گلگت کے آخری بدھ مت حکمران شری بدت کی کہانی


ڈاکٹر لیٹنر پہلا یورپی شخص تھا جس نے شری بدت کی کہانی ریکارڈ کیا تھا مگر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے شری بدت کے افسانہ کو حقیقت اور افسانے کا ایک مرکب سمجھا ہے، جس کا ثبوت ان کے عنوان اور ”تاریخی“ اور ”خالصتاً ادبی“ نقطہ نظر دونوں کے حوالہ سے ہے۔ پھر بھی یہ ایک تاریخی نقط نظر ہے جس نے لیٹنر کے بعد آنے والوں کی توجہ مبذول کرائی۔

گلگت کے آخری بدھ مت حکمران شری بدت کا دور حکومت 749 صدی عیسوی کا ہے اور ان سے منسوب آدم خوری کی قدیم کہانی کو ایک نئے انداز میں دیکھنا لازمی ہے چونکہ یہ صرف اساطیر سے بھری ہوئی ایک کہانی نہیں بلکہ درحقیقت یہ قدیم کہانیاں وہ نالیاں ہیں جن سے اس زمانے کا مجموعی شعور ہم تک آتا ہے جس میں وہ حقائق پنہاں ہو سکتے ہیں جن سے سینکڑوں سال قبل ہمارے آبا و اجداد دوچار ہوئے تھے۔

مقامی روایت کے تحت بیان کی گئی اس کہانی کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے شری بدت اور آذر جمشید دونوں کو دیو مالائی مخلوق کے طور پر پیش کیا گیا ہے آذر جمشید کو پری زاد جبکہ شری بدت کو بدروح اور آدم خور کہا گیا ہے جو حقیقت سے زیادہ افسانہ لگتا ہے۔

لیکن اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے چونکہ دنیا کی ہر تہذیب میں اساطیری یا دیومالائی قصے کہانیاں ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہیں جن میں انوکھی مخلوقات، پریاں اور دیوی دیوتا ہوتے ہیں۔

دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ تاریخ میں انسانی گوشت خوری کا رواج رہا ہے جس کی تصدیق کرتے ہوئے مشہور فلسفی برٹرینڈرسل اپنی نوبل انعام یافتہ کتاب ”فلسفہ مغرب کی تاریخ“ کے صفحہ نمبر 47 میں لکھتے ہیں کہ ”تمام دنیا میں مذہبی ارتقاء کے خاص مرحلے پر مقدس حیوانوں اور انسانوں کی قربانیاں دی جاتی اور انہیں کھایا جاتا تھا۔ یہ مرحلہ مختلف جگہوں پر مختلف زبانوں میں رائج رہا۔ انسانوں کو کھانے کی نسبت انسانی قربانی زیادہ عرصہ تک قائم رہی، یونان میں تاریخی زمانوں کی ابتدا تک یہ رسم ختم نہیں ہوئی تھی۔ ان ظالمانہ پہلووں کے بغیر زرخیزی کی رسومات تمام یونان میں عام تھیں۔ دیوتا کو پوری طرح انسان ماننا جاتا تھا البتہ وہ انسانوں سے اتنے مختلف ہیں کہ وہ غیر فانی اور فوق البشری قوتوں کے مالک ہیں“ ۔

گلگت بلتستان کی قدیم روایات میں شری بدت کو بھی ایک مافوق فطرت قوت کا مالک بتایا گیا ہے

کہ اس کی موت کا راز معلوم کیے بنا اس کو جان سے نہیں مارا جاسکتا ہے چونکہ وہ جادوئی طاقت کا حامل شخص تھا چنانچہ اس سے آدم خور اور بدی کا پیکر بنا کر پیش کیا گیا جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ شری بدت کے قاتل آذر جمشید کو مسیحا بنا کر پیش کیا گیا اور آج بھی ہمالیہ ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑوں کے دامن میں آباد کچھ افراد خود کو اس کی نسل سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر یونیورسٹی آف نارتھ ٹیکساس کی پروفیسر صدف منشی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہنزہ کے راجہ جمشید علی خان نے خود کو شری بدت کی بیٹی کے نسل سے ہونے کا ذکر کیا ہے۔

روایت مشہور ہے کہ گلگت کا آخری بدھ مت حکمران شری بدت مافوق الفطری قوت کا حامل شخص تھا اور اس کی لافانی زندگی کا راز کسی کو بھی معلوم نہیں تھا اور اس کی لافانی زندگی کا راز معلوم کیے بنا اس سے جان سے مارنا ناممکن تھا۔

چنانچہ فارس سے آئے ہوئے ایک پری زاد شہزادہ جس کا نام آذر جمشید تھا اس نے منصوبہ بندی کے تحت شری بدت کی بیٹی کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر یہ راز حاصل کیا تھا اور شری بدت کے وزیر نے اس سازش میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

شری بدت کی بیٹی نے اپنے آشنا آذر جمشید کو یہ راز بتایا دیا کہ اس کا باپ صرف آگ سے ہی

مر سکتا ہے چنانچہ آزر جمشید نے مقامی لوگوں کو شری بدت کے خلاف اکسایا اور منصوبہ بندی کے تحت اس کے محل کے چاروں اطراف آگ لگا دی تاکہ وہ جل کر راکھ ہو جائے۔

روایتی تاریخ کے مطابق اس ناکام سازش کے بعد

شری بدت نے اپنی بیٹی Miyokhay کو لوہے کے ایک قلعے میں بند کر دیا تھا جو اس نے ان پتھروں پر بنایا تھا جو آج بھی دریائے گلگت کے وسط میں نظر آتے ہیں، کیوں کہ اس کی بیٹی نے اپنے آشنا آذر جمشید کے ساتھ مل ملاپ کر کے اس کی حکومت گرانے کی سازش کی تھی۔

دریا گلگت پل روڈ کے قریب واقع ایگورتھم بولڈر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہاں شری بدت نے ایک لوہے کا قلعہ بنوایا تھا اور ایگورتھم کو عام طور پر شری بدت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

گلگت پل روڈ کے قریب دریائے گلگت کے وسط میں واقع یہ مشہور بولڈر آج بھی مقامی طور پر ایگورتھم گیری (پتھر) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

برٹش راج کے دوران گلگت ایجنسی میں تعینات پولیٹیکل ایجنٹ میجر جان بڈولف اپنی کتاب Tribes Of The Hindoo Kush کے صفحہ نمبر 134 میں ڈاکٹر Leitner کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”انہوں نے گلگت کے تاریخی لیجنڈ نامی کہانی میں شری بدت کے بارے میں لکھا ہے کہ“ مقامی طور پر شری بدت کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں جو زیادہ تر کہانیوں پر مشتمل ہیں لیکن سبھی تاریخی خاکوں میں تقریباً یکسانیت پائی جاتی ہے مگر یہ الگ بات ہے کہ ان کہانیوں میں اپنی طرف سے مافوق الفطرت باتیں شامل کی گئی ہیں لیکن شری بدت کی ذات کے ساتھ منسوب ان مافوق الفطرت کہانیوں کے برعکس اس میں کوئی شک نہیں کہ شری بدت حقیقت میں ایک انسان تھا ”۔

ڈاکٹر جی ڈبلیو لیٹنر، 1866 میں پہلا یورپی تھا جس نے شری بدت کی کہانی ریکارڈ کی تھی جس سے انہوں نے 1877 میں ”تاریخی افسانوی تاریخ برائے گلگت“ کے نام سے شائع کیا اور انہوں نے شری بدت کی کہانی کو حقیقت اور افسانے کا امتزاج قرار دیا ہے۔

ڈاکٹر لیٹنر اپنی کتاب دردستان کے صفحہ نمبر 9 تا 16 میں شری بدت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مقامی روایات کے مطابق شری بدت بری روحوں کی اولاد تھا۔

انہوں نے اپنی کتاب دردستان میں اس قاتل شہزادہ کا نام آذر جمشید کے بجائے آذر شمشیر لکھا ہے جس نے شری بدت کی بیٹی کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر اس کے ذریعۂ شری بدت کی لافانی زندگی کا راز معلوم کیا کہ اس کی ”روح برف کی ہے“ اور اس کی زندگی صرف آگ سے ہی ختم ہو سکتی ہے۔

شری بدت کے متعلق ایک اور روایت مشہور ہے کہ شری بدت گلگت میں ایک محل میں مقیم تھا، اس کے ذوق موزوں تھے وہ پولو کھیل کا دلدادہ تھا۔

اور اس کے محل کے سامنے ایک پولو گراؤنڈ تھا مگر اس کے ہر عمل سے اس کی منحرف شخصیت کا پتہ لگایا جاسکتا تھا۔ تاہم اس کا ملک زرخیز تھا اور دارالحکومت کے چاروں اطراف دلکش اور پرکشش باغات تھے۔ مگر وہ بادشاہ آدم خور تھا اور اس آدم خوری کی ابتدا ایک حادثہ کی وجہ سے ہوئی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ اسے اپنی رعایا سے روزانہ خراج میں ایک بھیڑ لینے کی عادت تھی۔ ایک دن، جب وہ کھانا کھا رہا تھا، اسے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ گوشت پہلے سے زیادہ سوادج تھا۔ اس نے اپنے کولن (باورچی خانے کے دروغہ) کو حکم دیا کہ بھیڑیں کہاں سے لائی گئیں۔ چھان بین کے بعد اس کے دروغہ نے بتایا کہ اسے یہ بھیڑ گلگت میں برمس گاؤں کی ایک عورت سے ملی ہے۔ بادشاہ نے اس عورت کو شاہی دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا۔ وہ عورت جو اچانک اس بلاوے کی وجہ نہیں جانتی تھی بادشاہ کے سامنے لائے جانے سے وہ بہت خوفزدہ تھی چونکہ اس نے پہلے کبھی بادشاہ کو نہیں دیکھا تھا۔

جب وہ عورت دربار پہنچی تو وہ شری بدت کے سوالات سن کر پرسکون ہو گئی اور خوشی سے جواب دیا: ”اے گلگت کے عظیم بادشاہ، تجھ پر سلامتی رہے!

میرا بچہ اور یہ بھیڑ ایک ہی دن پیدا ہوئے تھے لیکن میرا بچہ پیدائش کے کچھ دن بعد ہی وفات پا گیا تھا او اس بھیڑ کی ماں بھی اس کے پیدائش کے کچھ ہی دن بعد فوت ہو گئی تھی۔ پیدائشی طور پر بھیڑ کے بہت خوبصورت ہونے کی وجہ سے میں نے ان کی بہت تعریف کی تھی اور بھیڑ کے ساتھ ساتھ میں نے اپنے بیٹے ایوے کو بھی کھویا تھا چنانچہ اپنا غم مٹانے کے لئے میں نے اس بھیڑ کے بچے کو اپنا ہی دودھ پلایا تھا جب تک کہ وہ چر نہ سکے، کچھ دن پہلے اسی بھیڑ کے بچے کو آپ کی عظمت کے سامنے پیش کیا گیا۔ ”

یہ کہانی سن کر شری بدت بہت خوش ہوئے، اور اس خاتون کو بڑا انعام سے نوازا اور اسے واپس جانے دیا۔

تنہا بیٹھے ہوئے اس بادشاہ نے گوشت کی چکھنے کی وجہ پر سوچنا شروع کیا اور اس نے استدلال کیا کہ جب ایک بھیڑ کا گوشت جس نے تھوڑی دیر کے لئے صرف انسانی چھاتی کو چوس لیا ہو، اس کا ذائقہ اتنا عمدہ ہوتا ہے تو انسان کا گوشت جو ہمیشہ ہی انسانی دودھ سے پرورش پاتا ہے یہ جانور کے گوشت سے بہتر ہوگا۔ اس نتیجے پر پہنچ کر انہوں نے یہ احکامات دیے کہ بھیڑوں کے بجائے مستقبل میں انسانی بچوں کا ٹیکس عائد کیا جائے، اور ان کے گوشت کو ہمیشہ اس کے رات کے کھانے میں پیش کیا جائے۔ اس طرح وہ انسانی گوشت کھانے لگا ”۔

جب یہ ظالمانہ حکم صادر کیا گیا تو اس سے ملک کے لوگ اس طرح کی حالت پر مایوس ہو گئے، اور قربانی دے کر اس میں بہتری لانے کی کوشش کی، کہا جاتا ہے کہ بادشاہ کی حکم کی تعمیل میں پہل پہلے تو یتیموں اور پڑوسی قبائل کے بچے اس کے خوراک بن گئے! مگر آہستہ آہستہ سب کی باری آنے لگی اور جلد ہی اس کی ظلمت گلگت کے بہت سے خاندانوں نے محسوس کی، جو اپنے بچوں کو ذبح کرنے کے لئے ترک کرنے پر مجبور ہوئے تھے اور عوام اس کے ظلم سے سخت ناخوش تھے۔

مقامی لوگ اس بادشاہ کے خلاف کچھ بھی اثر نہیں ڈال سکتے تھے چونکہ اس کو جادوئی امداد حاصل تھی۔

آخر کار ایک دن ان کے لیے پہاڑ کی چوٹی سے امداد آئی جس پر چڑھنے میں ایک دن لگتا ہے، اور یہ امداد دریا کے کنارے گلگت کے نیچے، دیور (دنیور) نامی گاؤں کے اوپر پہاڑ پر نمودار ہوئی، جس میں تین شخصیات نظر آئیں۔ وہ مردوں کی طرح نظر آتے تھے، لیکن زیادہ مضبوط اور خوبصورت تھے۔ انہوں نے اپنے بازوؤں میں دخش اور تیر اٹھائے ہوئے تھے کہا جاتا ہے کہ وہ تینوں پری زاد تھے۔

مقامی روایات کے مطابق آذر جمشید نے شری بدت کی بیٹی کو بتایا کہ وہ ایک پری ذات ہے اور یہ سن کر وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو گئی اور اپنے باپ کی لافانی زندگی کا راز آذر جمشید کو بتایا۔

یہ راز معلوم کرنے کے بعد اس نے مقامی آبادی کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کیا اور شری بدت کے محل پر آگ لگایا جس سے شری بدت کا خاتمہ ہوا اور قاتل شہزادہ نے شری بدت کی بیٹی سے شادی کر کے خود گلگت کا حکمران بن گیا۔

جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments