوہر ہیں غربت میں“ تھے۔ لیکن ان تمام گیتوں میں سے کسی کو بھی عوام میں ان کے پہلے گیت جیسی پذیرائی نہ مل سکی۔ ان کی آواز آخری دفعہ سنء 1964 ء کی فلم ”پیار کی سزا“ میں استعمال ہوئی جہاں موسیقار منظور اشرف نے ان سے تین گیت گوائے تھے۔

”اب رات ہے اور ٹوٹے ہوئے دل کی صداء ہے“ سولو گیت تھا۔ جبکہ ”آنکھ ملانا برا ہے، دل کا ملانا برا ہے“ اور ”دل لے کے جی اب کدھر چلے ہو“ انہوں نے شمیم بانو کے ساتھ مل کر گائے تھے۔ لیکن ان گانوں کو بھی کوئی مقبولیت نہ مل سکی۔ یوں ایس بی جون کی فلمی گلوکاری کا سفر پانچ فلموں کے دس گانوں تک محدود ریا۔ وہ اپنے کم گانے کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ اس وقت تک زیادہ فلمیں لاہور میں بننے لگی تھی اور وہ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لاہور منتقل ہونے پر تیار نہ تھے کیونکہ وہ فلموں کی کمائی کو مستقل ذریعہ روزگار نہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے کراچی میں رہ کر اپنی مرضی اور موقع محل کے مطابق گلوکاری کرنے کو ترجیح دی۔ جب سنء 1964 ء میں پی ٹی وی کا آغاز ہوا تو وہ ہر کرسمس کی شام کرسمس کے خصوصی گیت گایا کرتے۔

سن 1965 ء کی جنگ کے دوران انہوں نے ایک ملی ترانہ گایا جس کے بول تھے ”اے ارض وطن تو ہی بتا تیری صدا پر کیا ہم نے کبھی فرض سے انکار کیا ہے“ ۔ اس ملی نغمے کے بول ساقی جاوید جبکہ اس کی دھن جون صاحب نے خود تیار کی تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سن 1974 ء میں اقلیتوں کے حوالے سے ایک تقریب میں انہوں نے وزیراعظم بھٹو کے سامنے اپنا یہ مشہور ملی نغمہ گایا تو وزیراعظم بھی بہت متاثر ہوئے اور یہ جان کہ بہت حیرت زدہ اور خوش ہوئے کہ اس کی دھن بھی جون صاحب نے تیار کی ہے۔

سنء 2000 ء کی دہائی میں انہوں نے پی ٹی وی پر ایک پروگرام میں اپنے پرانے گیت گائے، ساتھ ہی ایک گیت سلیم رضاء کا گایا۔ جس کے بول تھے ”اس جہاں میں کاش کوئی دل لگائے نہ“ ۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ ستر کے پیٹے میں ہونے کے باوجود ان کی آواز میں کوئی زیادہ فرق آیا ہو۔ یہ گیت یو ٹیوب پر دیکھا جا سکتا ہے۔ سنء دو ہزار دس کی دہائی کا آغاز ہوتے ہوتے وہ تقریباً موسیقی سے کنارہ کش ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نئی موسیقی سننے کے لیے نہیں بلکہ دیکھنے کے لیے بنائی جاتی ہے اور اسی وجہ سے فلمی شاعری اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہے۔ سنء 2019 ء میں بہت سالوں کے وقفے کے بعد انہوں نے نئے گلوکاروں کے حوالے سے ایک پروگرام ”ابھرتے ستارے“ میں منصف بننے کی پیش کش قبول کرلی۔

لیکن موسیقی کا ورثہ اپنے اگلی نسل کو منتقل کرنا نہ بھولے۔ ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ تین بیٹے گلن جون، روبن جون اور ڈونلڈ جون موسیقی کی طرف آئے۔ گلین جون نے گلوکاری کو اپنایا جبکہ دیگر دونوں میں سے ایک پیانو اور دوسرے بیس گٹارسٹ ہیں۔ طلعت محمود، ہیمنت کمار اور محمد رفیع جون صاحب کے پسندیدہ گلوکار تھے۔ جون صاحب پاکستان میں تو مشہور تھے ہی لیکن باقی دنیا میں بھی ان کے بہت سے پرستار تھے۔ مشہور بھارتی فلم ساز مہیش بھٹ ان کے بہت بڑے پرستار ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ کو ایس بی جون کا گانا ”تو جو نہیں ہے“ بہت پسند تھا۔

انہوں نے جب سنء 2006 میں فلم ”وہ لمحے“ بنائی تو اس میں جون صاحب سے اجازت لے کر یہ گیت شامل کیا جسے جون صاحب کے بیٹے گلین جون کی آواز میں صدا بند کیا گیا۔ اور یہاں اس گانے کی دھن کو پریتم نے تیار کروایا تھا۔ اسی فلم میں جواد احمد کے گانے ”بن تیرے کیا ہے جینا“ کو بھی ہلکی موسیقی میں دوبارہ جواد نے گایا تھا۔

پانچ جون کو کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں طویل بیماری کے بعد ایس بی جون کا انتقال ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments