رضا مندی کی عمر طے کیے بغیر بچوں کو حقوق اور تحفظ نہیں دیے جا سکتے


بالکل اسی طرح جیسے ایک لیک شدہ وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر پوری معاشرے کے چہرے پر کیچڑ مل دے۔ لوگ ایک دوسرے سے نظریں ملاتے ہوئے شرمانے لگیں۔ ہر شخص کو محسوس ہو کہ ایک بہت بڑی قومی خیانت ہوئی ہے جس میں وہ بھی شریک رہا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سے برطانوی معاشرہ 1885 میں دو چار ہوا تھا۔

ولیم تھامس اسٹیڈ برطانیہ کا پہلا تفتیشی صحافی تھا۔ انیسویں صدی میں پال مال گیزٹ لندن سے نکلنے والا انتہائی مقبول شام کا اخبار تھا۔ اس اخبار کے ایڈیٹر ولیم تھامس اسٹیڈ نے نئے طرز کی صحافت کا آغاز کیا جسے وہ ”صحافت کے ذریعے حکومت“ کہتے تھے۔ مطلب یہ تھا کہ بامقصد صحافت سے سماجی مسائل کو اجاگر کر کے رائے عامہ کو ایسے ہموار کیا جائے کہ حکومت اپنی پالیسیاں بدلنے پر مجبور کیا جا سکے۔ جولائی 1885 میں انہوں نے ”جدید بابل میں بھینٹ چڑھائی جاتی نوعمر دوشیزہ“ کے نام سے مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا جن میں لندن میں ہزاروں جسم فروش ننھی ننھی بچیوں کی حقیقی داستان بیان کی گئی تھی۔

اسٹیڈ کے مضامین کی سرخیاں بہت سنسنی خیز ہوتی تھیں مثلاً معصوم لڑکیوں کی پامالی، تعاون پر تیار اور غیر تیار بچیاں، کوٹھے کے مالک کے اعترافات، لندن کا غلام بازار، نازک کلیاں کیسے خریدی اور کچلی جاتی ہیں، شکار ہونے والوں کی چیخیں کیوں نہ سنی جا سکیں، کیا اب توبہ قبول ہوگی؟، قانون شریک جرم ہے؟ وغیرہ وغیرہ

ان مضامین نے صرف لندن ہی نہیں بلکہ پورے برطانیہ میں آگ سی لگا دی۔ ابھی اس سلسلے کا تیسرا مضمون ہی شائع ہوا تھا کہ پارلیمان کو مجبوراً ”فوجداری قوانین میں ترمیم کے بل پر بحث کا آغاز کرنا پڑا۔ اتفاق سے یہی وہ دن تھے جب لندن سوسائٹی برائے انسداد بے رحمیٔ اطفال (اب این ایس پی سی سی کہلاتی ہے ) اپنی پہلی سالگرہ منا رہی تھی۔ اس سوسائٹی نے جس کی سرپرست خود ملکہ وکٹوریا تھیں یہ نیا قانون پاس کرا لیا جس کی سب سے اہم شق یہ تھی کہ (جنسی تعلقات کے لئے) رضامندی کی عمر کو 13 سال سے بڑھا کر 16 سال کر دیا گیا ہے۔

رضامندی کی عمر کیا ہے؟

اس سے مراد وہ عمر ہے جس سے قبل کوئی فرد اپنے ساتھ جنسی عمل کرنے کی شعوری اجازت نہیں دے سکتا۔ اس عمر سے کم فرد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے والے شخص کو قانون کی نظر میں جنسی استحصال یا ریپ کا مجرم گردانا جائے گا چاہے اس عمل میں باہمی رضامندی ہی کیوں نہ شامل ہو۔ کم عمر شخص یہ الزام وقوعہ کے کافی سال بعد بھی لگا سکتا ہے۔ انگلش کامن لاء میں عمر کی یہ حد دس سے بارہ سال تھی جسے 1875 میں بڑھا کر 13 سال کر دیا گیا تھا۔ رضامندی کے ان تمام قوانین کا موضوع صرف لڑکیاں تھیں کیونکہ 1861 کے شخصی قانون کے تحت ہم جنس تعلقات کی سزا عمر قید تھی جبکہ 1861 سے قبل اس جرم کی سزا موت تھی۔

رضامندی کی عمر قانون کی نظر میں بچے اور بڑے میں فرق کو واضح کرتی ہے۔ بچپن کا تعین کیے بغیر ممکن نہیں کہ بچوں کے حقوق کی حفاظت کی جا سکے۔ پاکستان میں مذہبی اسٹیبلشمنٹ جو اصلی تے وڈی اسٹیبلشمنٹ کی طرح ایک طاقتور حقیقت ہے رضامندی کی قانونی عمر کے تعین میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ سنہ 2014 میں جب طالبان پاکستان کے طول و عرض میں آگ اور خون کی ہولی کھیل رہے تھے عین آسی دوران اسلامی نظریاتی کونسل نے شادی کی کم از کم عمر کے تعین کو غیر اسلامی فعل قرار دیا تھا۔

انیسویں صدی تک دنیا میں رضامندی کی عمر کا یہی نظام چل رہا تھا اسی لئے تاریخ میں آسٹرو ہنگری سلطنت، تاج برطانیہ، عثمانی ترک اور مغل شاہی خاندانوں میں نوعمر شہزادے اور شہزادیاں باہم رشتۂ ازواج میں منسلک ہوتے نظر آتے ہیں۔

بچوں کو محفوظ رکھنے اور ان سے بے رحمی روکنے کا برطانوی قانون 1889

یہ پہلا برطانوی قانون تھا جو بچوں کی جان کو درپیش خطرے کی صورت میں ریاست کو بچوں اور والدین کے مابین مداخلت کرنے کی اجازت دیتا ہے پولیس ہر اس شخص کو گرفتار کر سکتی ہے جو بچے کے ساتھ بے رحمی سے پیش آ رہا ہو۔ بچہ خطرے میں ہو تو گھر میں بھی گھس سکتی ہے۔ یہ قانون بچوں سے بھیک منگوانے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لحاظ سے انقلابی تھا کیونکہ اس سے قبل کلیسائی تعلیمات کے تحت بچے والدین اور ان کے بعد کلیسا کی ملکیت سمجھے جاتے تھے۔

بچوں کا ایکٹ 1908

اس قانون کے تحت بچوں کو گود لینے والے والدین کا رجسٹر بنایا گیا تاکہ نظر رکھی جائے کہ کن حالات اور شرائط کے تحت بچوں کو والدین کے بجائے کسی دوسرے کے سپرد کیا جا رہا ہے اور نومولود کو مارنے کا خاتمہ ہو سکے۔ اسی قانون نے بچوں کے سگریٹ خریدنے اور شراب خانوں میں قدم رکھنے پر پابندی لگادی۔ بچوں کے لئے الگ جیل خانے بن گئے تاکہ وہ بالغ مجرموں کی جیلوں میں ریپ ہونے اور بعد ازاں پیشہ ور مجرم بننے سے بچ سکیں۔

بچوں کو جسمانی سزا کا خاتمہ

یہ بڑی دلچسپ حقیقت ہے کہ 1917 کے سوویت انقلاب کے ساتھ ہی روس میں اسکولوں میں جسمانی سزا کو سرمایہ دارانہ نظام کی علت قرار دے کر بند کر دیا گیا۔ سرمایہ دار دنیا کا پہلا ملک سویڈن تھا جس نے 1979 میں والدین اور قانونی سرپرستوں کے ہاتھ بچوں پر جسمانی سزا پر پابندی عائد کر دی۔ یاد رہے کہ وہاں اسکولوں میں جسمانی سزا 1966 سے ہی غیر قانونی قرار دی جا چکی ہے۔ شاید آپ کو جان کر حیرت ہو کہ برطانیہ مغربی یورپ کا آخری ملک تھا جس نے 1982 میں اپنے اسکولوں پر اس پابندی کا اطلاق کیا۔

بچوں کا ایکٹ 1989

اس قانون کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ بچوں کی فلاح اور ان کا مفاد ہر دوسرے معاملے پر مقدم سمجھے جائیں گے اور یہ کہ بچوں کی سب سے بہتر نگہداشت ان کے خاندان میں ہی ممکن ہے۔

1974 میں پہلی مرتبہ تمام علاقوں میں بچوں کی حفاظتی کمیٹیاں قائم کر لی گئیں 1991میں ان کمیٹیوں کے دائرہ کار کو بڑھا کر ہر اس معاملے کی چھان بین کرنے کا اختیار دے دیا گیا جس میں بچوں سے زیادتی کا شک ہو۔ یہ کمیٹیاں غیر محفوظ بچوں کو ان کے گھرانوں سے ریاستی تحویل میں لینے پر قادر ہیں۔ آسٹریلیا، کینیڈا سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کے تحفظ کے ملتے جلتے قوانین نافذ العمل ہیں۔

جنسی مجرموں کا رجسٹر

1994 میں امریکہ میں پہلا ایسا رجسٹر قائم کیا گیا۔ 1997 میں برطانیہ نے بھی یہ رجسٹر بنایا۔ 1999 میں برطانیہ میں بچوں کی حفاظت کا نیا ایکٹ پاس ہوا جس کے تحت ہر ادارے پر لازم ہے کہ وہ ایسی کسی سرگرمی کے لئے جس میں بچوں سے رابطہ ہوتا ہو نیا ملازم رکھتے سے پہلے یہ تصدیق کر لیں کہ اس فرد کا نام جنسی مجرموں کی فہرست میں تو موجود نہیں۔ یہ سرگرمی اسکول، اسپتال، پبلک ٹرانسپورٹ، اسپورٹس، ڈرامہ، موسیقی الغرض ہر اس شعبہ ء حیات سے ہو سکتی ہے جس میں بچوں سے میل جول کا امکان ہو۔ اس وقت بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک میں یہ رجسٹر قائم ہوچکے ہیں۔ کچھ ریاستیں تو اپنے رجسٹر پر موجود بچوں کے شکاریوں پر تھائی لینڈ، کمبوڈیا، فلپائن جیسے ممالک میں سفر کرنے پر پابندی لگانے کے اقدامات کر رہی ہیں جو بچوں کی جسم فروشی کے عالمی مراکز سمجھے جاتے ہیں۔

پاکستان اور گھریلو تشدد

ایک لمحہ کو بچوں کے مسائل کو چھوڑ کر 2016 کے پاکستان میں چلتے ہیں۔ اس وقت پاکستان عورتوں کے لئے دنیا کے تین خطرناک ترین ممالک میں گنا جا رہا تھا۔ صوبۂ پنجاب میں عورتوں پر پرتشدد جرائم میں بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا ایسے میں پنجاب حکومت نے صوبائی اسمبلی میں عورتوں کے تحفظ کا ایک بل پیش کیا۔ اس بل پر جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سخت مخالفت تاریخ کا حصہ ہے۔ تشویشناک امر ہے کہ دیگر مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں جماعت اسلامی کا پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کافی اثر و نفوذ رہا ہے۔

بچوں کے تحفظ (چائلڈ سیف گارڈنگ) کی لازمی تربیت

2004 میں بچوں کے ایکٹ کے نفاذ کے بعد سے بچوں کی سیف گارڈنگ کی لازمی تربیت برطانیہ کے ہر اس ادارے کے اسٹاف کے لئے لازمی ہے جس کا واسطہ بچوں سے پڑتا ہے۔ اس میں ہر طرح کا طبی عملہ، اسکولوں کے ملازمین، سوشل ورکرز، قانون نافذ کرنے والے ادارے شامل ہیں۔ یہ تربیت اسٹاف کو بچوں کے حقوق کا قانونی ارتقاء سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ وہ ظلم رسیدہ اور استحصال زدہ بچوں کی شناخت کرنا سیکھتے ہیں اور ان کے متعلق قانونی اور سماجی کارکنان کو مطلع کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

سیف گارڈنگ کا مطلب ہے کہ بچوں کو زیادتی اور بد سلوکی سے محفوظ رکھا جائے۔ اس زیادتی کی کچھ صورتیں یہ ہو سکتی ہیں :

٭ بچوں سے غیر قانونی سرگرمیاں کروانا جیسے منشیات فروشی، چوری وغیرہ
٭ جسمانی تشدد
٭ جنسی استحصال
٭ گھریلو تشدد
٭ نفسیاتی نقصان پہنچانا جیسے ڈرانا دھمکانا، تحقیر کرنا، استعمال کرنا
٭ بچوں کی ضروریات سے غفلت برتنا جیسے غذا، لباس، محفوظ رہائش، طبی امداد، تعلیم وغیرہ سے محروم رکھنا
٭ جنسی یا انٹرنیٹ پر مطلب برآری کے لئے بہلانا پھسلانا
٭ سائبر جرائم

٭ بچوں میں ایسے عقائد و نظریات ٹھونسنا جس سے وہ سمجھیں کہ اپنی بات پہنچانے کا واحد ذریعہ جرم کا ارتکاب اور دوسرے انسانوں پر حملے کرنا ہے۔ نسل پرستی، اسلاموفوبیا، یہود دشمنی، پرتشدد جہادی خیالات ان اعمال میں شامل ہیں۔

پاکستان میں بچوں کو جدید حقوق دلانے کا پہلا مرحلہ یہ ہوگا کہ قدامت پسند لابی کی مخالفت کی پروا کیے بغیر ایک دفعہ رضامندی کی عمر کا تعین کیا جائے، فی الفور بچوں پر جرائم میں ملوث افراد کا رجسٹر قائم کر کے انہیں بچوں کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا جائے اور تمام متعلقہ اداروں میں بچوں کی سیف گارڈنگ کی لازمی تربیت کا آغاز کیا جائے۔ یاد رکھئے کہ بچوں کے جدید حقوق کا ارتقاء پچھلے ڈیڑھ دو سو سال میں ہوا ہے۔ دنیا کی تمام اقوام کو جلد یا بدیر ان نئے قاعدوں اور قوانین سے ہم آہنگ ہونا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments