سی پیک میں گلگت بلتستان کے حصے کا جائزہ


وفاقی حکومت نے مالی سال 22۔ 2021 کے بجٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ تقریباً ساڑھے 8 کھرب روپے کے اس بجٹ کو پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا دعوی تھا کہ یہ ترقیاتی بجٹ ہے۔ مگر مہنگائی میں تین سو گنا اضافہ کرنے والوں نے غریب مزدور کے اجرت میں دو فیصد سے اگے اضافہ نہیں کرسکے۔

بہرحال میرا یہاں مقصد رونا دھونا نہیں بلکہ سرکار وفاقی کے زیر اختیار ایک عالمی منصوبے یعنی پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) کے تناظر میں اس منصوبے میں گلگت بلتستان کے جائز حصے کا جائزہ لینا ہے۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ چین وہ ملک ہے جو اپنے منصوبے خفیہ رکھ کر اگے بڑھاتا ہے چاہیے وہ عالمی ترقیاتی منصوبے ہوں یا دوسرے ممالک کے لئے قرضے ہوں۔ ایسا ہی معاملہ سی پیک میں پاکستان کے ساتھ ہوا ہے۔

اس منصوبے کے تمام دستاویزات خفیہ رکھا گیا۔ اور کسی بھی عام شہری کو اس کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنز کے حوالے سے کوئی خبر نہیں ہے۔ جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس معاملے کو پبلک کرنے کا اعلان کر دیا تو چینی سرکار کافی ناراض نظر آئی۔ اور تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی سالوں میں چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کافی سردمہری نظر آئی۔

بہرحال سی پیک ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔ جس کے تحت پاکستان میں کھربوں روپے کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ اگرچہ ابھی تک کوئی ایسا سورس نہیں ملا جس سے پتا چل سکے کہ اس منصوبے پر اصل میں کتنا رقم خرچ ہو رہا ہے تاہم وزارت منصوبہ بندی کی ویب سائیٹ اور اس سال کے بجٹ کاپی سے اس کا کسی حد تک اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

بجٹ کاپی کے مطابق اب تک اس منصوبے پر 13 ارب ڈالر یعنی دو ہزار اٹھاسی ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ یہ رقم 17 منصوبوں پر خرچ ہو چکا ہے۔ جبکہ 21 جاری منصوبوں پر 21 ارب ڈالر یعنی تین ہزار دو سو ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ جبکہ سٹریٹجک نوعیت کے 26 منصوبے منصوبہ بندی کے مراحل میں ہے جن پر 28 ارب ڈالر یعنی چار ہزار تین سو ارب روپے خرچ ہوں گے۔

سی پیک منصوبہ ہو یا پاکستان کی چین کے ساتھ ہمسائیگی و دوستی ہو ہر دو گلگت بلتستان کی بدولت ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس 9328 ارب روپے کے میگا منصوبے میں ابھی تک گلگت بلتستان کا شیئر دس روپے بھی نہیں ہے۔ لیکن وزارت منصوبہ بندی سے جب میں نے رجوع کیا تو اس کے مطابق گلگت بلتستان میں اس منصوبے کے تحت مقپون داس سپیشل اکنامک زون کا منصوبہ شامل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پر کام کا آغاز ہونا تو دور کی بات ابھی تک زمین بھی الاٹ نہیں کی گئی ہے۔

10 جنوری 2021 کو ایک وفاقی وزیر جو کہ جی بی سے متعلقہ ایک وفاقی وزارت کی سیٹ پر براجمان ہیں نے اپنے دورہ گلگت کے موقع پر کہا تھا کہ اس منصوبے کے لیے زمین حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ کے آئی یو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور پھنڈر 80 میگا واٹ پاور پروجیکٹ اس منصوبے میں شامل ہونے کا دعویٰ ہے تاہم ان منصوبوں پر آنے والے دس بیس سالوں میں کام ہونے کے امکانات بھی واضح نہیں ہے۔

دوسری طرف حال یہ ہے کہ پنجاب سندھ خیبر پختونخوا کے علاقوں میں اربوں ہا روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ جبکہ کوہساروں کے باسیوں یعنی گلگت بلتستان اور چترال کی بات کی جائے تو ریاست نے ہمیشہ ان مخصوص تمدن رکھنے والے معاشروں کو نظر انداز ہی کیا ہے۔ وزارت منصوبہ بندی کے مطابق چترال شندور روڈ سی پیک میں شامل ہے 2017 میں اس منصوبے کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ اس کے لئے 22 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور اس پر جلد کام شروع ہوگا پھر

2018 میں اس منصوبے کی منظوری ایکنک سے بھی ہوئی روڈ پر مقتدر حلقوں کے مطابق ابھی تک ایک کروڈ روپے خرچ بھی ہوئے ہیں۔ ہم اس کو اشک شوئی سے تعبیر کریں گے۔ اسی طرح گلگت شندور روڈ کی ایکنگ سے منظوری ہوئی ہے تاہم جی بی کی موجودہ حکومت کے دعویٰ کے برعکس یہ منصوبہ سی پیک میں شامل نہیں ہے۔

جبکہ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کے لئے 162 ارب روپے کے مخصوص ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا ہے جو کہ اگلے پانچ سال میں خرچ ہونا ہے۔ ایسے پیکجز بلوچستان کو پچھلے کئی دہائیوں سے دیا جاتا رہا ہے جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اوپر سے یہ رقم بہت محدود ہے۔ ایک اہم مسئلہ گندم سبسڈی کے نام پر گلگت بلتستانیوں پر ایک احسان جتانے والا مسلے کا ہے۔ سچ یہ ہے کہ پورے ملک میں ہر سال ایک ہزار ارب روپے سے اوپر کی سبسڈی دی جاتی ہے۔

جی بی کی گندم سبسڈی تو اس کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔ دوسری طرف این ایف سی ایوارڈ میں گلگت بلتستان کو شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ اور تو اور دریائے سندھ کی رائلٹی سے لے کر ان ڈائریکٹ ٹیکسز Indirect taxes کی مد میں جو اربوں روپے جی بی سے وفاق کے اکاؤنٹ میں جاتے ہیں ان کا نام بھی نہیں لیا جاتا۔ وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ تقریباً ساڑھے تین ہزار ارب روپے ہیں۔ اس میں جی بی کا حصہ ایک دو فیصد تو ہے۔ جبکہ وفاق جی بی کو اس سلسلے میں مناسب رقم ٹرانسفر کرنے کے بجائے پیکجز میں الجھا رہی ہے۔ جو کہ مناسب نہیں ہے۔

ایسی صورتحال میں وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ ان علاقوں کے لیے موجودہ زمانے میں ان کی بین الاقوامی واضح اہمیت اور وہاں موجود پسماندگی اور غربت و بے روزگاری کے پیش نظر کم از کم پانچ سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کرے بھلے ہی اس میں سی پیک کے منصوبے بھی شامل ہو اور ہر سال سو ارب روپے ہنگامی بنیادوں پر خرچ کرے۔ چترال سے شندور شندور سے گلگت اور گلگت سے سکردو موٹروے کی تعمیر کرے۔ ہر ضلعے میں ہائیڈرو پاور پلانٹ لگائے جو اس ضلعے کے باسیوں کو روشنی کے علاوہ گھریلو ضروریات یعنی فیول کے طور پر استعمال کرنے کے لئے کافی ہو۔

یہ اسی لیے بھی کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ پانچ ملکوں میں شامل ہے۔ اور موجودہ حکومت اس مسلے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ ان پہاڑی علاقوں میں جلانے کی لکڑی جنگل سے حاصل کیا جاتا ہے جس سے جنگلات کو بے تحاشا نقصان پہنچا ہے۔ گھریلو ضروریات کو بجلی پر منتقل کرنے کے بعد جنگلات کو بچایا جاسکتا ہے۔ وہاں ہر گھر کو بجلی مہیا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ان علاقوں کی آبادی کم ہے اور سب سے سستی پن بجلی ان علاقوں میں پیدا کی جا سکتی ہے۔

بے روزگاری ختم کرنے کے لئے چین کے تعاون سے بلتستان گلگت اور چترال ہر تین ڈویژنز میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے تین ادارے قائم کرے تاکہ نوجوان فنی تعلیم و تربیت حاصل کر کے ملک سے باہر روزگار حاصل کرنے کے قابل ہو سکے۔ اگرچہ موجود صوبائی حکومت گلگت میں میڈیکل کالج بنانے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن اس کو ترجیحی بنیادوں پر نیک نیتی سے مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیکل کالج کی طرح انجینئرنگ کالج کی بھی ضرورت ہے۔ اس پر بھی کام ہونا چاہیے۔

اسی طرح تمام سرکاری اسکولوں کو اپ گریڈ کر کے ماڈل سکول کا درجہ دینے اور یونین کونسل کی سطح پر انٹر کالجز کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔ تمام تحصیلوں کی سطح پر ہسپتال کی عمارتیں تو ہیں لیکن اندر ڈاکٹر ہے نہ دوائی۔ حکومت کو ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی تعیناتی یقینی بنانے کے لئے کوئی حکمت عملی اپنانا ہوگی ورنہ تنخواہیں کہیں سے لے کر ڈیوٹی کہیں اور کرنے کا سلسلہ نہیں رکے گا۔ نیٹکو NATCO کو جدید تقاضوں کے مطابق اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ نیٹکو کی گاڑیاں پرانی ہو چکی آئے روز حادثات رونما ہو رہے ہیں۔ اس مسلے کے علاوہ سیاحت کو سامنے رکھتے ہوئے نیٹکو کو جدید بسوں سے لیس کرنے کی ضرورت ہے۔

گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت وفاق سے سی پیک میں اپنے جائز حصے کا دو ٹوک مطالبہ کرے اور این ایف سی ایوارڈ میں مناسب حصے کا مطالبہ کرے۔ دریائے سندھ کی رائلٹی وفاق اور خیبرپختونخوا حکومت اپس میں بانٹتی ہیں جبکہ اس پر حق گلگت بلتستان کا ہے۔ وفاق گندم سبسڈی اور پیکجز کے احسانات دینے کے بجائے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں اور رائیلٹیز کا رقم گلگت بلتستان کو مہیا کرے۔ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو جی بی میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دے اور ٹیکس نیٹ کو بڑھائے۔ اس طرح مقامی حکومت باعزت طریقے سے اپنا بجٹ بنانے کے قابل ہو سکتی ہے۔ بصورت دیگر پیکجز اور سبسڈیز سے نہ ترقی ممکن ہے اور ہی غربت و پسماندگی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments