بال ٹھاکرے: نوجوان کارٹونسٹ جو انڈیا کے سب سے بڑے شہر کے سیاہ و سفید کا مالک بنا

نیاز فاروقی - بی بی سی، دہلی


بال ٹھاکرے

17 نومبر 2012 کو انڈیا میں شائع ہونے والے بیشتر اخباروں کی شہ سرخیاں کچھ اس طرح سے تھیں: ’ایک دور کا خاتمہ‘، ‘ممبئی بال ٹھاکرے کی موت پر سوگ منانے کے لیے بند‘، ’شیو سینا کے رہنما کی پارٹی کارکنوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل‘، ’ممبئی پولیس نے شہریوں کو غیرضروری سفر نہ کرنے کا مشورہ دے دیا‘، ’20 لاکھ سے زائد افراد کی جنازے میں شرکت متوقع‘، وغیرہ وغیرہ۔

یہ خبریں ممبئی شہر پر ایک ایسے شخص کی گرفت نمایاں کر رہی تھیں جس نے وہاں تقریباً چار دہائیوں تک استعاراتی طور پر حکمرانی کی تھی اور اخبارات میں اس کی موت پر شائع ہونے والی خبریں اسی حقیقت کی عکاسی کی رہی تھیں۔

ٹائیگر کے نام سے معروف اور ممبئی شہر کا چہرہ سمجھے جانے والے بال ٹھاکرے اگرچہ وفات پا چکے تھے مگر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اپنی زندگی کی طرح انھوں نے اپنی موت کے دن بھی شہر کو اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا۔

اپنی پوری زندگی وہ مراٹھی وطن پرستی، ہندوتوا اور قوم پرستی کے پُرزور حامی رہے۔ مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے اور ہٹلر کی حمایت ببانگ دہل کرتے تھے۔

ان کی موت پر ان کے حامی رو رہے تھے لیکن اُن کی طرزِ سیاست کے متاثرین کی فہرست اس سے کہیں زیادہ لمبی تھی جن میں جنوبی انڈیا میں بسنے والے، گجراتی، کمیونسٹ، مسلمان، بہاری، یوپی والے، فنکار اور سب سے بڑھ کر انڈیا، پاکستان کرکٹ۔

اس اجتماعی آواز کو ایک منظم شکل کیوں نہیں دیتے

بال

سنہ 1960 کی دہائی میں بھی ممبئی شہر آج کی طرح ہی متنوع تھا۔ پورے ملک سے لوگ یہاں روزگار کی تلاش میں آتے تھے، یہاں متنوع سیاسی نظریات کی پرورش کے لیے موافق ماحول دستیاب تھا اور یہ شہر ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔

حالانکہ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح یہاں بھی نوکریوں کی قلت تھی مگر 1960 کی دہائی میں بھی یہ شہر ہزاروں کی تعداد میں ملازمتیں پیدا کرنے میں کامیاب رہا تھا۔

لیکن بیشتر نوکریاں وہ لوگ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے جو مراٹھی کے بجائے دوسری زبانیں بولتے اور مہاراشٹر کے بجائے دوسری ریاستوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بیرونی ریاستوں سے آنے والے اکثر افراد مقامی مراٹھی لوگوں سے بہتر تعلیم یافتہ تھے۔

مراٹھیوں کے لیے یہ تشویشناک بات تھی کہ باہر سے آنے والوں کو تو نوکریاں مل رہی ہیں مگر وہ محروم ہیں۔ بالا صاحب ٹھاکرے نامی ایک نوجوان کارٹونسٹ میں بھی یہی احساسِ محروی تھا اور اُس کی جھلک اُن کے کارٹونوں میں نمایاں تھی۔

’دی کزنس ٹھاکرے‘ کے مصنف دھول کلکرنی لکھتے ہیں کہ ان کے کارٹونوں کی بنا پر نوجوان اُن کے گھر پر شہر میں ہونے والے امتیازی سلوک کی شکایت لے کر آیا کرتے تھے۔ ٹھاکرے کو معلوم تھا کہ صرف کارٹون بنانا ہی کافی نہیں ہے۔ آخرکار اُنھوں نے مراٹھیوں کے لیے نوکری کی ایک مہم شروع کی اور جلد ہی ان کے گھر کے باہر نوجوانوں کی قطار لگ گئی۔

ٹھاکرے اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ اسی دوران ان کے والد جو کہ خود مراٹھی مقاصد کے حامی تھے، انھوں نے ان سے پوچھا کہ ’آپ کب تک یہ جاری رکھیں گے؟ اس اجتماعی آواز کو ایک منظم شکل کیوں نہیں دیتے؟‘

ٹائمز آف انڈیا کے سینیئر ایڈیٹر ویبھو پورندارے کے مطابق ٹھاکرے پہلے ہی ایک تنظیم قائم کرنے کے خیال پر سنجیدگی سے غور کر رہے تھے۔ ان کے والد نے ان کے منصوبے کو مزید پختہ کر دیا۔

تب تک اُنھوں نے تنظیم کا نام تک نہیں سوچا تھا۔ ان کے والد جو کہ ہندتوا کی حامی اور پیغمبرِ اسلام کے دور اندیش نقطہ نظر کے مداح تھے، نے مشورہ دیا کہ اس کا نام ہونا چاہیے ’شیو سینا‘ یعنی شیو کی فوج۔ اس طرح یہ اجتماعی آواز پارٹی کی حیثیت سے ایک منظم شکل میں تبدیل ہو گئی جو کسی قیمت پر بھی اپنے مقصد کو حاصل کرنے سے باز نہیں آتی تھی۔

منصوبہ جلد ہی حقیقت میں بدل گیا

بال

کلکرنی کے مطابق جون 1966 کو جب پارٹی کے افتتاح کے لیے ناریل توڑنے کی تقریب کا اہتمام کیا تو وہاں صرف 18 افراد تھے۔ ٹھاکرے لکھتے ہیں کہ ’ہم نے کسی پنڈت سے مشورہ نہیں کیا اور نہ ہی ہم نے کوئی موہرت نکالا کے ستاروں کی چال کیسی ہے۔‘

افتتاح کے ایک مہینے کے بعد پارٹی نے اپنے ’رہنما اصولوں‘ کا اعلان کیا جس میں غیر مراٹھی لوگوں کے خلاف اقدامات اٹھانے پر اُکسایا گیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ مراٹھی لوگ اپنی جائیداد باہر سے آنے والوں کو نہ فروخت کریں، مراٹھیوں سے ہی سامان خریدیں، ’مٹی کے سپوتوں‘ کو ہی ملازمت دیں، وغیرہ وغیرہ۔

اس وقت شہر میں غیر مراٹھیوں کی اکثریت تھی۔ جنوبی انڈیا کے رہنے والے، جنھیں توہین آمیز طور پر مدراسی کہا جاتا تھا، آبادی کا تقریباً آٹھ فیصد تھے، وہ شیو سینا کے پہلے شکار بنے۔ ویبھو پوراندرے اور دیگر ماہرین کے مطابق اکتوبر 1966 میں شیوا جی نامی پارک میں ہوئے پارٹی کے پہلے اجلاس کے فوراً بعد ہی پارٹی کے حامیوں نے جنوبی ہندوستانیوں کے ریستورانوں پر حملہ کر دیا۔

اس واقعے کے بعد جلد ہی پارٹی کو وسیع پیمانے پر مراٹھی لوگوں کی حمایت حاصل ہونے لگی اور اس واقعے کے کچھ ہی مہینوں بعد شیو سینا نے پڑوسی شہر ’تھانہ‘ میں بلدیہ کی تقریباً ایک تہائی نشستیں جیت لیں۔

شیو سینا کے نشانے پر اور کون کون آیا؟

بال ٹھاکرے، شیو سینا

باہر سے آنے والوں کی مخالفت کا حربہ کارگر ثابت ہو رہا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب بال ٹھاکرے نے پڑوسی ریاست کرناٹک کے مراٹھی بولنے والے اضلاع کو اپنی ریاست یعنی مہاراشٹرا میں شامل کرنے کے لیے اقدامات لینے شروع کیے۔

انتظامیہ اور پولیس سے ہونے والی محاذ آرائی کے نتیجے میں حکومت نے اُنھیں جیل میں ڈال دیا مگر اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورے شہر میں تشدد کی لہر دوڑ گئی، جو کہ چار دن تک جاری رہی۔ بالآخر حکومت کو ان سے درخواست کرنی پڑی کہ وہ اپنے حامیوں سے پُرامن رہنے کی اپیل کریں۔

’مدراسیوں‘ کے بعد اُن کا اگلا نشانہ کمیونسٹ، گجراتی، بہاری اور یوپی والے بنے۔

چونکہ مقامی سیاست کی اپنی حدود و قیود ہوتی ہیں اسی لیے شیو سینا نے اب ایک ایسے موضوع کو اٹھایا جس کا مستقبل منافع بخش تھا اور وہ تھا ’ہندوتوا‘۔ سینیئر صحافی جیوتی پنوانی لکھتی ہیں کہ جنوبی ہندوستانیوں کے نسبت مسلمان ٹھاکرے کی نفرت کا شکار آخر وقت تک رہے۔

یہ بات الگ ہے کہ بعدازاں جب پارٹی کو ریاست میں اقتدار ملتا نظر آیا تو اس نے مسلم سیاسی جماعتوں سے بھی اتحاد کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ مثلاً ممبئی اور پڑوسی شہر بھونڈی میں بلدیہ کے انتخابات کے لیے مسلم لیگ کے ساتھ سنہ 1970 میں اتحاد۔

کلکرنی کے مطابق ٹھاکرے کے والد نے خطے کے اہم تہوار ’گنیش چترتھی‘ پر برہمنوں کے غلبے کے خلاف آواز بلند کی تھی اور غیر برہمنوں اور دلتوں کی اس میں شرکت داری کا مطالبہ کیا تھا مگر شیوسینا ذات پات کے مخالف مؤقف اختیار نہیں کر پائی۔

یہ دلتوں کے اپنے اختیار کی جدوجہد کے خلاف تھی۔ سنہ 1987 میں اس نے انڈیا کے پہلے وزیر قانون اور دلت رہنما بھیم راؤ امبیڈکر کی کچھ تحریروں کو جن میں ہندو مذہب پر تنقید تھی، ریاستی حکومت کی تالیف میں شامل کرنے کے خلاف مہم چلائی۔

یہاں تک کہ دلتوں کی ایک ریلی کے بعد اس جگہ کو گنگا جل (گنگا کا پانی) سے ’پاک‘ کیا گیا۔ پارٹی کے کارکن دلتوں پر حملے اور بُدھ مندروں کی بے حرمتی (انڈیا میں بہت سے دلت بدھ مذہب کے پیروکار ہیں) میں اکثر ملوث ہوتے تھے۔

جہاں ملک بھر کی پارٹیوں کو دلت ووٹوں کی اہمیت کا احساس ہو رہا تھا، وہیں شیو سینا ایک اکیلی جماعت تھی جس نے مراٹھواڑہ یونیورسٹی کا نام امبیڈکر یونیورسٹی رکھنے کی مخالفت کی۔

شیوسینا نے اپنے مؤقف سے سکھوں کو بھی متاثر کیا۔ صحافی اور مصنف سالل تیرپاٹھی کے مطابق جب کچھ پنجابی سکھ اپنے لیے خالصتان کے نام سے الگ وطن کی تحریک چلا رہے تھے تو ٹھاکرے نے ممبئی کے سکھوں کو دھمکی دی کہ اگر وہ اپنے مذہبی رہنماؤں کو خالصتانیوں کے خلاف ہدایت نامہ جاری کرنے کے لیے راضی نہیں کرتے ہیں تو ان کا معاشی بائیکاٹ کیا جائے گا۔

پارٹی نے ان خواتین کو بھی نشانہ بنایا جن کے خیالات اُن سے مختلف تھے۔ سینیئر صحافی جیوتی پنوانی اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی نامی جریدے میں لکھتی ہیں کہ ایک سوشلسٹ رہنما کو گورے گاؤں (ممبئی شہر کا ایک علاقہ) کی بھینس اور ایک پروفیسر کو ’باسی نان خطائی‘ اور ’طوائف‘ کہا۔

بائیں بازو کی دو خواتین رہنماؤں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ٹھاکرے نے ایک بار حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’ماہواری بند ہونے کے باوجود بھی اتنی متحرک کیسے ہیں۔‘ ایک مصنف کو خواتین کے حقوق کی تحریک چلانے کے لیے ’ہیجڑا‘ کہا۔

پارٹی کا پسندیدہ حریف

بال ٹھاکرے، شیو سینا

ویبھو پوراندارے نے اپنی کتاب ’دی سینا سٹوری‘ میں لکھا ہے کہ ’ہر نئے شہر جس پر شیو سینا نے قبضہ کیا، وہاں فسادات ہوئے۔ پارٹی نے ہندوتوا نظریے کا استعمال اس وقت سنجیدگی سے کیا تھا جبکہ اس نظریے کی قومی سطح پر حالیہ حامی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بھی اس طرح کے محاذ آرائی کے مؤقف اختیار کرنے سے باز آتی تھی۔‘

سنہ 1984 میں ٹھاکرے نے کہا کہ ’آج انڈیا میں مسلمانوں کی تعداد ڈھائی کروڑ سے بڑھ کر 14 کروڑ ہو گئی ہے۔‘ یہ ایک انتہائی مبالغہ آمیز بات تھی کیونکہ 1981 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی آبادی صرف ساڑھے سات کروڑ تھی۔

اُنھوں نے مزید کہا ’لیکن اندرا گاندھی اُن کی حمایت کرتی ہیں کیونکہ وہ اقلیت ہیں۔ اگر اقلیت ہونے کی وجہ سے مستقبل میں بھی اُنھیں حمایت حاصل رہی تو ہمارا ’ہندو مہاسنگ‘ اس کینسر (مسلمانوں) کو ختم کرنے کی ایک ضروری مہم چلائے گا۔‘

ٹھاکرے مسلمانوں کو ’سبز سانپ‘ کہتے تھے اور عام مقبولیت سے پہلے ہی انھوں نے سنہ 1987 میں ’گرو (فخر) سے کہو ہم ہندو ہیں‘ کا نعرہ استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔

جب سنہ 1992 میں بابری مسجد کو منہدم کیا گیا تو اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن ایڈوانی جیسے ہندوتوا کے قدآور قائدین نے بھی اعلانیہ طور پر اس کا کریڈٹ لینے سے گریز کیا تھا لیکن ٹھاکرے کو کوئی خوف نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر بابری مسجد کو شیو سینک نے توڑا ہوتا تو مجھے اس پر بہت فخر ہوتا۔‘

ان کے پرتشدد خیالات کے مطابق ہی پارٹی کے کارکنوں نے بابری مسجد کے انہدام کے بعد ممبئی میں ہونے والے فسادات میں اعلانیہ طور پر حصہ لیا۔ تشدد کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے شری کرشنا کمیشن کا کہنا تھا کہ ’ایک تجربہ کار جنرل کی طرح اُنھوں (ٹھاکرے) نے اپنے وفادار شیو سینکوں کو مسلمانوں کے خلاف منظم حملوں کے ذریعے جوابی کارروائی کا حکم دیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

ماڈوی ہڈما: وہ ’دیوتا‘ جس کو گرفتار کرنے کی کوشش میں 22 انڈین فوجی ہلاک ہوئے

’مافیا ڈان‘ اور تین بار جیل سے الیکشن جیتنے والے مختار انصاری کون ہیں؟

ادھو ٹھاکرے: ریموٹ کنٹرول کی سیاست سے وزیر اعلیٰ تک

شیو سینکوں پر مسلم خواتین کو برہنہ کرنے، جلانے، غیر مسلح مسلمانوں کو سنگسار کرنے اور ان کے جسموں کو جے شری رام کے نعرے بلند کر کے جلا دینے جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے۔ پنوانی لکھتی ہیں کہ ’لیکن ان کے دفاع کے لیے پارٹی نے اپنے بہترین وکیل بھیجے۔‘

پارٹی کارکن اُس وقت تک اپنے مسلم دشمن نظریے کے متعلق مکمل طور پر بے خوف ہو گئی تھی اور یہ بات شیو سینا کے رہنماؤں کے بیانات اور تحریروں سے ظاہر تھا۔ سنہ 1989 میں شروع کیے گئے پارٹی کے شمارے ’سامنا‘ نے اپنے اداریے میں مسلمانوں کو ’جنونی غدار‘ کہا جو کہ ’ایسے محلے میں رہتے ہیں جن میں غداری اور زہر بہتا ہے۔ یہ برادری پاکستان کے سات ایٹم بموں میں سے ایک ہے جو کہ ہندوستان میں رکھا گیا ہے۔‘

ایک اور اداریے میں ہندو مُردوں سے کہا گیا کہ وہ زندہ ہو کر ’ہمیں بتائیں کہ ان پر کس مسجد سے بم پھینکا گیا تھا۔ کس جنونی غدار نے ان پر سٹین گن سے نشانہ بنایا؟‘ اسی اثنا میں ’سامنا‘ کے اخباری صفحات نے ’محب وطن نوجوانوں کے ذریعے اس مذہبی جنگ میں غیر قانونی اسلحے کے ذخیروں یعنی مساجد کو نذرِ آتش کرنے‘ کا جشن منایا۔

واضح طور پر اشتعال انگیز مواد ہونے کے باوجود بھی پریس کونسل آف انڈیا نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ پنوانی لکھتی ہیں کہ بمبئی ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ اداریے قابل اعتراض نہیں ہیں کیونکہ وہ صرف ملک مخالف مسلمانوں کی باتیں کر رہے ہیں نہ کہ پوری برادری کی۔ سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت کے بغیر ہی فیصلے کے خلاف کی گئی اپیل کو مسترد کر دیا۔

ایک غیر معمولی معنی خیز اقدام کے تحت 1999 میں انڈیا کے قومی انتخابی ادارے نے ٹھاکرے پر نفرت انگیز تقاریر کے سبب چھ سال کے لیے ووٹ ڈالنے اور انتخابات لڑنے پر پابندی عائد کر دی۔ یہ الگ بات ہے کہ اُنھوں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی الیکشن نہیں لڑا۔

پارٹی کا مستقبل

بال ٹھاکرے، شیو سینا

بال ٹھاکرے کی میت کو آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے لے جایا جا رہا ہے

سنہ 2003 میں اُنھوں نے پارٹی کی ذمہ داری باضابطہ طور پر اپنے بیٹے اُدھو ٹھاکرے کے حوالے کر دی جو اب ریاست مہاراشٹر کے موجودہ وزیرِ اعلیٰ ہیں۔

اس فیصلے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بہتر منتظم سمجھے جانے والے اسن کے بھتیجے راج ٹھاکرے ناخوش ہو گئے اور ’مہاراشٹر نو نرمان‘ نامی اپنی سیاسی جماعت کی تشکیل کر لی۔

اُنھوں نے چند برس تک اپنے چچا کی پارٹی کا پرتشدد مدمقابل بننے کی صلاحیت دکھائی لیکن اسے برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔

سنہ 1980 کی دہائی میں جب شیو سینا ترقی کر رہی تھی تو اُس نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا تھا جو اُنھیں غیر مراٹھی ووٹ دلانے میں مدد کرتی اور وہ مراٹھی ووٹوں کو متوجہ کرتے تھے۔

قوم پرستی ظاہر کرنے سے شیو سینا کو غیر مراٹھی ووٹ متوجہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ صحیح موقع پر اب وہ اپنی قوم پرستی کی سیاست کو اپنے پرانے حلیف اور اب حریف بی جے پی کے خلاف استعمال کرتے ہیں جس کے ساتھ حال ہی میں اس نے اپنے تعلقات منقطع کر دیے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ بی جے پی کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہی پارٹی کارکنوں نے ’ممبئی، کراچی فرینڈشپ فورم‘ کے زیر اہتمام سنہ 2015 میں ایک پریس کانفرنس پر حملہ کیا جس سے لال کرشن اڈوانی کے دیرینہ حلیف سدھیندر کلکرنی خطاب کر رہے تھے۔

پارٹی نے کلکرنی پر الزام لگایا کہ اُنھوں نے ’انڈیا میں اور خاص طور پر ممبئی میں پاکستان کے خلاف مقبول جذبات اور انڈیا کے خلاف اس کی دہشت گردی کی کفالت کو نظر انداز‘ کیا ہے۔

اس کے چند ماہ بعد ہی پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید احمد قصوری کی ایک کتاب جاری کرنے کے تقریب میں بھی پارٹی کارکنوں نے کلکرنی کا چہرہ سیاہ کر دیا تھا۔

پارٹی کی قوم پرستی کی سیاست کے لیے برسوں سے پاکستان ایک اچھا ذریعہ رہا ہے۔ ماہنامہ ’کرکٹ منتھلی‘ کے مطابق پارٹی نے کم سے کم 13 مواقعوں پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ سے متعلق تعلقات کو متاثر کیا ہے جس میں تین مرتبہ کرکٹ سٹیڈیم میں پچ کو کھودنا بھی شامل ہے (اور ایک مرتبہ 1983 میں انڈیا کی جیتی ہوئی ٹرافی کو نقصان پہنچانا بھی شامل ہے۔)

لیکن فی الحال پاکستان کی بانسبت پارٹی کی رنجش اس کی پرانی اتحادی بی جے پی سے زیادہ ہے کیوںکہ جیسے جیسے پورے ملک میں بی جے پی کا تسلط بڑھ رہا ہے، ریاست میں شیو سینا اور اس کی سیاست کو خطرہ ہے۔

اگرچہ بال ٹھاکرے نے کبھی بھی حکومت میں خود حصہ نہیں لیا لیکن پارٹی کے لیے یہ طریقہ کار دیرپا نہیں تھا۔ والد کی موت کے کچھ برس بعد ہی ان کے بیٹے ادھو ٹھاکرے نے پارٹی کی پرانی حریف کانگریس کے ساتھ اتحاد قائم کر لیا حالانکہ پارٹی کچھ عرصہ پہلے تک کانگریس کی شدید نقاد تھی۔

شیو سینا نے کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی کو اُن کے اطالوی نژاد ہونے کی وجہ سے غیر ملکی تک قرار دیا تھا لیکن اب وہ اُنھیں انڈیا کا سب سے اعلیٰ اعزاز ’بھارت رتن‘ دینے کے مطالبے کی حمایت کرتی ہے۔

سونیا

دوسری طرف حال ہی میں اندرونی سیاست کے تحت بی جے پی کے شیو سینا پر حملے کے بعد شیو سینا نے انڈین حکومت کو اپنی اتحادی جماعت کانگریس سے سبق لینے کی تجویز دی جس کو اس نے پاکستان کو دو ٹکڑوں میں توڑنے کا ذمہ دار قرار دیا۔

پارٹی کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’(انڈیا کی پاکستان پر فتح کی) یہ گولڈن جوبلی ہے اور اندرا گاندھی کی سفارت کاری کے تاریخی واقعات اور ان کی حکمت عملی کو یاد کرنے کا وقت ہے جو کہ امریکہ کے بیڑے کی مدد پہنچنے سے پہلے ہی پاکستان کو شکست دینے کا باعث بنے۔‘

بی جے پی حکومت کو مزید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پارٹی کے شمارے نے لکھا کہ ’چین لداخ سے پیچھے نہیں ہٹ رہا، جبکہ پاکستان جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ پچاس سال قبل پاکستان کو سبق سکھایا گیا تھا، آج کیا ہوا؟‘

طاقت کی رغبت اکثر سیاسی جماعتوں کو اپنے دشمنوں کا حلیف بنا دیتی ہے۔ بی جے پی کے ساتھ اپنا تین دہائی پرانا اتحاد ختم کرنے کے بعد جب پارٹی ریاست میں حکومت بنانے کے لیے کانگریس سے بات چیت کر رہی تھی تب پارٹی کی بنیادی طور پر غیر سیکولر سیاست پر سوال اٹھے۔

اس کا جواب حیرت انگیز تھا۔ پارٹی کے رہنماؤں نے فوراً جواب دیا کہ اُنھیں کسی سے سیکولر ازم پر سبق نہیں چاہیے اور یہ کہ ملک کا آئین ’سیکولر‘ لفظ کی بنا پر کام کرتا ہے۔

28 نومبر 2019 سے ’سیکولر ازم‘ جاری ہے لیکن اس کی تعریف کب بدل جائے، یہ فی الحال غیر یقینی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp