پردیس ڈرامہ: پردیسیوں کو گھر لوٹنے کی اجازت کیوں نہیں ملتی؟

حمیرا کنول - بی بی سی اردو ڈاٹ کام آسلام آباد


ٹی وی سکرینز پر ڈرامہ سیریل ’پردیس‘ کا ایک سین چل رہا ہے جس میں مرکزی کردار احسن (سرمد کھوسٹ) اپنے گھر والوں سے کہتے ہیں کہ ’میں نے (مسقط ) واپس جانے کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔‘

بشریٰ انصاری، جو اس ڈرامے میں والدہ کا کردار نبھا رہی ہیں، بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں کہ اگر وہ (احسن) بیرون ملک روزگار کے لیے نہیں جائیں گے تو بہن کی شادی اور گھر کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔ اس پر احسن شکوہ کرتے ہیں کہ ’میرے لیے زیادہ ضروری ہے کہ یہاں اپنے بیوی بچوں کے پاس رہوں اور ان کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی ہو یہ مجھے منظور نہیں۔‘

اور دوسری جانب احسن کی اہلیہ زبیدہ ( شائسہ واحدی) ہیں جو صبر کا پیکر بنی دکھائی دیتی ہیں اور چہرے پر گہری اداسی لیے وہ اپنے دونوں بچوں کی پرورش کی کوشش کرتی ہیں۔

یہ کہانی معاشی حالات کی بہتری کے لیے گھر سے نکلنے والے ایک شخص کی ہے جو بھائی بیٹا، شوہر اور باپ ہے اور سب کی توقعات اُس سے الگ الگ ہیں۔ اس کہانی کو پردیسیوں کے نام کیا گیا ہے۔

لیکن یہ ڈرامہ حقیقت سے کس قدر قریب ہے اس کے بارے میں جاننے کے لیے ہم نے بات کی کچھ ایسے لوگوں سے جو ایسے میاں بیوی ہیں جنھیں اس سے ملتی جلتی وجوہات کی بنا پر ایک دوسرے سے الگ رہنا پڑا۔

تارکین وطن

’میرا گھر کسی بھی لمحے ذرا سی بات پر ٹوٹ جائے گا‘

انعم (فرضی نام) ان خواتین میں شامل ہیں جنھیں شادی کے بعد کچھ عرصے تک شوہر سے الگ رہنا پڑا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’شادی کے پندرہ روز بعد میرے شوہر شارجہ چلے گئے۔‘

اگرچہ یہ ایک خوشحال گھرانہ تھا لیکن نور کے لیے ہر دن ایک نیا امتحان لے کر آتا تھا۔ ان کے مطابق طنز اور کم مائیگی کے طعنے اپنی جگہ تھے اور جب اسی تکلیف اور پریشانی میں ان کا شادی کے تیسرے ماہ بعد مِس کیرج ہو گیا تو سسرال والوں کی جانب سے انھیں اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنے شوہر کو کچھ بھی بتائیں۔

وہ بتاتی ہیں ’میری بڑی نند نے مجھے سختی سے منع کیا کہ میرے بھائی کو کچھ نہ بتانا اسے پریشانی ہو گی۔’

انعم کے مطابق دوسری جانب اُن کے شوہر کو بتایا گیا کہ انعم اپنی والدہ کے گھر جا کر بیٹھ گئی ہیں اور واپس نہیں آنا چاہتیں۔

وہ کہتی ہیں ’شوہر کے بغیر سسرال میں ایک ایک لمحہ امتحان لگتا تھا، کیونکہ میری کوئی بھی بات کسی کو غیر مناسب لگ سکتی تھی اور اس کی شکایت میرے شوہر تک پہنچ جاتی تھی اور شوہر کا ناراض ہونا الگ تھا۔‘

’اس صورتحال نے میرے اور شوہر کے درمیان ایک فاصلہ پیدا ہو گیا تھا جس کی وجہ سے ہم میں وہ ہم آہنگی نہ پیدا ہو سکی جو ان کے یہاں پاکستان رہنے کی صورت میں ہو سکتی تھی۔‘

چند ماہ بعد ان کے شوہر نے ان کے ویزہ کاغذات بھجوا دیے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’کہنے کو تو یہ تین ماہ تھے لیکن میرے لیے کئی سال کے برابر تھے مجھے ایسا لگتا تھا کہ میرا گھر کسی بھی لمحے ذرا سی بات پر ٹوٹ جائے گا۔‘

وہ شارجہ منتقل ہوئیں لیکن اُن کے لیے زندگی یہاں بھی اتنی سہل نہ تھی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’ایسا نہیں کہ پیچھے اُن کے بہن بھائیوں کے پاس روزگار نہیں تھا، پاکستان میں بنا گھر میرے شوہر کا تھا لیکن وہ اُن بہن بھائیوں کے پاس تھا، اس گھر کے بل اور ہر قسم کا خرچ میرے شوہر ہی اٹھاتے تھے، دو بچوں کی پیدائش اور ذمہ داریاں بھی اس سلسلے کو روک نہ سکیں۔‘

تارکین وطن

شوہر کے بغیر دگنی ذمہ داریاں

اسلام آباد کی رہائشی حنا (فرضی ناک) کی کہانی انعم سے مختلف ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ شادی کے پندرہ سال بعد میرے شوہر کو پاکستان میں بزنس میں کافی نقصان ہوا تو انھیں بیرونِ ملک جانا پڑا۔

وہ کہتی ہیں کچھ عرصے بعد ’میں بچوں کو لے کر شوہر کے پاس چلی گئی لیکن وہاں تعلیم کے حصول میں مسائل اور بڑھتے ہوئے اخراجات دیکھتے ہوئے میں واپس لوٹ آئی۔‘

یہاں سے حنا کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا، اگرچہ ان کے لیے سسرال والوں کی جانب سے کوئی منفی رویہ اختیار نہیں کیا گیا لیکن بچوں کو ایک بہتر ماحول کے ساتھ ساتھ انھیں دگنے کام کرنا ہوتے تھے۔ بچوں کو سکول خود لانے لیجانے کے لیے انھیں ڈرائیونگ سیکھنی پڑی، بلز اور بینک اور دیگر خریداری کا ہر کام خود کرنا پڑا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے ڈرامہ سیریل پردیس دیکھا ہے میری کہانی اس سے مختلف ہے لیکن میں یہ کہوں گی کہ عورت کو مضبوط بننا پڑتا ہے ورنہ اس کے بچوں کا مستقبل بہتر نہیں ہو سکے گا۔‘

انھیں ڈرامے کے ایک کردار زبیدہ کی خاموشی پر بھی شکوہ ہے۔ وہ کہتی ہیں ’ایسا ہوتا ہو گا ہر خاندان اور گھرانے میں فرق بھی ہوتا ہے لیکن زندگی کے مسئلے رونے سے حل نہیں ہوتے۔‘

تصویر

بیشتر پردسی گھر والوں سے فون پر بات کر کے زیاہ پریشان ہو جاتے ہیں

انھوں نے کہا کہ ’شوہر کے ساتھ فون کال پر رابطہ رہتا تھا لیکن اس سارے عرصے میں ہمیں جذباتی لحاظ سے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‘

حنا کہتی ہیں شوہر اور میرے درمیان جو بھی مسائل ہوئے ان کا علم کبھی میرے بچوں کو نہیں ہو سکا کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ میرے بچوں کی نظر میں والد کی قدر گھٹے۔

سہولیات سے محروم پردیسی

فہیم احمد جھنیں باہر جا کر رہنے کا موقع ملا نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا بیرون ملک رہنے والے چاہے شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ اکثر ایسے ہوتے ہیں جنھیں گھر والوں کی جانب سے مطالبات کی نت نئی لسٹیں فراہم کی جاتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ قلیل تنخواہ اور اس میں بھی ٹیکسوں کی کٹوتی ان پردیسیوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خستہ حال اور جدید سہولیات سے عاری مگر سستی رہائش گاہوں میں رہیں۔

’وہاں ایک ایک کمرے میں بعض اوقات چھ، چھ اور دس، دس لوگ رہتے ہیں۔ ڈبل شفٹوں میں کام یا ایک نوکری کے بعد پارٹ ٹائم جاب وہاں ہر دوسرے شخص کا معمول ہے۔‘

بحرین میں اپنی فیملی کے ساتھ مقیم محمد فیضان نے بتایا کہ ’میں دیکھتا ہوں میرے وہ دوست جو گھر والوں کا خرچ اٹھاتے ہیں انھیں گھر والے فون کر کے ان کی خیریت کا تو کم ہی پوچھتے ہیں ہاں اپنے مطالبات اور ان کی ڈیڈ لائن ضرور بتاتے ہیں۔ انھیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ پردیس میں رہنے والا شخص ایک ایسے کمرے میں رہتا ہے جہاں کبھی کبھی 12 سے پندرہ لوگ بھی رہتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا ’یہاں دیار غیر میں عید پر آنے والی کال میں بھی میں نے یہ نہیں دیکھا کہ کبھی کسی سے گھر والوں نے پوچھا ہو کہ آج تم نے نیا سوٹ پہنا تھا، کھانے میں کیا کھایا ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں ’میں نے ایسے لمحات بھی دیکھے ہیں کہ گھر پر اگر میں کسی دوست کو دعوت دوں تو گھر کا کھانا ٹیبل پر دیکھ کر وہ اس لیے رونا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ انھیں اپنی ماں کے ہاتھ سے بنے کھانے یاد آتے ہیں جسے وہ یہاں ترستے ہیں۔‘

’خرچہ کسے بھیجیں والین کو یا بیوی کو؟‘

تصویر

وہ کہتے ہیں کہ جو بیوی بچوں کو چھوڑ کر یہاں کمانے آتے ہیں انھیں پیچھے بیوی بچوں کی رہائش، سہولیات اور تعلیم کی فکر ہوتی ہے۔

’ہم ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو اس بات پر بھی پریشان ہوتے ہیں کہ خرچے کے پیسے کس کو دیں والدین کو یا بیوی کو۔ اگر ایک کو بھجواتے ہیں تو دوسرا ناراض ہوتا ہے اور اگر الگ الگ بھجوائیں تو بھی الزام پردیسی پر ہی عائد کیا جاتا ہے۔‘

فیصان نے کہا کہ اگر کوئی بیوی بچوں کو لے کر آ جائے یہاں تو پیچھے والدین اور بہن بھائیوں کو یہ ہوتا ہے کہ اب تو یہ بیوی کے کنٹرول میں ہو گا۔

محمد فیضان نے کہتے ہیں کہ ’ہم نے یہاں ایسے کیسز بھی دیکھے جب سگے بھائی دیار غیر میں جانے والے بھائیوں کے پیسوں سے اپنی جائیدادیں بنا کر چل پڑتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’لوگ دل برداشتہ ہو کر اپنی زندگی تک ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گذشتہ برس بحرین میں ایک شخص نے سگے بھائی کی جانب سے جائیداد ہتھیانے کی وجہ سے خود کشی کی۔‘

ایسی ہی ایک کہانی ہمیں آڈیو کے ذریعے ایک نوجوان نے بھجوائی جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ ان کا تعلق پنجاب سے ہے وہ کہتے ہیں کہ ’میں اور میرے والد برسوں سے یہاں محنت کر رہے ہیں۔ اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر گھر پیسے بھجوائے۔ چھوٹے بھائیوں کی پڑھائی اور پھر کاروبار سیٹ کرنے میں پیسے لگائے۔ لیکن اس نے سب اپنے نام کیا اور اب ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں ’میں خود پر ایسے خرچ کرنے کا سوچ نہیں سکتا۔ جو عزت بنائی تھی والد نے 22 سال اور میں نے آٹھ سال لگائے وہ ہمارے بھائی نے ختم کر دی سب اس کے نام ہے وہ گھرسے بھاگ چکا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ آج بزنس بھی اپنے نام نہیں اور بھائی فون کبھی اٹھاتا ہے کبھی نہیں۔ ایسے میں والدہ بھی ناراض ہیں وہ کہتی ہیں کہ ہم بھائی کو روکتے ہیں ٹوکتے ہیں۔

گھر والوں سے بات کر کے مزید پریشانی

تصویر

’گھر والوں کو پیسے تو بہت بھیجے لیکن میں ان کو کبھی یہ نہیں بتا سکا کہ طویل سردیوں میں میرے کمرے کی دیواریں مجھے خود پر گرتی محسوس ہوتی تھیں اور میرا دم گھٹتا تھا‘

فہیم جو کورونا کے بعد اب گھر واپس لوٹ چکے ہیں کہتے ہیں کہ ’شدید گرم موسم میں کھلے آسمان تلے کام کرتے مزدوروں کو دیکھ کر میں سوچتا تھا کہ یہاں سے دور ان کے گھر میں بیٹھے اہلِخانہ اگر اس تپش کو دیکھیں تو شاید اسے خود کبھی برداشت نہ کر پائیں گے۔‘

محمد فیضان کہتے ہیں کہ پردیسی جب گھر میں کال کرتے ہیں شام کو تو میں نے دیکھا ہے اکثر لوگ مزید ٹینس ہو جاتے ہیں۔

’شادی ہو یا ماتم ہو، گھر میں چاہے پینٹ ہی کروانا ہو گھر والے ایک نوٹس پر دو دن کا وقت دیتے ہیں کہ پیسے بھجواؤ۔ گھر جاؤ بھی تو سوال ہوتا ہے کہ کیا تحفہ لائے ہو۔‘

یہ بھی پڑھیے

‘سارہ غصہ مت کرو، ورنہ سارا انڈیا اور پاکستان اداس ہو جائے گا’

ہم عمر لڑکی کی ماں کا کردار میرے لیے ایک جُوا تھا: رابعہ بٹ

’پہلے کہتے ہیں یہ تو بس روتی رہتی ہیں، جب رلاتی ہوں تو برداشت نہیں ہوتا‘

فیضان کہتے ہیں کہ ’جب بیرون ملک رہنے والے سفید بالوں کے ساتھ واپس لوٹتے ہیں تو کچھ کو بیماریاں بھی ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات ان کو گھر میں وہ عزت نہیں ملتی جو کبھی باہر ہوتے ہوئے ملک ایک، دو ماہ کے لیے واپس آنے پر ملتی تھی۔‘

’جوانی میں لوٹنے کی کوشش کرنے پر انھیں گھر والے کہتے ہیں کہ آ جاؤ لیکن دیکھ لو گھر کے معاشی حالات کیا ہیں تم ذمہ دار ہو یہاں مہنگائی ہے تمھارے چھوٹے بہن بھائیوں کی شادی اور تعلیم کے اخراجات ہیں۔‘

ہاں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو زندگی کو آسائشوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ برطانیہ سے پلٹنے والے ایک شخص کے الفاظ مجھے برسوں بعد اب بھی یاد ہیں جس نے کہا تھا ’گھر والوں کو پیسے تو بہت بھیجے لیکن میں ان کو کبھی یہ نہیں بتا سکا کہ طویل سردیوں میں میرے کمرے کی دیواریں مجھے خود پر گرتی محسوس ہوتی تھیں اور میرا دم گھٹتا تھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp