مولانا کی ویڈیوز پر ایک مختصر گزارش‎


اٹھتی ہے در یار پہ اب پردے کی دیوار

کس کا سر شوریدہ ہے ٹکرا نے کے قابل

لاہور کے ایک مولانا کی ویڈیوز عام ہوئیں۔ “شور کی ثقافت” میں پہلے سے موجود بپا طوفان کی لہریں مزید بے قابو ہوئیں۔ ہمارے گھر کی رونق اب انھی طوفانوں پر موقوف ہے۔ تقسیم در تقسیم ہوتے معاشرے میں مورچہ زن گروہوں کے ہاتھ طعنہ زنی اور پوائنٹ اسکورنگ کے نئے بہانے لگے ہیں لہٰذا کچھ دن تو میلہ خوب جمے گا۔ اس طالب علم کے ساتھ تو “ہم بھی وہیں موجود تھے.. ہم ہنس دیے۔۔ ہم چپ رہے” والا معاملہ رہتا ہے تاوقتیکہ چند احباب فرمائش سے بڑھ کر حکم کے درجے میں پہنچے ہوئے اصرار کے ساتھ کچھ کہنے پر مجبور نہ کردیں۔

مولانا چند ویڈیوز میں مبینہ طور پر اپنے ایک طالب علم کے ساتھ جنسی عمل میں مصروف نظر آئے۔ ڈھائی سال کے بعد طالب علم نے اس عمل میں اپنی شرکت کو بالجبر قرار دیا اور مولانا پر اپنے عہدے اور منصب کے ناجائز استعمال کا الزام لگایا۔ عہدے اور منصب کا ایسا استعمال نیا نہیں ہے۔ ایسے الزامات اکثر لگتے رہتے ہیں۔ دنیا بھر کی فلم اور فیشن انڈسٹری میں “کاسٹنگ کاوچ” کی اصطلاح ایسے ہی الزامات کو بیان کرتی ہے۔ صرف مغرب ہی کے نہیں ہمارے ایسے ملکوں کے کھلاڑی بھی ایسے الزامات کی زد میں آتے رہتے ہیں۔ہمارے ہاں تو یہ معاملات رفع دفع کر دیے جاتے ہیں مگر مغرب میں ایسی صورتحال میں مردوں کو سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ مگر جو امر ہمیں مغرب سے ممتاز اور الگ کرتا ہے وہ ایسے واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد ان پر شروع ہونے والے مباحثے اور مناقشے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا نے ان معاملات کو دیکھنے، سمجھنے اور ان سے نمٹنے کا ایک خالص قانونی طریقہ اختیار کرلیا ہے۔ اس طریقے کو نظر انداز کرکے ان نظریاتی مباحث کو دیکھئے کہ جو مولانا کی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد وطن عزیز میں چھیڑے جا چکے ہیں۔

پاکستان میں مذہب اور اس کی تعلیمات سامنے رکھ کر ہر معاملے کو دیکھنے اور سمجھنے والے طبقے کے نزدیک ہر وہ جنسی عمل جو شادی کے دائرے سے باہر کیا جائے وہ غلط ہے۔ شادی کی حدود سے باہر جنسی تعلقات کا چلن عام ہونے کا مطلب معاشرے میں گمراہی اور مذہب اور خدا سے دوری ہے۔ ایسے رجحانات کے لازمی طور پر دو نتائج نکلتے ہیں۔ ایک تو معاشرے میں گمراہی، بداخلاقی اور بے راہ روی پھیلتی ہے۔۔ معاشرے کے تار و پود بکھر کر رہ جاتے ہیں اور وسیع پیمانے پر ایک معاشرتی بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ دوسرے ایسے معاشرے خدا کی رحمت سے دور اور اس کے عذاب سے قریب تر ہو جاتے ہیں۔ سیلاب، زلزلے اور دیگر آفات سماوی وارضی خدا کی ناراضی کے اشارے سمجھے جاتے ہیں۔ مختصراً اس گروہ کے مطابق ہر وہ جنسی عمل جو شادی کے علاوہ انجام دیا جائے وہ معاشرتی بگاڑ اور عذاب خداوندی جیسے نتائج پیدا کرتا ہے۔

پاکستان میں سیکولرز اور لبرلز کا بھی ایک گروہ ہے۔ یہ گروہ جنسی سرگرمیوں کو فرد کا ذاتی معاملہ سمجھتا ہے۔ جنسی سرگرمیوں پر پابندی کو گھٹن Suppression کی وجہ گردانتا ہے۔ بچوں اور خواتین کے خلاف ہونے والے جنسی جرائم کو یہ گروہ اسی گھٹن کا شاخسانہ قرار دیتا ہے۔ یہ گروہ ایک ایسے آزاد معاشرے کا داعی ہے جو جنسی گھٹن سے پاک ہو۔ یاد رہے کہ یہ گروہ جنسی آزادی کی نہیں بلکہ گھٹن سے آزاد معاشرے کی وکالت کرتا ہے۔

 ایک اہم بات یہاں یہ یاد رکھنے کی ہے کہ گھٹن اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج کی تفصیلات سائنسی تحقیق کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ سگمنڈ فرائڈ کے نظریات سے ماخوذ خیالات کی بنیاد پر کھڑی کی گئی ایک نظریاتی عمارت ہے۔ نفسیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میں یہ کہنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ فرائیڈ کے جنس اور گھٹن کے بارے میں نظریات کو ہمارے لکھنے والوں کی اکثریت نے غلط سمجھا ہے۔

میں اپنی گزارشات پھر دوہراتا ہوں۔۔۔۔ جنس sexuality اور گھٹن suppression سے متعلق بیان کیے جانے والے خیالات نفسیات میں صرف فرائیڈ کے مکتبہ فکر یعنی تحلیل نفسی نے بیان کیے ہیں۔ نفسیات کے دیگر مکتبہ ہائے فکر نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کی ہے۔۔ اور دوسری گزارش میں نے یہ کی ہے کہ اکثر اوقات اس حوالے سے کی جانے والی نظریہ سازی اور تجزیے بھی فرائڈ کی غلط تفہیم پر مبنی ہیں۔

میرے نزدیک یہ امر حیران کن ہے کہ نفسیات کے صرف ایک مکتبہ فکر کے حوالے سے کہی گئی بات کو اس قدر عقیدت اور قطعیت کیوں دان کردی گئی کہ کوئی اور بات اور نظریہ اس ضمن میں لائق اعتنا اور قابل اعتبار ہی نہ رہا۔ مجھے معلوم ہے کہ ادب میں تنقید کے شعبے میں فرایڈین مکتبہ فکر بھی دیگر مکتبہ ہاے فکر کی طرح ایک نظریہ ہے لیکن یہ کیا معاملہ ہوا کہ معاشرے میں جنسی رجحانات کو سمجھنے کے لئے صرف تحلیل نفسی کے پیش کیے گئے نظریات کا چلن اس قدر عام ہو گیا کہ اس کے علاؤہ ہمیں کچھ اور دکھائی ہی نہیں دیتا۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ گھٹن فرائیڈ کی کس اصطلاح کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ Repression کا یا suppression  کا؟ فرائیڈ نے فرد اور معاشرے کے مابین موجود کشمکش conflict کے نتیجے میں فرد میں پیدا ہونے والے تناؤ tension کے اثرات بیان کیے ہیں (فرائیڈ کا یہ بیان نفسیات کے ابتدائی درجوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں میں موجود ہے) فرد اس تناؤ کے اثرات سے نمٹنے کے لئے کچھ راستے اختیار کرتا ہے جنہیں فرائیڈ نے دفاعی میکانیاتیں defence mechanisms  کہا ہے۔ suppression اور repression انہیں میکانیات میں سے دو ہیں۔ فرد کی خواہشات (جو ضروری نہیں ہیں کہ صرف جنسی ہوں) پر معاشرہ قدغن لگاتا ہے۔ اس پابندی کے نتیجے میں فرد تناؤ کا شکار ہوتا ہے اس تناؤ سے نمٹنے کے لیے وہ اس قضیہ کو ذہن سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ صرف فرائیڈ کا نقطہ نظر ہے۔ معاشرے کے ساتھ کشمکش میں شکست کی صورت میں فرد اس قضیے کو دو طریقوں کے ذریعے ذہن سے نکلتا ہے ایک لاشعوری کوشش کے ذریعے جسے suppression کہا جاتا ہے اور دوسرے ایک شعوری کوشش کرکے اس تکلیف دہ قضیہ کو ذہن سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے فرائیڈ نے repression کہا ہے۔

غلطی وہاں ہوتی ہے کہ جب فرد اور معاشرے کے مابین کشمکش کی نوعیت کو صرف جنس sex کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے.

اب اس سارے معاملے کو دیکھیے۔۔ ہمارے ہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ چونکہ ہمارا معاشرہ جنسی آزادی سلب کرتا ہے اس لیے ہمارے ہاں گھٹن ہے۔ اس گھٹن کی وجہ سے فرد میں معاشرتی جبر کے خلاف ایک رد عمل پیدا ہوتا ہے اس رد عمل کی نوعیت کو بھی جنسی ہی خیال کیا جارہا ہے۔ یہ جنسی رد عمل لاشعوری طور پر اپنے اظہار کے مختلف راستے نکالتا ہے جن میں سے ایک وہ ہے جو مولانا موصوف ان ویڈیوز میں استعمال کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اب آپ ملاحظہ فرمائیے کہ یہ پورا بیان بیک وقت کئی مفروضوں اور مغالطوں پر استوار ہوا ہے۔

اس بیان کی پوری عمارت نفسیات کے صرف ایک مکتبہ فکر کے نظریہ پر کھڑی کی گئی ہے۔

فرائیڈ کے نظریے کو ایک نظریے کی بجائے کسی تحقیق کا نتیجہ خیال کیا گیا ہے۔

فرد اور معاشرے کے مابین کشمکش کو صرف جنس کے حوالے سے ہی دیکھا جا رہا ہے۔

جن جنسی انحرافات (جیسے کہ ہم جنس پرستی) کو گھٹن کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ دنیا اب ان کو ایک نارمل جنسی عمل سمجھنا شروع ہوچکی ہے۔

سب سے اہم مسئلہ جو اس نقطہ نظر کے ساتھ جڑا ہوا ہے وہ اس نظریے کا خالص مردانہ ہونا ہے۔ یہاں جنس، جنسی گھٹن اور اس کے نتائج کو خالص مردانہ حوالوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ فرائیڈ پر ہونے والی فیمنسٹ تنقید آپ کو یقیناَ یاد ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ معاشرے میں موجود جنسی پابندیاں کیا صرف مردوں کے لیے ہیں اور عورتیں آزاد ہیں؟ اگر مرد و زن دونوں یکساں طور پر ان پابندیوں کا شکار ہیں تو اس گھٹن کے عورتوں پر پر مرتب ہونے والے اثرات کیا ہیں؟ وہ کن جنسی انحرافات کا شکار ہوتی ہیں؟ اور ان جنسی انحرافات کے کیا سماجی اثرات ہمارے معاشرے میں دیکھے گئے ہیں؟

جنسی پابندیوں کا مطلب کیا ہے؟ آزادانہ جنسی ملاپ یعنی جس کے ساتھ فرد کا جب جی چاہے جنسی ملاپ تو دنیا کے کسی بھی معاشرے میں ممکن نہیں ہے۔ اگر معاشرہ پابندی نہ بھی لگائے تب بھی اس طرح کا جنسی ملاپ دوسرے فرد کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کیا اس صورت میں بھی فرد گھٹن کا شکار ہوگا؟

اس انتہائی مختصر سے گزارش میں یہ عرض کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جنسی گھٹن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تحریفات کا نظریہ صرف ایک نظریہ ہے۔۔۔۔ علمی دنیا اب اس مقام پر پہنچ رہی ہے کہ جہاں جنسی انحرافات کو باانداز دگر دیکھنا ضروری ہو گیا ہے۔

ایک بالکل جائز سوال میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر گھٹن کا نظریہ درست نہیں ہے تو پھر ہم حال ہی میں منظر عام پر آنے والے واقعات کو کیسے دیکھیں اور سمجھیں۔ اس ضمن میں میری ادنیٰ سے گزارش یہ ہے کہ حال ہی میں منظر عام پر آنے والے واقعات (مولانا کی ویڈیوز) کو مذہب کی عینک لگا کر نہ دیکھا جائے. ان واقعات کو صحیح یا غلط کی مصنوعی اور معاشرتی تعریفات سے ماورا جا کے دیکھا جانا چاہیے۔ جنسی عمل دو افراد کے مابین استوار ہونے والے تعلق کی ایک صورت ہے۔ اس تعلق میں شرکت اور اس کی نوعیت کا فیصلہ یہی دو افراد باہمی طور پر کرتے ہیں۔ جنسی تعلق میں شرکت اور اس کی نوعیت کا فیصلہ ان دو آزاد افراد کے مابین آزادانہ طور پر ہونا چاہیے۔ جو امر اس تعلق کو جرم بناتا ہے وہ کسی بھی فرد کی اس تعلق میں بالجبر شرکت ہے اور اس جبر کی کئی صورتیں، سطحیں، اور شکلیں ہوتی ہیں اور ہو سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments