پاکستان میں حکومتوں کو قومی اثاثے گروی رکھ کر قرض حاصل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟

تنویر ملک - صحافی، کراچی


بانڈز

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے سکوک بانڈز کے ذریعے ملک کے ہوائی اڈے اور موٹرویز کو گروی رکھ کر قرضہ حاصل کرنے کے منصوبے کی منظوری دی ہے۔

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی جانب سے اسلامی اصولوں سے مطابقت رکھنے والے سکوک بانڈ کی ذریعے پیسہ حاصل کرنے کا مقصد ملک کے بجٹ خسارے کو سہارا دینا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ملک کی پہلی حکومت نہیں ہے جو سکوک بانڈ کی ذریعے قرضہ حاصل کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے ادوار میں بھی سکوک بانڈز کے ذریعے قومی اثاثے گروی رکھ کر قرضہ حاصل کیا گیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف نے نواز لیگ کے دور میں اس پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن اب وہ خود اس پالیسی کے ذریعے قرضہ حاصل کر رہی ہے۔

حکومت کن اثاثوں کو گروی رکھ رہی ہے؟

پاکستان

پاکستان کی وزارت خزانہ کی دستاویز کے مطابق حکومت اگلے مالی سال میں 1200 ارب روپے (3.5 ارب ڈالر) کے مالی وسائل دیگر ذرائع سے حاصل کرنا چاہتی ہے جس میں سے ایک ذریعہ سکوک اجارہ بانڈز کی مدد سے رقم کا حصول بھی شامل ہے۔

دستاویز کے مطابق حکومت جن اثاثوں کے بدلے قرض حاصل کرنا چاہتی ہے ان میں لاہور کا علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ، اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ اور ملتان انٹرنیشنل ایئرپورٹ شامل ہیں۔

اسی طرح نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے زیر انتظام چلنے والے ان موٹرویز اور ہائی ویز کے بدلے میں بھی قرض لینا چاہتی ہے جو ابھی تک گروی نہیں رکھے گئے ہیں۔

پاکستان میں اب تک کتنے سکوک بانڈ جاری ہو چکے ہیں؟

پاکستان میں سنہ 2008 سے لے کر آج تک 32 بار سکوک بانڈز جاری کیے گئے اور حکومت نے اس کے ذریعے پندرہ سو ارب روپے سے زائد کا قرض حاصل کیا۔

ماضی میں جن نمایاں اثاثوں کو گروی رکھ کر قرض حاصل کیا گیا جن میں موٹروے ایم ون، ایم ٹو اور ایم تھری شامل ہیں اور ان کے علاوہ ساتھ جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ کراچی شامل ہے۔

سنہ 2008 کے بعد وفاق میں حکومت بنانے والی پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومتوں نے سکوک بانڈز جاری کر کے قرض حاص کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔

گذشتہ برس مارچ میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کراچی کی وہ زمین بھی گروی رکھ کر قرض حاصل کیا گیا جو ابھی زیر استعمال نہیں ہے۔

اسی طرح ملک میں پاور جنریشن اینڈ ڈسٹربیوشن کمپنیوں کے اثاثے بھی گروی رکھ کر قرض حاصل کیا گیا۔ گذشتہ برس حکومت نے مئی 2020 میں اجارہ سکوک بانڈ جاری کر کے دو سو ارب روپے کا قرض حاصل کیا تاکہ پاور سیکٹر کے بقایا جات ادا کیے جا سکیں۔

پاکستان

سکوک بانڈز کیا ہیں؟

سکوک بانڈ قرضہ لینے کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس میں قرض حاصل کرنے کے لیے ایک فزیکل اثاثہ گروی رکھنا پڑتا ہے۔ یہ قرض ایک فکسڈ ریٹ پر لینا پڑتا ہے جس کے عوض اثاثہ گروی رکھا جاتا ہے۔ قرض دینے والا پھر یہ اثاثہ حکومت کو مارکیٹ ریٹ پر لیز کر دیتا ہے۔

ریسرچ انسٹیوٹ اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کے چئیرمین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے بتایا کہ اسلامی بینکاری میں فکسڈ شرح سود نہیں ہوتی تاہم سکوک بانڈ میں مذہبی سکالرز نے اس کی منظوری دی ہے۔

انھوں نے بتایا کہا سکوک بانڈ میں ایک اثاثہ گروی رکھ کا قرضہ حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ بانڈ حکومت کی جاری کرتی ہے۔

انھوں نے یہ کہا سکوک بانڈ اس لیے زیادہ کامیاب ہوتا ہے کہ اسلامی بینکوں کے پاس پیسہ بہت ہے تاہم ان کے پاس سرمایہ کاری کے ذرائع کم ہوتے ہیں اس لیے وہ اس طرح کے معاملات میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔

سکوک بانڈ میں اثاثہ گروی رکھنے کے لیے اس کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے؟

لاہور

سکوک بانڈ کے ذریعے قرضہ حاصل کرنے کے لیے کیا اثاثہ گروی رکھا جاتا ہے کہ سوال پر ماہر معیشت محمد سہیل نے کہا کہ قرضہ دو طریقے سے لیا جاتا ہے جس میں ایک روایتی ذریعہ اور دوسرا اسلامک ذریعہ ہے۔

’روایتی ذریعے میں حکومت کی ضمانت کی کافی ہوتی ہے لیکن سکوک میں قرض ایک اثاثے کے سامنے دیا جاتا ہے کیونکہ اسلامی شریعت کے اصولوں کے تحت کسی اثاثے بدلے میں قرض دیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا دنیا بھر میں سکوک بانڈ اسی طریقہ کار کے مطابق چلتے ہیں۔

کیا سکوک میں اثاثہ گروی رکھا جاتا ہے، اس سوال کے جواب میں پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ اثاثہ گروی رکھے جانے کے عوض قرض فراہم کیا جاتا ہے کیونکہ اسلامی فناننشل سسٹم میں اثاثے کے بغیر قرض دیا ہی نہیں جاتا۔

سکوک بانڈ کے ذریعے قرض حاصل کرنے کے لیے اثاثے کا انتخاب کیسے جاتا ہے کے بارے میں محمد سہیل نے بتایا کہ اس میں اس اثاثے کی ویلیو دیکھی جاتی ہے تو اس کے ساتھ اس کا لیگل ٹائٹل بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے اور اس کے لیے حکومت کے شریعت مشیران حکومت کو تیکنیکی مشاورت فراہم کرتے ہیں۔

اثاثے گروی رکھ کر قرض حاصل کرنے پر سیاسی جماعتوں کا موقف

پاکستان میں اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کی جانب سے قومی اثاثے گروی رکھ کر قرض حاصل کرنے کی پالیسی پر ان جماعتوں کا موقف حکومت اور اپوزیشن میں مختلف رہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے پہلے پاکستان مسلم لیگ نواز کو قومی اثاثے گروی رکھنے اور قرض حاصل کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

وفاقی کابینہ کی جانب سے سکوک بانڈز کے اجرا کے لیے اثاثے گروی رکھنے کی منظوری کے بعد مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابقہ وزیر اطلاعات پرویز رشید نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر حکومت کا تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے بنائے ہوئے اثاثوں، موٹر ویز اور ہوائی اڈوں کو گروی رکھ کر حکومت سکوک بانڈز فروخت کر کے قرض حاصل کرے گی۔

مسلم لیگ نواز کے سیکریٹری جنرل اور اس کی حکومت میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے ہماری حکومت میں سکوک بانڈز کے جاری کرنے پر بہت سخت مخالفت کی تھی کہ یہ قومی اثاثے گروی رکھ کا قرض حاصل کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں تحریک انصاف کی حکومت کے سکوک بانڈ جاری کرنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ایک پہلو بہت تشویشناک ہے کہ یہ قرض لینے کی ایک اندھی پالیسی پر کاربند ہیں جس نے معیشت کو برا حال کر دیا ہے۔

ان کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت ٹیکسوں کی وصولی تو ڈھائی سالہ اقتدار میں نہیں بڑھا سکی لیکن اس نے ریکارڈ قرض حاصل کیا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی بینکوں کی قرضہ پالیسی: سرکار کے لیے کھلیں تجوریاں، مگر عوام کے لیے شرائط کے انبار

ریکوڈک کیس: پی آئی اے کے بیرون ملک اثاثے منجمد ہونے سے کیا فرق پڑے گا؟

نئے پاکستان پر قرض، واجبات کے بوجھ کا نیا ریکارڈ

پاکستان کی عوام پر بیمار معیشت کا کتنا بوجھ ہے؟

احسن اقبال نے کہا کہ قرض حاصل کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن اس کے ذریعے کیا منصوبے لگائے جاتے ہیں وہ اصل میں دیکھنا ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم نے قرضہ لیا تو پاکستان کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ رکھا اور ملک کو توانائی کے شعبے میں خود کفیل کیا یعنی اس قرض کو پیداواری شعبے میں لگایا۔

’تحریک انصاف کی حکومت کوئی ایک کام دکھائے کہ جس میں قرض کے ذریعے کوئی بڑا ترقیاتی کام کیا گیا ہو۔‘

وزیر اعلیٰ پنجاب کے اقتصادی امور، منصوبہ بندی و ترقی کے مشیر ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا سکوک بانڈز کے ذریعے قرض حاصل کرنا اسلامک فنانسنگ کا ایک ذریعہ ہے کہ جس میں اثاثہ گروی رکھ کر رقم حاصل کی جاتی ہے۔

قرض حاصل کرنے سے ملک قرضوں کے بوجھ میں دب جانے کے الزام پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا تھا کہ یہ نواز لیگ کی حکومت تھی کہ جو ملک کو قرضوں کی دلدل میں چھوڑ کر گئی۔

انھوں نے کہا کہ ہمارا پرائمری خسارہ فکس ہے جو کہ آئی ایم ایف کی پراجیکشن کے مطابق ہے اور اس کے تحت پرانے قرض اتارنے کے لیے نیا قرض لینا پڑتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کی پالیسی کی وجہ سے معیشت میں استحکام آرہا ہے اور ملکی اب ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

مسلم لیگ نواز کے دور میں اسکوک بانڈ کے ذریعے قرض حاصل کرنے کی پالیسی کو تحریک انصاف کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنانے اور اب خود یہ راستہ اختیار کرنے کے سوال پر ڈاکٹر سلمان شاہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

’حکومت کوئی بھی ہو بنیادی معاشی پالیسی ایک ہی ہے‘

سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں میں حکومت اور اپوزیشن کے بیانات میں تضاد پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ پاکستان میں چاہے پی پی ہو یا نواز لیگ یا پی ٹی آئی، ان سب میں ایک بات مشترکہ ہے کہ ان کی بنیادی معاشی پالیسی ایک ہے جس میں اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ شامل ہے۔

انھوں نے کہا کہ اپوزیشن میں رہ کر یہ پارٹیاں کچھ بھی کہتی رہیں، حکومت میں آ کر سب ایک ہی پالیسی اختیار کرتی ہیں جو اسکوک بانڈز کی پالیسی سے واضح ہے۔

قومی اثاثے گروی رکھ کر قرض حاصل کرنے کی پالیسی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صدیقی نے کہا کہ ملک کو چلانے کا صحیح طریقہ تو یہ ہے کہ ٹیکس زیادہ اکٹھا ہو اور اس کے ساتھ قومی بچت اور سرمایہ کاری ہو۔

‘لیکن کیونکہ ہمارے ملک میں یہ تینوں شعبے ترقی نہیں کر سکے اس لیے قرض لینا پڑتا ہے چاہے وہ آئی ایم ایف کا قرضہ ہو یا اسکوک کے ذریعے قومی اثاثے گروی رکھ کا پیسے حاصل کرنا ہو۔’

انھوں نے کہا موجودہ حکومت کے دور میں بھی وہی پالیسی جاری ہے۔ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق اس دور میں تو اشرافیہ کو نوازنے کا سلسلہ زیادہ بڑھ گیا ہے اور انھیں مختلف ایمنسٹی اسکیموں کے ذریعے نوازا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp