مرد کون سا روبوٹ ہیں


سوشل میڈیا میں جاری بحث سے اندازہ ہوا کہ وطن عزیز میں جنسی درندگی کے مجرمان فعل کی ذمہ داری خواتین کے لباس پر ڈالے جانے کے بارے سنا ہے۔ بات ہضم نہی ہوئی۔ کہ جس جس کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا اس میں بہت بڑی تعداد معصوم بچیوں کی تھی۔ اور اب تو کچھ با ریش لڑکے بھی خبروں کی ضد میں آ گئے ہیں۔ خیال آیا کہ اللہ جانے ان بچیوں اور باریش لڑکوں نے کون سا حیا باختہ لباس پہنا ہو گا۔ پوچھا تو یار لوگوں نے پینترا بدلا کہ نہی معاشرے میں چونکہ بے راہ روی عام ہے عام خواتین بے حیائی والا لباس پہنتی ہیں۔ مرد لوگ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے اور حیا باختہ لباس والی خواتین ہاتھ نہی آتیں۔ تو معصوم بچیوں اور باریش لڑکوں پر حملہ کر دیتے۔ سو ان سے یہ درندگی ہو جاتی۔

بات دل کو لگی۔ واقعی بھئی۔ انہی دوستوں سے پتہ چلا تھا کہ اللہ نے مرد کو غالب طاقت ور، برتر بنایا تھا۔ بس ایک ذرا سی کمزوری ہے مردوں کی، مردانہ کمزوری کہہ لیں۔ کہ بس خواتین کے بے حیائی والا لباس پہنا دیکھ لیں تو سارا وہ غالب، طاقتور، وغیرہ وغیرہ ٹائیں ٹائیں فش ہو جاتا ہے، بات دلیل والی تھی سو مان لی فورا۔

مگر دل میں خیال آیا کہ ایسی حیا باختہ لباس والی خواتین ہوتی کہاں ہیں۔ اور بکثرت ہوتی ہیں۔ کیا فیصل آباد میں بھی ہوتی ہیں؟ کیونکہ ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق دو ہزار بیس میں فیصل آباد شہر میں سو سے زائد ایسے کیس درج ہوئے۔ لازمی طور بہت سے ایسے ہیں جو درج ہی نہی ہوئے ہوں گے۔ مطلب فیصل آباد میں حیا باختہ لباس عام ہوگا۔ یا پھر عام سے ذرا سا کم۔ دل میں عجیب قسم کا تجسس ہوا کہ چل دل میرے ڈھونڈھ زرا۔

بائیک کو کک ماری اور سیدھا جھنگ بازار۔ جم غفیر۔ لوگ ہی لوگ خواتین ہی خواتین۔ مگر سب کے سب دوپٹے والیاں۔ کسی کا سر پر کسی کا گلے میں۔ زیادہ تر نے نقاب کیا ہوا۔ کچھ نے چادریں لی ہوئی۔ جھنگ بازار گھوم پھر کے دیکھ لیا۔ ساتھ بھوانہ بازار اور امین پور بازار بھی گھوم آئے۔ کچہری بازار مین تو فقط موٹر سائیکل پارکنگ ہے۔ منٹگمری اور کارخانہ بازار میں خواتین کا داخلہ ویسے ہی حرام لگتا۔ اچھے نفیس لباس والی خواتین ہر جگہ موجود تھیں۔

واہیاتی نظر نہی آئی۔ ارے انار کلی بازار رہ گیا۔ وہاں ایسا لباس عام ہوگا۔ یقیناً یہ جنسی درندگی والے وہاں جاتے ہوں گے اور وہاں سے درندگی کی تحریک ملتی ہو گی۔ بھوانہ بازار والی سائیڈ سے داخل ہوا۔ پھرتا پھراتا، حیا باختہ لباس والیوں کو ڈھونڈتا رہا مگر سامنے ریگل روڈ پر لسی کی دکان پر رانا ثنا اللہ کی فوٹو تو نظر آ گئی مگر واہیاتی والے لباس والی خواتین نظر نہی آئیں۔ دل ڈوب سا گیا۔ اک نٰئے عزم کے ساتھ بائیک سٹارٹ کی اور سیدھا ڈی گراؤنڈ، سوساں روڈ اور کوہ نور چھان لیا۔

چھوٹی بڑی عمر کی بچیاں جوان ہوتی لڑکیاں، ادائے بے نیازی سے جاتی دوشیزائیں، بڑھتی عمر کی خواتین۔ سب کا ایک رش سا تھا۔ کوئی شلوار قمیص پہنے، کسی نے جینز کسی نے کییپری۔ بہت سوں نے نقاب کیا ہوا بہت سی گلے میں دوپٹہ لٹکائے، کوئی خاموش، کوئی خوش گپیوں میں۔ کسی کے بال کھلے کسی کے کلپ کیے۔ مگر اللہ جانتا کسی ایک پر بھی گمان نہی ہوا کہ یہ واہیاتی والا لباس ہے۔ پھر ان جنسی درندوں بھیڑیوں کو تحریک کن خواتین سے ملتی؟

شاید لاہور جاتے ہوں گے۔ میں گزشتہ دنوں لاہور گیا تھا۔ دن بھر آٹھ دس جگہوں پر جانا ہوا۔ یہی فیصل آباد والا لباس تھا۔ شام سے پہلے واپس آ گیا تھا۔ شاید شام کو محلے گلیاں بازار مارکیٹیں بے حیائی والے لباس والیوں سے بھرے ہوتے ہوں گے۔ مگر دن میں کوئی چند ایک ہی نظر آ جاتیں۔ اگر لاہور نہی تو کراچی، کراچی نہی تو دہلی۔ نہی تو ممبئی یا پھر نیو یارک، مگ واہیاتی والا لباس تو عام خواتین کسی بھی جگہ نہی پہنتیں اور یہ درندے کبھی ملک سے باہر بھی نہی گئے۔

اب؟ خواتین یہ لباس فلموں میں تو پہنتی ہیں۔ اور کچھ فلموں میں تو، توبہ توبہ۔ تو انٹر نیٹ بھرا پڑا۔ استعمال کر سکتے۔ مگر سرکار نے تو وہ واہیاتی والی سائٹس بین کی ہوئی ہیں۔ کوئی جگاڑ لگا لیتے ہوں گے۔ پھر ان کے اندر کا مرد جاگتا ہوگا۔ پھر یہ اپنے ہی محلے کی بہو بیٹیوں پر غلیظ حملے کرتے ہوں گے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ درندے ایسا نہ کریں تو بس ساری دنیا سے وہ لباس خواتین کے لیے ممنوع کردیں جس کو دیکھ کر ہی خود پر قابو نہی رکھ سکتے۔

یا پھر ایسا ہے کہ ان درندوں کو ہر لباس واہیات لگتا ہے۔ اوریا زادے تو کرکٹ میں باولنگ کرتی ایک بچی کو دیکھ کر بھی حیا باختہ ثابت کر دیتے۔ ریپسٹ لڑکی کے کپڑوں برقعے عبایہ میک اپ فوٹو آواز لڑکی موجودگی کسی بھی چیز سے تحریک لے سکتا۔ اس کا مطلب خواتین کو دنیا سے ختم کر دیں یا گھروں میں بند اور کمروں میں چھپا لیں تاکہ وہ درندہ گلی میں آسانی سے گھوم سکے۔ ان درندوں کو قانون کے مطابق سزا دینا زیادتی ہوگی۔ کہ اصل مجرم تو وہ خواتین ہیں جن کا لباس انہیں واہیات لگتا ہے۔ یہ مرد کون سا روبوٹ ہیں جو خود پر قابو پا لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments