عمران خان بے شک مفتی عزیز الرحمٰن کے وکیل ہیں!


عمران خان نے ایسے وقت میں ایک امریکی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے فحاشی اور کم لباسی کو پاکستان جیسے ملکوں میں ریپ کی اصل وجہ قرار دیا ہے جب لاہور میں ایک مدرسے کے مفتی کے خلاف اپنے ہی ایک طالب علم کے ساتھ جنسی زیادتی کی تحقیقات ہورہی ہیں۔ ایسے میں سوال تو بنتا ہے کہ ایک دینی مدرسہ میں مذہب کی تعلیم دینے والا معمر عالم دین جب ریپ اور جنسی استحصال کا سبب بنتا ہے تو اس کی عذر خواہی کیسے کی جائے گی۔

یہ سوال انٹرویو کے دوران وزیر اعظم کی حجت اور دلیل کے تناظر میں اہم اور ضروری ہوجاتا ہے۔ اس انٹرویو میں جو مؤقف اختیار کیا گیا ہے اس سے ایک تو یہ ثابت ہوا کہ ہر جرم کا کوئی عذر ہوتا ہے جیسے پاکستان میں کم لباسی اور فحاشی بقول عمران خان ریپ کا سبب بنتے ہیں جبکہ مغرب میں یہ عذر متعلقہ نہیں ہوگا کیوں کہ وہاں کے سماجی حالات مختلف ہیں۔ پاکستانی مرد اگر روبوٹ نہیں ہیں تو مغرب میں مردوں کو روبوٹ بنا دینے والے سماجی رویوں کے بارے میں بھی وزیر اعظم کو اپنے ارشادات عالیہ سے سرفراز کرنا چاہئے کیوں کہ وہ اس بات کے بھی دعوے دار ہیں کہ ان سے زیادہ مغربی ممالک کوکوئی نہیں جانتا۔

اس مؤقف پر ’کم ظرف‘ طرح طرح کی پھبتیاں کستے ہیں جن کا جواب دینے کے لئے تحریک انصاف کی خاتون لیڈروں کو پریس کانفرنس میں وزیر اعظم کے دینی حمیت سے لبریز بیان کی تائید کرنا پڑی ہے۔ اس سے قطع نظر اگر عمران خان اس پہلو کی وضاحت کرسکیں کہ مغربی ممالک کے مرد کیوں کر روبوٹ بن گئے اور وہ پاکستانی مردوں کی طرح ایک خاص طرز کا لباس نہ پہننے والی خواتین کو دیکھ کر کیوں بے قابو ہوجاتے ہیں تو پوری قوم جیسے پردہ کی اہمیت و ضرورت سے آگاہ ہورہی ہے ، ویسے ہی یہ بھی جان سکے گی کہ مرد روبوٹ کیسے بنتے ہیں۔ شاید کسی معاشرے کے مردوں کو روبوٹ بنانا عمران خان کے دینی اکتساب کے مطابق غیر انسانی اور غیر اخلاقی طریقہ ہو، اسی لئے انٹرویو کے دوران انہوں نے اصرار کیا کہ ان کا مسئلہ پاکستانی معاشرہ ہے اس لئے وہ اسی تناظر میں بات کرتے ہیں۔

وزیر اعظم کے اس مؤقف کے بعد مغربی تہذیب کے بارے میں وزیراعظم کے وسیع علم سے استفادہ کا فوری موقع تو شاید نہ مل سکے لیکن دینی مدرسوں یا اسکولوں میں ہونے والے جنسی ہراسانی کے واقعات کے بارے میں ضرور عمران خان کے زرخیز دماغ میں کوئی وجوہ موجود ہوں گی، جن کے خاتمہ سے شاید اس مجرمانہ ذہنیت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اس کا ایک حل شاید صوفی یونیورسٹیاں کھولنا اور نصاب کے ہر مضمون میں اسلامیات کی تعلیم شامل کرنا ضروری ہوگا۔ عمران خان حکومت اس حوالے سے پر جوش پیش رفت کرتو رہی ہے لیکن اس سے بھی اس سوال کا جواب دستیاب نہیں ہوسکے گا کہ ایک خالص دینی ماحول میں ایک معمر عالم دین کیوں کر بےراہروی کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہاں تو مرد کو روبوٹ بنانے کی ضرورت ہی نہیں کیوں کہ وہاں تو سارا ماحول ہی پر تقدس ہوتا ہے۔ استاد ہوں یا طالب علم وہ صرف دینی شعار کی بات کرتے ہیں، ان کا علم حاصل کرتے ہیں اور اسی کو اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں۔

اب اگر عمران خان کی عذر خواہی کے مطابق سماج کو مدرسے کے پر تقدس ماحول میں بدل دیا جائے تو اصولی طور پر ریپ اور جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آسکتا۔ لیکن ایک مفتی عزیزالرحمان کا عمل اور پولیس کے سامنے اعتراف جرم اس ’عمران خانی‘ نظریہ کو غلط قرار دے رہا ہے۔ اس کی وضاحت یقیناً عمران خان کے زرخیز دماغ میں موجود ہوگی، اب قوم کو اس تفصیل کا انتظار رہے گا۔ کیوں کہ مردانہ شہوانی ہوس کو معاشرے میں ایسا لباس پہننے والی خواتین کے ساتھ ملانے کا جو نظریہ عمران خان پیش کرتے ہیں، اسے عزیزالرحمان سیکس اسکینڈل باطل ثابت کرتا ہے۔ یوں تو ناقدین معاشرے میں جنسی بے رواہروی کی ایسی درجنوں مثالیں لا سکتے ہیں جن میں ذیادتی کا شکار ہونے والی خواتین نے ایسا ’ فحش یا بے پردہ‘ لباس نہیں پہنا ہوتا جو پاکستانی معاشرے کے ان نوجوانوں کو اشتعال دلا سکے جو عمران خان کے بقول روبوٹ نہیں بن سکتے اوروہ نیم عریاں خواتین کو دیکھ کر جنسی ہیجان میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو یہ ’کامن سنس‘ کی بات ہے۔ اسی کامن سنس کے نام پر عمران خان کو یہ وضاحت دینی چاہئے کہ کم سن بچے، یا مقدس مقامات پر جنسی ذیادتی کے واقعات ایسے کون سے ہیجان کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں جنہیں عرف عام میں ’بے حسی اور ذہنی بیماری ‘ کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔

انٹرویو کے دوران صحافی جوناتھن سوان کے ساتھ بحث میں عمران خان نے واضح کیا کہ وہ اپنے معاشرے کے حوالے سے بات کررہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کم لباس یا نیم عریاں عورتیں مغربی مردوں کے لئے جنسی دعوت کا سبب نہ ہوں لیکن وہ جانتے ہیں کہ پاکستانی مرد روبوٹ نہیں ہیں۔ اس لئے عورت کو برقع پہنانا اور مردوں کو دینی تعلیم دینا ہی اس مسئلہ کا حل ہے۔ لیکن جب یہ سانحہ کسی عورت کی بجائے کم سن بچے کے ساتھ گزرے اور واقعہ کسی گلی محلے کی بجائے مقدس کتابوں سے بھرے مدرسے کے کمرے میں پیش آئے تو اس کی عذر خواہی کے لئے ملک کے وزیر اعظم کون سی دلیل لائیں گے؟

اس استفسار کی ضرورت یوں پیش آتی ہے کہ عمران خان ملک بھر کے وزیر اعظم ہیں۔ سب کی نمائندگی کرنا اور ان کے مفادات کا خیال رکھنا ان کے فرائض منصبی کے علاوہ اس’اخلاقی ذمہ داری ‘ کا بھی حصہ ہے جو انہوں نے اصلاح معاشرہ کے نام پر اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔

 اس ذمہ داری کی روشنی میں ایک امریکی ادارے کے صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے وضاحت سے بتایا ہے کہ مغربی ممالک میں کیوں کر مرد روبوٹ بن گئے ہیں۔ وہاں ڈسکو ہیں اور تفریح کے دوسرے مقامات ہیں، اس لئے ان کے لئے عورتوں کو آزادی سے سماجی میل ملاپ کے دوران حریصانہ نگاہوں سے دیکھنا یا مجرمانہ فعل کا نشانہ بنانا عام نہیں ہوگا لیکن پاکستانی معاشرہ مختلف ہے۔ ہماری اپنی تہذیب وثقافت ہے۔ اس میں بے پردگی یا کم لباسی سنگین مسئلہ ہے جس کی ذمہ داری سو فیصد ایسے ’غیر سماجی‘ رویے اختیار کرنے والی خواتین پر ہی عائد ہوگی۔ یوں ملک کے وزیر اعظم ان ’مظلوم‘ مردوں کی وکالت کا فریضہ ادا کرنا اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتے ہیں جنہیں ان ’گمراہ‘ خواتین کے قصور کی سزا دی جاتی ہے۔ اگر سزا نہ بھی دی جائے تو بھی انہیں ریپسٹ کہہ کر ان کی ’توہین ‘ کی جاتی ہے۔

اس حجت اور کامن سنس کی بنیاد پر اختیار کئے گئے مؤقف کی وجہ سے اگر کل کلاں کسی عدالت میں ریپ کا کوئی ایسا مقدمہ پیش ہوتا ہے جہاں ایک نوجوان نے کسی ایسی لڑکی کو نشانہ بنایا ہو جس کا لباس اس کے خیال میں ’عریاں‘ تھا یا جس نے اسلام میں بتائی ہوئی پردے کی حرمت کا خیال نہیں رکھا تھا تو وہ شخص عدالت میں اپنے دفاع کے لئے ملک کے وزیر اعظم کے بیان کو حوالہ کے طور پر پیش کرسکتا ہے ۔ اس پر بھی اگر جج اس کی دلیل سے مطمئن نہ ہو تو وہ ووٹر اور پاکستانی شہری کے طور پر اپنا حق استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کو اپنی ’بے گناہی‘ کی گواہی دینے کے لئے بلانے کا مطالبہ کرسکتا ہے۔

ایسے میں مفتی عزیز الرحمان کہاں جائے؟ اس نے اپنی غلط کاری کا اعتراف کیا ہے۔ وہ بھی اس ملک کا ایک شہری ہے۔ یہ تو درست ہے کہ اس کا تعلق جمیعت علمائے اسلام (ف) سے رہا ہے لیکن اس پارٹی نے بھی برے وقت میں اس کا ساتھ دینے کی بجائے اس کی پارٹی رکنیت معطل کردی ہے۔ اب اس کی نگاہیں وزیر اعظم پاکستا ن کی رحم دلی اور مدلل مزاج کی طرف اٹھی ہوں گی۔ پاکستانی شہری کے طور پر اسے بھی اپنے ’جرم‘ کی عذر خواہی کا موقع ملنا چاہئے۔ پولیس حوالات میں قید مفتی عزیزالرحمان بھی سوچتا ہوگا کہ ملک کا وزیر اعظم اگر نوجوانوں کی بے اعتدالی کے لئے عذر اور حجت تلاش کرسکتا ہے تو وہ ایک بوڑھے مدرس کی غلط کاریوں کے لئے بھی کوئی مناسب دلیل لاسکتا ہوگا۔

عمران خان سب کے ساتھ مساوی سلوک کے داعی ہیں۔ اگر ایک نوجوان ریپسٹ کے گناہ کی وضاحت ان کا منصبی اور سماجی فرض ہے تو ایک مدرسے کے مفتی کو بھی اپنے وزیر اعظم سے انصاف کے اسی اصول کے تحت مساوی سلوک کی امید تو ہو گی۔ یہاں ان لاکھوں خواتین کا ذکر غیر ضروری ہوگا جو مرضی کا لباس پہننے کے بنیادی حق پر اصرار کرتی ہیں اور مردانہ بالادستی کے دعویدار معاشرہ میں مساوی سلوک کی خواہاں ہیں۔ ملک کا وزیر اعظم وسیع سماج سدھار کے لئے ایسی حجت کو قبول نہیں کرتا۔

یوں بھی ماحولیات کی وزیر مملکت زرتاج گل اور پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون ملیکہ بخاری نے وزیر اعظم کے مؤقف کو اسلامی و قومی روایات کے عین مطابق قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ عمران خان ملک میں خواتین کے حقوق کے سب سے بڑے چمپئین ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ جو لوگ عمران خان کے جراتمندانہ استدلال کو مسترد کررہے ہیں ، ان کا تعلق ’لبرل بریگیڈ‘ سے ہے جس کے خاتمے کے لئے تحریک انصاف کی خواتین نے سر سے کفن باند ھ لیا ہے۔ یوں پی ٹی آئی کے مردوں کے علاوہ خواتین بھی نام نہاد لبرلز کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔

مفتی عزیزالرحمان یہ بیان حلفی دے سکتا ہے کہ وہ کسی بھی صورت لبرل بریگیڈ کا حصہ نہیں ہے۔ پھر تو اسے بھی وزیر اعظم کی اعانت کا حق حاصل ہونا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments