وہ کیوں عمران خان اور عوام کے بیچ میں آتا؟


الف آج سو کر اٹھا تو اس کا موڈ خراب تھا۔ شاید رات نیند نہ پوری ہونے کہ وجہ سے اس کے منہ پر بارہ بجے تھے، اس کی آنکھ ایک دوست کی کال سے کھلی تھی اور اب وہ چاہتا تھا کہ ناشتے کے بعد چند گھنٹے جاگتا رہے۔ اس نے اپنے فون پر انٹرنیٹ چلایا اور سوشل میڈیا اگنور کر کے اردو خبروں کی ایپ کھول لی۔ اس کے سامنے عمران خان کا بیان موجود تھا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ مغرب میں اسلاموفوبیا کی ریاستی سرپرستی کی جا رہی جس سے وہاں کے عام لوگ اسلام اور مسلمانوں کے سے نفرت کر رہے ہیں۔ الف کو ہنسی آئی لیکن وہ آگے بڑھا۔ اگلی خبر وزیراعظم کے خواتین سے متعلق بیان کی تھی جس میں وزیراعظم نے لباس کو ریپ سے جوڑا تھا اور اس کی وجہ کلچر اور مائنڈ سیٹ قرار دیا تھا۔ اس کے لیے یہ پرانی باتیں سہی لیکن قبل تبصرہ تھیں۔ اس نے بیٹھے بیٹھے ہی نوٹ پیڈ کھولا اور ٹائپنگ شروع کر دی۔

”انسانی تاریخ کی ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ جو قومیں اقتدار پر براجمان ہوتی ہیں، جن کا سکہ پوری دنیا پر رائج ہوتا ہے، تعلیمی، تہذیبی اور اخلاقی لحاظ سے بھی وہ پوری دنیا پر سبقت لے جاتی ہیں۔ سقراط، افلاطون، ارسطو۔ کتنے بڑے بڑے نام ہیں، سب کے سب یونان میں اس دور میں پیدا ہوئے اور نشوونما پائی جب یونان اپنی تاریخ کے عروج کے زمانے پر تھا۔ ان فلسفیوں کی وجہ سے یونان کو آج بھی ایک مقام اور مرتبہ حاصل ہے۔ ہولی رومن ایمپائر کا دنیا بھر میں طوطی بولتا تھا۔

اس کا زوال 536 کے سال کے اثرات و واقعات کے بعد ہوا۔ سلطنت تیزی سے زوال کی جانب رواں تھی اور مسلمانوں نے اس کی جگہ لے لی۔ ادیب اور تاریخ دان آج بھی روم کے قصے لکھتے اور لوگوں کو محظوظ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی بغداد اور قرطبہ کہ ریاستیں آس دنیا میں ایک مقام رکھتی تھیں اور مسلمانوں نے ہر فن اور علم کے اکابرین کو جنم دیا۔

پھر تاریخ نے پلڑا کھایا۔ مسلمان دن بدن علمی، تہذیبی اور اخلاقی لحاظ سے بدتر ہوتے چلے گئے اور جگہ لے لی یورپیوں نے۔ یورپ میں مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دے دیا گیا اور دنیا کو God Oriented سے Man Oriented بنا ڈالا۔ تسلیم کر لیا گیا کہ مادے کے علاوہ جوئی چیز وجود نہیں رکھتی، حتٰی کہ سوچ بھی مادے یعنی جسم کی محتاج ہے۔ ”وہ ابھی یہی چند سطریں لکھ سکا تھا کہ فون بجا اور اس کے ابا کا نام سکرین پر چمکنے لگا۔ اسے یہ کال لینی ہی پڑنی تھی۔

”ابا جان میرے پاس وہی چند ہزار تھے جو ایک پروجیکٹ کر کے مجھے ملے تھے۔ میں نے اگلے مہینے یہاں رہنا ہے تو مجھے ان کی ضرورت ہو گی۔ آپ کو ضرورت تھی تو میں نے فوراً دے دیے، اب مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بنا پیسوں کے میں کہاں رہوں اور کہاں نوکری کروں۔“ الف اب اپنے باپ سے فون پر بات کرتے ہوئے اپنی مشکلات بتا رہا ہے۔ اس کا باپ ایک غریب آدمی جس نے مشکلات میں رہ کر بھی اپنے بچوں کو تعلیم جیسے ہنر سے آراستہ کیا ہے۔

ان کا کاروبار کورونا کے بعد سے ٹھپ ہو چکا ہے اور اب وہ اپنے دو بچوں کو محنت مزدوری پر لگا چکے ہیں۔ خود بیمار رہتے ہیں۔ ابھی پچاس کے نہیں ہوئے، میرے ابو کی عمر کے ہیں لیکن بوڑھے ہو گئے ہیں۔ میں جب الف کو دیکھتا ہوں تو مجھے فخر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنھوں نے مشکلات میں دماغی طور پر مفلوج ہو جانے کے بجائے کوشش جاری رکھی۔

الف سے میری چند ہی ملاقاتیں ہوئی ہیں لیکن میں اسے جانتا ہوں۔ وہ ایک ذہین اور محنتی نوجوان ہے جس نے زندگی میں کچھ حاصل کر لینے کی اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ یونیورسٹی میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ کام بھی کرتا رہتا ہے کیونکہ اس کے گھریلو حالات اور معاشی تنگ حالی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ سکون سے بیٹھ کر کرکٹ یا نیٹ فلکس دیکھتا رہے۔ اس کے بقول وہ جب سے جامعہ پڑھنے آیا ہے اسے اپنے نخرے اب خود ہی اٹھانے پڑتے ہیں، مگر اب اس کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے اسے اپنے اخراجات بھی خود ہی اٹھانے پڑتے ہیں۔

وہ وظیفہ پر پڑھتا ہے لیکن ابھی تک اس کا وظیفہ بھی نہیں آیا جس کہ وجہ سے ابھی تک اس کی ٹیوشن فیس بھی نہیں جمعہ ہوئی، یونیورسٹی نے ایک تاریخ دے رکھی ہے جس کے بعد فیس نہ دینے والوں کو جاری سمیسٹر میں فیل قرار دے دیا جائے گا۔ امتحانات کے دوران جہاں وہ نوکری نہیں کر سکا، وہیں فیس نہ دینے کی وجہ سے فیل ہونے کا ڈر بھی اس کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔

فون کال سے فراغت پا کر وہ دوبارہ لکھنے لگا۔ وہ بلا کا ذہین تھا، اتنی ڈپریسنگ گفتگو جس کے بعد میرے جیسا شخص شاید اپنی بدحالی کا رونا روتا رہتا، وہ پورے فوکس کے ساتھ دوبارہ ٹائپ کر رہا تھا۔

”یورپ میں اس کے بعد Enlightenment اور Renaissance کے ادوار شروع ہوئے جس کے بعد یورپ نے بڑے بڑے فلسفیوں، دانشوروں اور مختلف علوم کے ماہرین کو جنم دیا۔ امریکہ آزاد ہوا تو تاریخ کی سب سے شاندار جمہوریت قائم ہوئی جس میں عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کیا گیا۔ اس کے بعد دنیا مغرب کے صنعتی اور سائنسی انقلاب کی بھی گواہ ہے۔ کالونیاں بنانے کی دوڑ نے ساری دنیا یورپ کی چھ ریاستوں کی مفتوح کر دی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکی کے علاوہ ساری مسلم دنیا یورپ کی غلام تھی، وہ فاتح تھے۔ انھوں نے پہلی جنگ عظیم کے بعد وہی کیا جو وہ فاتح مفتوح کے ساتھ کرتا ہے۔ انھوں نے من مرضی کہ ریاستیں بنا کر ان کی حدود بندی کی اور ہم آج تک ان ریاستوں اور حد بندیوں پر قائم ہیں۔

جن ممالک نے فسطائیت اختیار کی، انھیں متحدہ قوتوں نے کچل ڈالا، اقوام متحدہ کا ادارہ قائم کیا گیا اور فاتحین کو ویٹو کا حق دے دیا گیا۔ یہ کوئی جمہوری بنیادوں پر قائم کیا گیا نظام اور ادارہ نہیں ہے، بلکہ جو اس وقت دنیا کے فاتحین تھے انھوں نے باہم صلاح مشورے سے ایک نظام قائم کر دیا اور مفتوحین کو کچھ حقوق دے دیے، پہلے تو یہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ آج بھی دنیا پر سکہ انھیں ممالک کا چلتا ہے جنھیں اقوام متحدہ میں ویٹو کا اختیار حاصل ہے۔ نظام، حالات، دن اور واقعات بدل نہیں گیا۔ غلام آج بھی غلام ہیں، آزادی صرف الفاظ اور کہنے کی حد تک ہے۔ آپ آج ذرا امریکہ کے مفادات کے خلاف جا کر دکھائیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مجموعی اخلاقیات، تعلیم اور تہذیب میں آج بھی وہ ہم سے سینکڑوں برس آگے ہیں۔

ان کے فلسفے اور فکر کی بنیاد اتنی مضبوط اور منطقی ہے کہ ہم اس سے استفادہ کیے بنا رہ ہی نہیں سکتے۔ اسلاموفوبیا پر تفصیلی کالم پھر کبھی صحیح، لیکن آپ آج ریسرچ کر لیں کہ مسلمانوں کے دینی فکر میں ایسا کیا ہے جو انسانی حقوق ہی کے خلاف ہے؟ مسلمانوں میں جمہوریت کیوں قائم نہیں کی جا سکی؟ اگر حق حکمرانی عوام کے پاس نہیں تو کس کے پاس ہونا چاہیے؟ کسی شخص کے پاس، ادارے کے پاس یا کسی فرقے کا یہ اختیار مان لینا چاہیے؟

کیا وجہ ہے کہ ہمارے اندر انتہا پسند اور دہشتگرد پیدا ہوئے؟ اسلامی جماعتیں کیوں القاعدہ اور طالبان کی ہمدرد ہیں؟ ہم OIC کے سیشنز میں آپس میں ہی کیوں لڑتے رہتے ہیں؟ اگر کوئی کلمہ طیبہ پڑھ کر سر قلم کرے گا تو اس کے مذہب کے خلاف ڈر اور نفرت کے جذبات کیوں نہیں جنم لیں گے؟ کیوں ہماری عقل نہیں مان رہی کہ اسلامو فوبیا کوئی چیز نہیں ہے، کسی بھی مذہب کے لوگوں سے دشمنی یا عناد جب انتہا پسندی اختیار کرے تو یہ انسانیت فوبیا ہے، فسطائیت ہے، دہشتگردی ہے۔

اگر یہ پیمانہ سیٹ کر لیا جائے تو بتائیں سب سے بڑے انتہا پسند کون ہوں گے؟ ظالمو! اپنی اخلاقیات اور فکر کی ترویج بعد میں کرنا، پہلے دیکھو کہ تم کہہ کیا رہے ہو۔ مسلمان تب تک اسی طرح کی رومانوی اور غیر حقیقی گفتگو ہی کرتے رہیں گے جس طرح کی خان صاحب کرتے رہتے ہیں جب تک کہ ہم علمی، تہذیبی اور اخلاقی لحاظ سے ترقی یافتہ اقوام کے ہم پلہ نہیں ہو جاتے۔ ریاستیں مضبوط ادارے اور قانون کی بالادستی سے ترقی کرتی ہیں۔ قانون طاقتور کی لونڈی ہو تو ریپ یا قتل تو ایک طرف، خودکش دھماکے بھی ہو جاتے ہیں اور جواز بھی گھڑ لیے جاتے ہیں۔ ”

الف نے یہ سب لکھ لیا تھا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایسی باتیں کیوں لکھ رہا ہے۔ اسے تو کمانے کی خاطر پروڈکشن اور مارکیٹنگ میں اپنی صلاحیتیں نکھارنی تھیں، اسے کوئی قوم کی بہتری کا بیڑا تھوڑی اٹھانا تھا۔ اب تو پیغمبر بھی آنا بند کر چکے ہیں، انسانوں کو اچھائی اور برائی بیان ہو چکی ہے، تو وہ کیوں خون جلا رہا ہے؟ یہی سوچ کر اس نے سارا لکھا مواد ڈیلیٹ کر دیا اور دوبارہ سونے کے لئے لیٹ گیا۔ اسے شام کو رہنے کی جگہ اور نوکری تلاش کرنے کے لئے نکلنا تھا، اس کے اپنے بہت سے مسئلے تھے، وہ کیوں عمران خان اور عوام کے بیچ میں آتا؟ آخر نظریات اور اخلاقیات تو وہی ہوتی ہیں جو طاقت کے بل بوتے پر منوا لی جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments