عورت پاکستان سٹیٹ بینک کی گورنر بن گئی مگر بنک کے کاموں کے لیے عورتوں کو مرد گواہ کی ضرورت کیوں؟

تنویر ملک - صحافی، کراچی


بینک
پاکستان ایئر فورس سے ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل شہزاد چوہدری اکثر اوقات الیکٹرانک میڈیا پر بطور دفاعی تجزیہ نگار کے آتے ہیں، نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں بینک سے قرضے کے حصول کے لیے ریٹائرڈ اور 60 سال سے زائد عمر افراد کے لیے مشکلات کا ذکر کیا ہے۔

اس کے ساتھ اُنھوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی جب اُنھوں نے بینک سے قرضہ لینے کے لیے رابطہ کیا اور اپنی بیٹی کا نام بطور ضامن پیش کیا تو بینک نے ان کی بیٹی کو ضامن ماننے سے انکار کر دیا۔

شہزاد چوہدری کی یہ ٹویٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے اور اس پر لاتعداد تبصرے سامنے آ چکے ہیں جن میں بینکوں کی اس مبینہ پالیسی کو نشانہ بنایا گیا تو دوسری جانب اس حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا آج کے دور میں ایسی پالیسیوں کی جگہ ہے؟

شہزاد چوہدری کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟

ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل شہزاد چوہدری کو ان کی عمر کی وجہ سے بینک کی جانب سے قرض دینے سے انکار اور ان کی بیٹی کو بطور ضامن قبول نہ کرنے کے واقعے پر جب ان سے رابطہ کیا گیا تو اُنھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ان کے ساتھ پیش آنے والا یہ واقعہ نیا نہیں ہے بلکہ چند سال پرانا ہے۔

تاہم اُنھوں نے بتایا کہ اُنھوں نے یہ واقعہ حال ہی میں سامنے آنے والی ایک خبر کی وجہ سے شیئر کیا جس کے مطابق ایک بچے کو اس لیے نادرا کی جانب سے کارڈ بنا کر نہیں دیا جا رہا کہ اس کے پاس اس کی والدہ کا شناختی کارڈ تو تھا لیکن والد کا نہیں۔

اُنھوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے اپنے بینک میں کار فنانسنگ کے لیے اپلائی کیا تو ان کی عمر کی وجہ سے کہا گیا کہ آپ کے نام پر قرضہ جاری نہیں ہو سکتا، آپ اپنے بیٹے کے نام پر یہ قرضہ لے لیں۔ میں نے اُنھیں بتایا کہ میرا کوئی بیٹا نہیں کہ جو ضامن بن سکے، لیکن میری بیٹی ملازمت پیشہ ہے وہ ضمانت دے سکتی ہے۔ تاہم بینک نے میری بیٹی کو ضامن قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

شہزاد چوہدری کی ٹویٹ کے نیچے کئی لوگوں نے اس بات کا تذکرہ کیا کہ ایک عام فرد جس کی رسائی اوپر کی سطح تک نہیں اس کو اس حوالے سے کتنی مشکلات ہوتی ہیں۔

ایک خاتون سحر طارق نے لکھا کہ جب اپنی پہلی کار کی خریداری کے لیے اُنھوں نے بینک سے قرض لینے کے لیے درخواست دی تو بینک والوں نے کہا کہ آپ کے والد کو آپ کا ضامن بننا ہوگا۔ جب اُنھوں نے بتایا کہ اُن کے والد بیرون ملک ہیں تو کیا اُن کی والدہ جو مالی طور پر مستحکم ہیں، ضمانت دے سکتی ہیں تو بینک نے جواب دیا کہ نہیں، ضامن والد، بھائی یا شوہر کو ہونا چاہیے۔

https://twitter.com/sehartariq/status/1405597886449012743

ایک اور صارف ثروت یاسمین عظیم نے لکھا کہ اُنھوں نے اپنی سیلری سلپ استعمال کرتے ہوئے اکاؤنٹ کھلوایا اس پر بھی بینک نے اُن سے اُن کے شوہر کی تفصیلات مانگیں۔

اسی طرح ایک اور ٹویٹ میں بتایا گیا کہ ایک بار ان سے ایک بینکر نے حلف نامے پر ایک مرد گواہ کے دستخط کروانے کے لیے کہا گیا تو میں نے جواب دیا کہ گورنر اسٹیٹ بینک ایک خاتون شمشاد اختر ہیں پھر بھی مرد گواہ کی ضرورت ہے تو کہا گیا کہ اوپر سے یہی احکامات ہیں۔

کیا بینک قرض دیتے ہوئے صنفی امتیاز برتتے ہیں؟

اس سلسلے میں بینکنگ کے شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ قواعد و ضوابط میں کوئی ایسی بات درج نھیں ہے۔

ان کے مطابق بینکوں کے قواعد و ضوابط میں کسٹمر، صارف، کلائنٹ وغیرہ کے الفاظ درج ہیں جس سے کوئی صنفی امتیاز واضح نہیں ہوتا اور سٹیٹ بینک نے اس سلسلے میں ایک پالیسی بھی مرتب کی ہے جس کے تحت مالیاتی نظام میں زیادہ سے زیادہ خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔

بینکوں پر صنفی امتیاز کی بنیاد پر قرض فراہم کرنے یا اس کی ضمانت دینے کا الزام ایک ایسے وقت میں سامنا ہے جب سٹیٹ بینک مالیاتی نظام میں خواتین کی زیادہ شرکت کے ایجنڈے پر گامزن ہے اور اس سلسلے میں اس نے ایک پالیسی بھی ترتیب دی ہے کہ جس کے تحت خواتین کی مالیاتی شعبے میں شرکت کو زیادہ کیا جائے چاہے وہ بینکاری کے شعبے میں خواتین کی زیادہ ملازمتیں ہوں یا پھر اس شعبے میں خواتین بطور صارف ہوں۔

مختلف بینکوں میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر کام کرنے والے بینکر منیر کمال نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ قواعد و ضوابط میں کوئی ایسی بات نہیں کہ خواتین کے ساتھ تفریق کی جائے۔

اُنھوں نے کہا کہ بینک قرض دیتے ہوئے صرف ایک چیز دیکھتا ہے کہ جسے قرضہ دیا جا رہا ہے اس کی مالی حیثیت کیا ہے اور کیا وہ اس قرض کو لوٹانے کی استعداد و طاقت رکھتا ہے۔ اگر رکھتا ہے تو وہ یہ دیکھے بغیر قرض جاری کر دے گا کہ قرض لینے والا مرد ہے یا خاتون۔

https://www.youtube.com/watch?v=NIinWrQIeSc

بینکوں پر صنفی امتیاز کا الزام کیوں لگ رہا ہے؟

بینکاری کے شعبے سے منسلک افراد نے اس حوالے سے واضح کیا کہ اگرچہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے قواعد کی روشنی میں صنف کی بنیاد پر قرض دینے یا اس کے لیے ضمانت دینے کی کوئی تفریق نہیں ہے تاہم بینکوں میں ایسی کوئی حوصلہ افزا صورت حال میں نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوانے والی پاکستانی خواتین کی تعداد اتنی کم کیوں؟

پاکستانی نوجوانوں اور خواتین کے لیے بینک سے قرض لینا کتنا مشکل؟

ایچ ایس بی سی بینک کے ذریعے کیسے کروڑوں ڈالر کے فراڈ کی رقم منتقل کی گئی؟

پاکستانی بینکوں کی قرضہ پالیسی: سرکار کے لیے کھلیں تجوریاں، مگر عوام کے لیے شرائط کے انبار

مقامی بینکوں میں کریڈٹ کارڈ اور آٹو فنانسنگ کے شعبوں میں کام کرنے والے افراد نے بتایا کہ اگرچہ قوانین میں تو کوئی ایسی بات نہیں تاہم وہ خواتین کو قرضہ دیتے ہوئے کتراتے ہیں۔

بینک

اُنھوں نے کہا کہ اگرچہ خواتین قرض ادائیگی میں اچھی ہوتی ہیں تاہم ڈیفالٹ کی صورت میں ان سے سختی سے پیش آنا بینک والوں کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے۔ ڈیفالٹ کرنے پر مردوں کے ساتھ تو بینک والے بہت سختی سے پیش آسکتے ہیں تاہم خواتین کے معاملے میں بینک والے ڈرتے ہیں کہ کہیں الٹا کیس گلے نہ پڑ جائے۔

اُنھوں نے بتایا کہ بزرگ افراد کو قرض دینے سے وہ ہچکچاتے ہیں اس لیے اکثر ان سے ضامن مانگا جاتا ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان سے جب اس سلسلے میں ان کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو سٹیٹ بینک کے ترجمان نے جواب دیا کہ وہ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp