بلوچستان بجٹ اجلاس میں بھی ہنگامہ: دھکم پیل، گیٹ پر تالے اور بکتر بند گاڑی کی آمد

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی اسمبلی کے باہر جمعہ کو شدید ہنگامہ آرائی ہوئی اور پولیس کی بکتر بند گاڑی نے ایک گیٹ بھی توڑ دیا جس کو اپوزیشن نے تالہ لگا کر بند کر دیا تھا۔

گیٹ ٹوٹنے کے باعث ایک خاتون سمیت تین اراکین اسمبلی زخمی ہوگئے جبکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے آمد کے موقع پر جوتے اور دیگر اشیاء بھی پھینکے گئے۔

حزب اختلاف کی جماعت جمعیت علماءاسلام بلوچستان کے امیر مولانا عبدالواسع نے حکومت کو اس صورتحال کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جبکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے حزب اختلاف پر تمام تر ذمہ داری عائد کی۔

مزید پڑھیے:

قومی اسمبلی میں ہنگامہ: سات حکومتی اور اپوزیشن اراکین پر اسمبلی حدود میں داخلے پر پابندی

قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان ہاتھا پائی، اسد قیصر کا تحقیقات کا اعلان

بلوچستان

حزب اختلاف کے اراکین نے اسمبلی کے گیٹوں کو تالا کیوں لگایا؟

صوبے میں قائد حزب اختلاف ملک اسکندر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ان کے حلقوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور حکومت ان کے حلقوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنارہی ہے ۔

حزب اختلاف کے اراکین نے پہلے حکومت کو اپنے حلقوں کے مسائل سے آگاہ کرنے کے لیے اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا لیکن اس اجلاس میں دو اراکین کے سوا باقی حکومتی اراکین شریک نہیں ہوئے اور شریک ہونے والے دو اراکین اس وقت آئے جب اجلاس ختم ہو رہا تھا۔

اس اجلاس کے بعد حزب اختلاف کے اراکین نے اپنی بات منوانے کے لیے منگل سے بلوچستان اسمبلی کے باہر احتجاجی کیمپ قائم کرکے اس میں دھرنا شروع کیا ۔اس کے علاوہ ان کی کال پر جمرات کو بلوچستان میں پہیہ جام ہڑتال بھی رہی۔

قائد حزب اختلاف ملک اسکندر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ چونکہ حکومت ان کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھی اور ان کے حلقے نظر انداز ہورہے تھے اس لیے انھوں نے اسمبلی کے گیٹوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔

انھوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ حکومت کو اس وقت تک بجٹ پیش نہیں کرنے دیا جائے گا جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیئے جاتے۔

بلوچستان

حزب اختلاف کے اراکین کے اس اعلان کے باعث ان کے جماعتوں کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کی جمع ہونے کا امکان تھا جس کے باعث انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے اسمبلی جانے والے تمام راستوں کو سیل کرنے کے علاوہ گرد و نواح کے علاقوں کو بھی سیل کیا گیا۔

تاہم اس کے باوجود حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے جماعتوں کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اسمبلی کے باہر احتجاجی کیمپ میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔

پہلے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے بلوچستان اسمبلی کے گیٹوں کو زنجیروں سے باندھ کر ان پر تالا لگا دیا جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔

اس کے بعد وہ اسمبلی کے اندر کی طرف گیٹوں کے سامنے کرسیاں لگا کر بیٹھ گئے تاکہ کوئی باہر سے اندر داخل نہیں ہوسکے۔

آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے کے لیے اسمبلی کے اجلاس کا وقت چار بجے مقرر کیا گیا تھا۔

اجلاس شروع ہونے سے پہلے ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے حزب اختلاف کے اراکین سے مذاکرات کیئے لیکن حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی کے گیٹ کھولنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔

مذاکرات کامیاب نہ ہونے کے بعد پہلے پولیس اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے درمیان دھکم پیل ہوئی جو کہ بعد میں ہنگامہ آرائی میں بدل گئی۔ ایم پی ایز ہاسٹل کی جانب سے گیٹ کو بکتر بند گاڑی سے ٹکر مار کر توڑ دیا گیا۔

پولیس کی جانب سے یہ ایک ایسی کارروائی تھی جس کا منظر پہلے کسی نے نہیں دیکھا۔

بلوچستان اسمبلی

بکتر بند گاڑی کی ٹکر شدید ہونے کے ساتھ گیٹ کی دوسری جانب موجود اراکین اسمبلی سمیت متعدد افراد گر گئے جن میں رکن اسمبلی واحد صدیقی بھی شامل تھے جن کے ہاتھ پر چوٹ آیا۔

واحد صدیقی نے اس موقع پر میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ان کے علاوہ خاتون رکن اسمبلی شکیلہ نوید دہوار اور بابو رحیم زخمی ہوگئے جبکہ اس موقع حزب اختلاف کے رکن نصراللہ زیرے کو مارا گیا۔

شکیلہ نوید دہوار نے کہا کہ ان لوگوں نے اراکین اسمبلی پر بکتر بند چڑھانے کی کوشش کی جس کے باعث ان کے پیر زخمی ہوئے۔

اسمبلی کا گیٹ توڑنے کے بعد سخت سیکورٹی حصار میں وزیر اعلیٰ، بعض وزراء اور حکومتی اراکین کے ہمراہ اسمبلی کے احاطے میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ اور ان کے ساتھ جانے والے افراد کی جانب بوتل اور جوتے پھینکے گئے۔

وزیر اعلیٰ نے اپنے سر کو بچانے کے لیے اس پر ہاتھ رکھ دیا اور ان کی سیکورٹی پر موجود ایک اہلکار نے بھی ان کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔

اس دوران رکن بلوچستان اسمبلی احمد نواز کی یہ کوشش تھی کہ وزیر اعلیٰ کو اسمبلی کے اندر نہیں جانے دیا جائے لیکن انھیں اس موقع پر زور سے دھکا دیا گیا جس کی وجہ سے وہ زمین پر گرگئے جس کے بعد ان کو فوری طور پر پانی پلاکر اٹھایا گیا۔

اس کے بعد اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے کارکنوں نے اسمبلی کے اندر پھولوں کے گملوں کو توڑ دیا۔

اس ہنگامہ آرائی کے باعث دو گھنٹے تک بلوچستان اسمبلی کا اجلاس شروع نہیں ہوسکا۔ تاہم دو گھنٹے بعد بجٹ اجلاس شروع ہوا جس میں وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا۔

بلوچستان اسمبلی

اس تمام صورتحال کے لیے حزب اختلاف کے اراکین نے حکومتی اراکین کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ حکومت نے طاقت کا استعمال کر کے حالات کو کشیدہ کیا۔

اجلاس کے بعد جمعیت العلماءاسلام کے امیر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ ہزاروں پولیس اہلکاروں کو حزب اختلاف کے اراکین پر تشدد کے لیے لایا گیا تھا۔

مولانا واسع نے کہا کہ حزب اختلاف کے اراکین اپنے جائز مطالبے کے لیے احتجاج کررہے تھے لیکن ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ خواتین اراکین کو بھی نہیں بخشا گیا۔

انھوں نے کہا کہ بکتر بند گاڑی کے ذریعے وہ حزب اختلاف کے اراکین کو جان سے مارنا چاہتے تھے جس پر وزیر اعلیٰ جام کمال خان کے خلاف مقدمہ درج کرایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیر اعلیٰ کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا گیا تو سیشن کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔ حزب اختلاف کے اراکین نے اس وقع پر بجٹ اجلاس کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کیا۔

حکومت کا کیا کہنا ہے؟

اسمبلی کے اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے حزب اختلاف کے اراکین کے رویے کو افسوسناک قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آج ہم نے ایک ایسا کام دیکھا جو بلوچستان کی تاریخ میں نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ رویہ سڑکوں پر ہو سکتا ہے لیکن پارلیمنٹ میں نہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اپوزیشن نے یہ رویہ شاید قومی اسمبلی کے اجلاس کو دیکھ کر اختیار کیا۔ ’ہماری خاتون رکن اسمبلی پر حملہ کیا گیا اور گملا پھینکا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے محسوس کیا کہ اپوزیشن ہے اسمبلی میں آکر احتجاج کریں گے لیکن انھوں نے اس کے برعکس اسمبلی کو نقصان پہنچایا۔

انھوں نے حزب اختلاف کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کسی بھی حلقے کو نظر انداز نہیں بلکہ عوام خود تجزیہ کر کے دیکھیں۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حزب اختلاف نے جو کیا اس پر ان کے خلاف سنگین کیس بھی بن سکتے ہیں اور اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں اور یہ دیکھا جارہا ہے کہ اسمبلی کی عمارت کو کس نے نقصان پہنچایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp