کچھ اسلامو فوبیا کے بارے میں


چند دن پہلے بینیڈکٹ اینڈرسن کی کتاب ’سماج کا تصور‘ (Imagined Communities) پڑھنے کا اتفاق ہوا جس کا موضوع ”نیشنلزم (قومیت پرستی) اور حب الوطنی“ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ”چھوٹی سے چھوٹی قوم کے لوگ بھی اپنی قوم کے زیادہ تر لوگوں سے اپنی زندگی میں نہ مل پاتے ہیں، نہ ان کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی کبھی ان کو براہ راست سنتے ہیں، اس کے باوجود وہ دنیا کی جس دھرتی پر بھی جا بسیں، ذہنی طور پر وہ اپنی شناخت ’اپنی قوم‘ کے ساتھ پیوستہ رکھتے ہیں۔“

قوم ایک تصوراتی اشتراک کے ذریعہ وجود میں آتی ہے، ہم تصور کر لیتے ہیں کہ ہمارا دوست وہی ہے جو ہماری قوم سے تعلق رکھتا ہے۔ باقی تمام مذاہب، اقوام اور نسلوں کے لوگ دشمنی اور نفرت لائق ہیں۔ یہ دشمنی اور نفرت بنیادی طور پر تشکیک کی انتہائی شکل ہے، نتیجتاً ہر شخص شعوری یا لاشعوری طور پر اپنے مذہب، قوم، اور نسل کو دوسروں سے ممتاز کرنے میں کوشاں نظر آتا ہے۔ نسلی تعصب انہی امتیازی احساسات سے وجود میں آتا ہے۔

یہاں تک کہ یہ احساس برتری نفسیاتی طور پر کمزور اقوام کے لاشعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس تصوراتی قومیت پرستی، وطن پرستی اور نسل پرستی نے شدت پسندی، نفرت اور انسانیت کے خلاف ظلم و بربریت کو جنم دیا ہے۔ جنگ عظیم دوم اسی قومیت پرستی کے نتیجے میں لڑی گئی اور کروڑوں بے گناہ انسان اپنے وقت سے پہلے قبروں کے مکین ہوئے۔ ایسا نہیں ہے کہ قومیت پرستی کوئی نیا نظریہ ہے بلکہ دنیا کے کئی ممالک کی تشکیل اسی بنیاد پر ہوئی ہے۔ لیکن کچھ عرصے سے نیشنلزم کو ایسا بڑھاوا ملا ہے کہ مختلف مذاہب، نسلوں اور قومیتوں کے بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ صرف اور صرف اس لئے اتار دیا جاتا ہے کہ وہ ایک الگ گروہ، مذہب اور ایک مختلف نظریے کے حامی نظر آتے ہیں۔

نائن الیون کے بعد صرف مسلمانوں کو دہشت گرد مانا گیا اور ”اسلاموفوبیا“ ایک ایسی ہی کوشش کا شاخسانہ ہے۔ یہ اصطلاح خالصتاً ایک مذہب کو خطرہ سمجھ کر اس کے ماننے والوں کے لئے بڑھتے ہوئے شک کو بیان کرنے کے لئے اختراع کی گئی ہے۔ پہلے پہل دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑا گیا، جب بھی کسی متشدد واقعے میں کوئی مسلمان ملوث ہوتا تو مغربی اخبارات اور چینلز خصوصی طور پر ناظرین اور قارئین کی توجہ اس جانب مبذول کرواتے کہ یہ صرف دہشتگردی نہیں بلکہ اسلامی دہشتگردی کا واقعہ ہے۔

آہستہ آہستہ اسلامی دہشتگردی کی اصطلاح ”ڈنر ٹیبل ٹیسٹ“ پاس کرتے ہوئے کئی ایک ممالک میں مقبول ہو گئی۔ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ مغربی ممالک میں اسلام اور دہشتگردی تقریباً ہم معنی تصور کیے جاتے ہیں۔ تاوقت سرکاری بیانات میں سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے، اس لیے ہمیں فرانسیسی صدر میکرون کے بیان پر افسوس ہوا کہ اب اسلاموفوبیا ریاستی طور پر بطور پالیسی اپنا لیا گیا ہے۔ مگر حقیقت یہ کہ مغرب کے عام شہریوں میں اسلام کا ایک متشدد تاثر کافی عرصے سے پروان چڑھ رہا ہے۔ برطانیہ، نیوزی لینڈ، امریکہ، فرانس اور ایسے کئی ترقی یافتہ ممالک جہاں قانون کی بالادستی پر فخر کیا جاتا ہے اور جن کے آئین میں انسانی حقوق کے بل ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں، ایسے ممالک میں ایک مذہب کو بنیاد بنا کر اس مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے دشمنی اور نفرت کے جذبات رکھنا کیسا انصاف ہے؟

اسلام کے ماننے والوں اور اس کی تعلیمات پہ عمل کرنے والوں کو فقط اپنی اس قومیت پرستی کے تعصب کا شکار بنا کر ایک نفسیاتی تسکین کے علاوہ کیا حاصل کیا جا سکتا ہے؟ اس تعصب نے مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کی معاشرتی اور نفسیاتی زندگی کو خوف اور بے یقینی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ صرف مسلمانوں کو کمتر سمجھنا ایک superiority complex تو ہو سکتا ہے لیکن ایک سیاسی رجحان ہر گز نہیں مانا جانا چاہیے۔ یہ ایک نفسیاتی بیماری تو ہو سکتی ہے جس میں شدید نفرت اور غصے کی صورت پیدا ہو جائے اور اس کے نتیجے میں انسانی جانیں اپنی وقعت کھو دیں لیکن یہ کسی بھی طرح ایک تہذیب یافتہ ملک کے باشندوں کی سوچ نہیں ہونی چاہیے۔

ایک قانون دان کی حیثیت سے دیکھا جائے تو عالمی قوانین کے چارٹر میں کئی ایک شقیں موجود ہیں جو کسی نسل، قوم اور مذہب کے ماننے والوں کو ایک منظم سازش کے ذریعے ذہنی اور جسمانی اذیت سے گزارنے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قانون کے تحت جرم گردانتی ہیں۔ ان تمام قوانین سے بہت لوگوں کو واقفیت حاصل ہے لہذا ان کو اس تحریر میں دہرانا غیر ضروری ہے۔ عالمی سطح پہ انسانی حقوق کے لیے بنائے گئے قوانین اور ترقی یافتہ ممالک کے ایوانوں سے متفق شدہ معاہدوں کی پذیرائی تو بہت کی جاتی ہے جن میں تمام انسانوں کو برابری کی سطح پہ سلوک کا حقدار مانا جاتا ہے لیکن عملی طور پہ یکسر خاموشی نظر آتی ہے۔

حالیہ واقعات کا ذکر کیا جائے تو کینیڈا کے شہر ”لندن“ میں اسلاموفوبیا کے نام پہ ایک ہی خاندان کے چار افراد کے قتل کو قطعاً نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ایسا ملک جس کے Charter of Rights and Freedoms کے سیکشن 15 میں ریاست نے ضمانت دی ہے کہ،

”Every individual is equal before and under the law and has the right to the equal protection and equal benefit of the law without discrimination and، in particular، without discrimination based on race، national or ethnic origin، colour، religion، sex، age or mental or physical disability“ ۔

کینیڈا کا وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو بذات خود اس بات کی شدید مذمت کرتا ہے کہ نسل، جنس، مذہب کے نام پہ اذیت دینا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ مگر عملی طور پہ اس متنفرانہ سوچ اور نظریے کی سمت کو درست کرنے کی طرف کیا اقدام کیے گئے ہیں؟ اسی طرح پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے ایوان میں پوری دنیا کے سامنے اسلاموفوبیا کے نام پہ جرائم کی شدید مذمت کی اور بطور مسلمان اسلام اور اسلام سے جڑی عظیم ہستیوں کی تضحیک کرنے والوں اور تکلیف دینے والوں کو خبردار بھی کیا لیکن سوال یہ ہے کہ ایوانوں میں تقریریں کرنے سے کیا دہائیوں سے بوئی ہوئی نفرت کی فصل تلف ہو پائے گی؟

کینیڈا جو انسانی حقوق کا علمبردار ہے اس واقعے میں بچ جانے والے اس ایک زخمی بچے کے حوالے سے کیا کہتا ہے؟ وہ بچہ جس نے اپنے خاندان کو مرتے ہوئے دیکھا، کیا اس کا ذہن ایک متنفرانہ سوچ اور شدت پسندی کی آماجگاہ بنے گا یا پھر وہ ایک صحت مند زندگی گزار سکے گا؟ کیا وہ کینیڈا کو اپنا ملک کہہ سکے گا؟

قومیت، نسل، جنس اور مذہب کے نام پہ کیے گئے ذہنی اور جسمانی ٹارچر سے صرف شدت پسندی اور نفرت ہی جنم لیتی ہے۔ بندے مار دینے سے نفرت ختم نہیں ہو جاتی۔ قید کرنے یا پابندیاں لگا دینے سے، ایوانوں میں بلند و بالا دعوے کرنے سے اس متنفرانہ سوچ پہ بند نہیں باندھا جا سکتا۔ ایک نظریہ اگر اتنا طاقتور ہے کہ اس کی بنیاد پہ ملک اور شہر معرض وجود میں آ جاتے ہیں، جنگیں لڑی جاتی ہیں، تو پھر اس کا اس کا تریاق بھی اتنا ہی کار گر ہونا چاہیے جو صرف مغربی ممالک کے سیاستدانوں سے ہی ممکن ہو پائے گا۔ اسلام دشمنی کو وقتی سیاسی فائدے کے لئے استعمال کرنے کی بجائے وہاں کے سیاستدانوں کو اس کی مذمت کرنا پڑے گی۔ مصلحت اور خاموشی کے نتائج نازی جرمنی بھگت چکا ہے۔

اسلاموفوبیا کا دن بدن بڑھتا تسلسل قومیت پرستی سے شروع ہوتا ہوا بقول سیموئلز ہنٹنگٹن تہذیبوں کے تصادم کا ذریعہ بن رہا ہے اور ذہنوں میں زہر کی صورت پھیل رہا ہے۔ ہم کیوں اپنی imagined communities کو حقیقت کی نظر سے نہیں دیکھ پا رہے؟ اور بطور انسان ہمارا اس میں کیا کردار ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جو ہر ذی شعور کے ذہن کی آماجگاہ ہیں جو جواب کے متلاشی ہیں۔ فی الوقت عالمی سطح پہ بنائے گئے قوانین پہ مخلص عمل درآمد اس خسارے سے نجات کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے۔

عابدہ خالق

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عابدہ خالق

عابدہ خالق پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل اور قانون دان ہیں۔ آپ خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق اور قانونی تحفظ کے لئے ایک توانا آواز ہیں۔ مختلف لاء کالجز میں تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔ ایک ترقی پسند اور منصفانہ معاشرہ کا خواب رکھتی ہیں۔

abida-khaliq has 7 posts and counting.See all posts by abida-khaliq

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments