جنسی جرائم اور وکٹم بلیمنگ


میری سمجھ میں نہیں آ رہا یہ سب لوگ خان صاحب کی بات سے اختلاف کیوں کر رہے ہیں ٹھیک تو کہہ رہے ہیں خان صاحب عورتوں کے مختصر لباس سے مردوں پر ”امپیکٹ“ پڑتا ہے اور پھر مرد اپنے جذبات قابو نہیں کر پاتا۔ چھے سالہ زینب کو کیا ضرورت تھی مختصر کپڑے پہننے کی، نومولود بچی کو اب اتنے چھوٹے کپڑے پہنائیں گے تو ریپ تو گا، اب بھلا عورت کا کفن مناسب نہیں ہو گا تو مرد پر ”امپیکٹ“ تو پڑے گا وہ دفنائی ہوئی نعش کو اب نکال کر ریپ تو کرے گا نا مرد ہے روبوٹ تھوڑی ہے۔

مجھے افسوس ہے خان صاحب پر اور ان جیسی سوچ رکھنے والوں پر، ہمارے یہاں مسئلہ عورت کا لباس نہیں بلکہ خان صاحب اور ان جیسی سوچ رکھنے والے ہیں ریپسٹ پر ”امپیکٹ“ عورت کا لباس نہیں ڈال رہا خان صاحب اور ان جیسے افراد کی ”وکٹم  بلیمنگ“ اثرانداز کر رہی ہے۔

عورت کا لباس کبھی ریپ کی وجہ نہیں تھا، اگر یہ ریپ کی وجہ ہوتا تو صرف کم سن لڑکیوں اور لڑکوں کے ساتھ یہ واقعات اس تیزی سے نہ پیش آتے۔ جانتے ہیں ریپ کیس بڑھنے کی اصل وجہ کیا ہے؟ لوگوں کے ذہن یہ ایک ذہنی بیماری ہے ہمارے یہاں مرد فرسڑیشن کا شکار ہے اور اسے لگتا ہے کہ سیکس ہی فرسٹریشن ختم کرنے اور لذت حاصل کرنے کا واحد طریقہ ہے۔

پورن بہت عام ہے پاکستان میں پورن سائٹس پر بین ہونے کے باوجود ان ویب سائٹس کو دیکھا جا رہا ہے اور پھر اس سے ابھرنے والے جذبات ریپ یا ازدواجی عصمت دری کی صورت میں نکالتے ہیں یہاں مسئلہ صرف پورن نہیں ہے بلکہ بنیادی مسئلہ ”سیکس ایجوکیشن“ ہے جو نہ تو گھروں میں فراہم کی جاتی ہے نہ اداروں میں بلکہ یہاں تو سیکس اور افزائش نسل کے متعلق باب ختم کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، معاشرے کی عکاسی کرنے والے اڈاری اور باغی جیسے ڈراموں پر تنقید اور بین کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

ہم نے آج تک صرف عورت کے کپڑوں پر تنقید کی ہے کبھی مرد کو جذبات پر قابو پانا نہیں سکھایا اور یہی وجہ ہے کہ ذہنی مریضوں نے عورت کو صرف تسکین کا کھلونا سمجھا ہے اور ان کی اس ذہنی بیماری میں ہم سب برابر کے شریک ہیں کیونکہ ہم اس دور میں بھی دقیانوسی ہیں ہم نے زندگی کے ان اہم موضوعات پر کبھی بات کرنے یا سیشنز کرنے کی کوشش نہیں کی

اب یہاں یہ راگ الاپنا کہ مغرب میں اس سے زیادہ ریپ کیسز ہیں تو یہ بات بے تکی ہے مغرب میں اور بہت کچھ عام ہے جسے یہاں عام نہیں کیا جاتا، وہاں جن کے ساتھ زیادتی ہو ان (ریپ ویکٹمز) کو قبول کیا جاتا ہے ان کی شادیاں بھی ہوتی ہیں، ریلیشن بھی قائم ہوتے ہیں اور وہ معمول کی زندگی کی طرف کافی حد تک آ جاتے ہیں لیکن یہاں یہ سب نہیں ہوتا ریپ ہونے کے بعد زیادتی کرنے والے کو نہیں بلکہ جس کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے معاشرہ سزا اسے دیتا ہے کہ اسے موت زندگی سے بہتر لگتی ہے۔

میں یہاں یہ ہرگز نہیں کہہ رہی کہ عورتیں ننگی گھومیں یا مختصر لباس پہنیں مقصد صرف اتنا کہنا ہے کہ لباس ہر شخص کا ذاتی مسئلہ ہے اور یہ ریپ کی وجہ نہیں ہے

خدارا اس بات کو سمجھیں کہ مسئلہ عورت کا لباس نہیں مرد کا ذہن ہے اسے اپنے جذبات پر قابو پانا نہ سکھانا ایک مسئلہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں دیگر مسائل حل ہو جائیں گے اگر ہم بچیوں کے ساتھ تھوڑی سی توجہ اپنے لڑکوں اور مردوں کی تربیت پر دیں تو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments