چھاؤں سے دھوپ تک کا سفر


پاکستان میں ان دنوں ایک ڈرامے کے پرومو کا کافی چرچا ہے جس کے اسکرپٹ پر قیاس آرائیاں جاری ہیں دیگر پاکستانیوں کی طرح ہمیں بھی بذریعہ سوشل میڈیا ہی اس کے متنازعہ اسکرپٹ کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں۔ اس ڈرامے کی رائٹر رومانوی ناول نگار کی حیثیت سے شہرت رکھتی ہیں۔ پھر ایک پرائیویٹ چینل نے ان کے ناول کو ڈرامائی تشکیل دی اور یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے قبل بھی کئی شہرہ آفاق ناولوں کو ڈرامائی تشکیل دی جاتی رہی ہے۔

جو ناول رومانی ڈائجسٹ میں خواتین پڑھ چکی ہوں اور کہانی کے کرداروں سے واقف ہوں وہ کہانیاں قسط وار دلچسپی سے پڑھیں بھی جاتی ہوں ان پر ڈرامے بنائے جائیں تو خواتین انہیں پسند بھی کرتی ہیں اور آپس میں ملاقات میں ڈسکس بھی کرتی ہیں۔ لہذا ایک ڈرامہ مشہور ہوا اور اس بناء پر مذکورہ مصنفہ عمیرہ احمد کے ناولوں پر ڈرامے بننے لگے پھر انہوں نے ڈرامہ نگاری بھی شروع کر دی اور یوں وہ ڈرامہ نگار کی فہرست میں شامل ہو گئیں ہر مصنف کو حق ہے کہ وہ ادب کی ہر صنف ہر کام کرے

لیکن ضروری امر یہ ہے کہ جب آپ کو عوام میں قبولیت کا درجہ مل جائے تو آپ کو اس بات کا مکمل خیال رکھنا پڑتا ہے کہ آپ کے لکھے ہوئے کے دور رس اثرات بھی ہو سکتے ہیں آپ کو ذمہ داری ہے کہ آپ اپنے الفاظ کس کو اور کس مقصد کے لیے بیچ رہی ہیں رومانوی تصوراتی داستانیں لکھنے اور کسی مخصوص مقصد کے لیے لکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ خصوصاً اس صورت میں جب آپ کو ملکی سطح پر عزت دی گئی ہو اور آپ کے اوپر کسی کو ملکی مفاد کے برعکس کام کرنے کا شائبہ تک نہ ہو یہ جاننا بھی ڈرامہ نگار کی ذمہ داری ہے کہ اس کے لکھے ہوئے اسکرپٹ کو ریاست مخالف تھیوری بنا کر تو پیش نہیں کیا جا رہا ۔ رومان لکھنے اور تاریخ لکھنے میں بہت فرق ہے محبت کی کہانیاں فرضی کرداروں پر مشتمل ہوتی ہیں جبکہ تاریخی کردار دنیا میں موجود رہے ہوتے ہیں۔

نظریہ، سرحدی حد بندیاں، مذہب، عقائد، خارجہ امور یہ حساس ترین موضوعات ہیں جن پر لکھنا بہت احتیاط کا حامل ہے۔

اسی طرح مذکورہ ڈرامے کے اداکار یہ جانتے ہیں کہ وہ جس کردار کو ادا کرنے کا رہے ہیں وہ ان کے ناظرین کے لیے کس حد تک قابل قبول ہوگا اور اس سے قبل وہ کون سے کردار ادا کر چکے ہیں احد رضا میر کو پاکستانی قوم عہد وفا میں ایک جانثار پاکستانی فوجی کے روپ میں قبول کر چکے ہیں اور ان کی وجہ شہرت بھی ایک محب وطن پاکستانی سولجر کا کردار ہے۔ اس صورت حال میں کوئی بھی متنازعہ کردار قبول کرنے سے پہلے اور بعد میں دوران عکس بندی آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ دیکھیں کہیں غیر شعوری طور پر آپ کسی کے ہاتھوں استعمال تو نہیں ہو رہے آپ پبلک فگر بن جاتے ہیں تو آپ کو اپنی حد بندیاں مقرر کرنی پڑتی ہیں۔

آج چند ملک دشمن عناصر اس اسکرپٹ کو لے کر افواج پاکستان اور ریاست پاکستان ہر تنقید کر رہے ہیں جب کہ مذکورہ مصنفہ کا تردیدی بیان سوشل پر شائع کیا گیا ہے جس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ کسی ادارے اور کسی فرد کا اس عمل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اگر انہیں کچھ خصوصی مراعات ان کے نام اور شہرت کو لے کر دی گئیں اس یقین کے ساتھ کہ بحیثیت پاکستانی اور سویلین وہ اپنے ملکی ادارے سے کسی امن کے کاز کے لیے بنائے جانے والے کسی پراجیکٹ پر کچھ عکس بندی کی سہولت کی خواہاں ہیں دی گئیں۔ تو وہ اس یقین اور اعتماد کی بحالی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھیں گی۔ اب چند مخالف عناصر اس نان ایشو کو استعمال کر کے اپنے مخصوص سازشی پروپیگنڈا پر کام کر رہے ہیں تو اس کے لیے ہم اپنی افواج یا اپنے ادارے پر سوال کیسے اٹھا سکتے ہیں؟

ہندوستان کا رویہ کتنا جارح اور پاکستان دشمن ہے یہ حقیقت کس سے روپوش ہے؟

ڈرامہ کیوں لکھا گیا اس کے مقاصد کیا تھے یہ سب سوال پس پشت چلے گئے اور صرف ایک مخصوص طبقے کی طرف سے پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا۔ عوام ہر معاملے کی ماہیت، اغراض و مقاصد، فنی باریکیوں، تکنیکی چیزوں سے واقف نہیں ہوتے وہ صرف ناظر ہیں اور وہ وہی دیکھنا چاہتے ہیں جو ان کا دل چاہے۔

بھارت میں سنجے لیلا بھنسالی نے رانی پدماوتی کے سلطان خلجی کے پاس جانے کے منظر عکس بند کیے جو تاریخی سچ ہے کہ وہ گئی تھی مگر ہندوؤں نے اس منظر ہر سارے بھارت میں احتجاج کیے اور اس حد تک چلے گئے کہ بھنسالی کو تاریخ ہی مسخ کرنی پڑ گئی اس نے پدماوتی کو خود سوزی کرتے ہوئے عکس بند کیا اور یہ ظاہر کیا کہ ہندو رانی کو مسلمان حکمران خلجی دیکھ نہیں سکا۔ اور ہندوؤں کو راضی کر لیا۔

تو اس دہکتے ہوئے تعلقات پر بنے کسی بھی ڈرامے، فلم اور امن کی آشا جیسے سیمینارز پر عوامی ردعمل آئے تو چھاؤں سے دھوپ تک آنے کا سفر کیسے طے ہو جاتا ہے اس کا پتہ نہیں چلتا لہذا احتیاط علاج سے بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments