خدمت میں جدت بن نہ جائے مذمت


وطن عزیز میں دن بدن بلوچستان کی صوبائی حکومت وفاقی حکومت کی جانب سے کئیے جانے والے اقدامات کو کاپی پیسٹ میں لاتی جا رہی ہے اور ٹیکنالوجی سے حکومت اور عوام کے درمیان جو گیپ ہے اس کو ختم کرنے کے لئے طریقے نکالے جا رہے ہیں۔ چند دنوں پہلے وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے شکایت سیل کا افتتاح کیا گیا ہے اور باقاعدہ سیٹیزن پورٹل کی طرح عوام کے لیے ایپلیکیشن ڈیزائن کی گئی ہے جو چیف منسٹر بلوچستان کمپلین پورٹل کے نام سے پلے اسٹور پر موجود ہے جہاں سے باآسانی ڈاؤنلوڈ کی جا سکتی ہے اور عام میسج کی طرح عوام اپنی شکایات درج کروا سکتی ہے۔

اگر یہ روایتی تشہیر کی حد تک نہیں بلکہ عوام کے لیے واقعی سودمند ثابت ہوگی تو ایک بہترین اقدام ہے۔ مگر وزیراعلی بلوچستان کے ضلع سے تعلق رکھتے ہوئے وزیراعلی کی جانب سے شکایات درج کرنے کے حوالے سے جن مخصوص تین کونٹینٹ پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ جس میں کیا ٹیچر آپ کے اسکول میں آتا ہے یا کیا ڈاکٹر آپ کی ہسپتال میں موجود رہتا ہے یا پھر صفائی، لوکل سرٹیفکیٹ کے وصول میں آنے والی مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے میں سمجھتا ہوں یہ وزیراعلی صاحب نے بلوچستان بالخصوص اپنے حلقے میں متعلقہ شعبہ میں ہونے والے معاملات کو باریک بینی سے دیکھا ہوگا خیر اس بارے میں مزید بات کریں گے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان کے متعلقہ پورٹل ممکن ہے پذیرائی کا باعث بنے مگر بات پھر شکایت کے بعد کارروائی کی آتی ہے جو کہ ناپید ہے۔ بلوچستان کے دیگر اضلاع کی صورتحال بھی بہتر نہیں مگر وزیر اعلیٰ کے آبائی حلقے میں سرکاری ملازمین میں اکثریت ایک تو ان کی اپنی پارٹی سے منسلک لوگ ہیں جن میں دیگر محکمات سمیت بالخصوص محکمہ صحت اور تعلیم سے کنیکٹ کافی لوگ ہیں۔ خدانخواستہ ان کی فرائض سے غفلت کی کوئی رپورٹ پورٹل پر دی گئی تو کیا کارروائی ہوگی بس یہی ایک سوال کھائے جا رہا ہے۔ کیونکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے وجود میں آنے سے پہلے یہاں اکثریت میں وہی لوگ ڈیوٹی سے غافل رہتے آئیں ہیں جو سرکاری ملازم کم سیاسی ملازم زیادہ تھے اور ہیں بھی۔

میں نہیں سمجھتا ان افراد کے متعلق جام صاحب کو علم نہیں ہوگا لیکن میں یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ ایسا چاہتے ہیں کہ سرکاری ملازمین اپنے ادارے سے زیادہ ان کے کام آتے ہو۔ یہاں ایک مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ بلوچستان سمیت وزیراعلی کے اپنے حلقے کے سرکاری ملازمین جو مختلف محکمہ میں سرکاری ملازم ہیں۔ جو کسی انتقام کے خوف میں ٹرانسفر کے ڈر سے یا ڈیوٹی سر انجام نہ دینے کی آڑ میں جام گروپ یا پھر بلوچستان عوامی پارٹی سے منسلک ہو کر خود کو جونئیر کلرک، ٹیچر، اسینسٹنٹ، اکاؤنٹنٹ، ڈسپنسنر، ایم ٹی، فارسیٹ گارڈ، اسٹینو گرافر کہلانے کے بجائے رہنما جام گروپ یا پھر ضلعی رہنما بلوچستان عوامی پارٹی کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور محفوظ بھی۔

ویسے تو بلوچستان میں حقیقی صورت میں انتظامی ادارے، محکمہ تعلیم اور صحت کے علاوہ باقی سیول ادارے ملازمین کی حاضری یا ان کی پروگریس کے حوالے سے کم ہی فنکشنل ملیں گے۔ اور یہاں حیرانی کی بات یہ ہے کہ محکمہ سوشل ویلفیئر ہی فنکشنل نہیں جس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ یہ فلاح سے منسوب ادارہ ہوتا ہے مگر کارکردگی صفر سے بھی نیچے ہے۔ باقی جنگلات، اوقاف، سی اینڈ ڈبلیو، مائنز، زراعت اور ایسے کئی اداروں کے ملازمین صرف تنخواہوں کی حد تک محدود ہیں اور تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں خیر جس کی سب سے بڑی وجہ چیک اینڈ بیلنس کا نہ ہونا ہے ایک دو ادارے اپنے ملازمین سے اس قدر ناواقف ہے کہ ملازم اگر اللہ کو پیارا بھی ہو جائے تو بھی اتنا آسانی سے پتا نہیں چلتا۔ پھر جو فنکشنل ہے ان کے ملازمین کو ڈیوٹی سے غافل رہنے کے لیے فائدہ مند جو راستہ ہے اس کا ذکر میں بالا پیراگراف میں کر چکا ہوں۔

اگر واقعی حکومت بلوچستان اداروں کو فنکشنل کرنے کا عزم رکھتی ہے تو میں چاہوں گا وزیراعلی بلوچستان اس معاملے میں شروعات اپنے ضلع سے کریں۔ جبکہ راستہ انہوں نے خود بتایا ہے امید ہے عوام بھرپور تعاون کرے گی دیگر شکایات درج کرنے کے ساتھ ساتھ اس اہم مسئلے کو پورٹل پر رپورٹ کرے گی۔ اور اگر پورٹل کی صورت میں کارروائیاں ہوئیں تو میں سمجھتا ہوں یہ بلوچستان کی تاریخ کا سب سے بڑا حکومتی کریک ڈاؤن ہوگا۔ ورنہ وکلاء اور صحافی لوگوں کو بھی سرکاری نوکریوں سے برخاست ہونے کے کئی فیصلے ہوچکے ہیں جن پر بھی کوئی خاطر خواہ عمل درآمد نہیں ہوا۔

جبکہ اصولی طور پر بھی سرکاری محکمے میں ملازمت حاصل کنندہ سرکاری ملازم کسی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی پارٹی رہنماء کی میڈیا میں تشہیر، سیاسی بیان بازی یا کسی بھی سیاسی قیادت کے حق میں لکھنے یا کسی بھی پارٹی سربراہ کی تصاویر، ویڈیوز وغیرہ کو اپنی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے سیاسی حمایت کے تاثر میں شیئر کرنے کا حق رکھتا ہے۔ جبکہ آج کل سرکاری ملازمین سیاسی بحث و مباحثہ میں بھی حصہ لیتے ہیں اور کسی پارٹی کی حمایت کی صورت میں شمولیت سمیت تمام ایسے اعمال ضابطہ ملازمت کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال یہ روایت ختم ہونی چاہیے جس کا حل بغیر امتیازی سلوک کے برابری کی بنیاد پر کارروائی ہے خواہ وہ ملازم کسی بھی سیاسی گروپ یا سیاسی پارٹی سے منسلکی ظاہر کرتا ہو پھر حکومتی جماعت کا بندہ کیوں نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments