عورت کا مختصر لباس یا پھر مردوں کے ہوس آلود اور بے قابو جذبات


عورت کے کپڑے مختصر ہوں یا سر سے پاؤں تک چادر میں لپٹی عورت صدیوں سے مرد کی نظر میں اپنی ہوس بجھانے کی چیز رہی ہے۔

اب پاکستان کے پرائم منسٹر عمران خان کے ایک انٹرنیشل میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں یہ الفاظ ”عورت اگر مختصر لباس پہنے گی تو مرد کے جذبات بھڑکیں گے اور صرف روبوٹس ہی اپنے جذبات کو قابو رکھ سکتے مرد پر تو مختصر لباس کا اثر ہو گا“ نے پاکستان میں ایک نا ختم ہونے والی بحث کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ویسے میں یہاں یہ بتاتی چلوں یہ عمران خان کا عورت کے لباس پر یہ پہلا بیان نہیں تھا وہ اس سے پہلے بھی عورت سے متعلق ایسے بیانات دیتے رہے ہیں۔

میرے لئے عمران خان کے یہ الفاظ حیران کن نہیں ہیں۔ کوئی بھی ذی شعور شخص عمران خان کی زندگی کا مطالعہ کرے تو اسے سمجھ آ جاتی ہے۔ انھوں نے کبھی عورت کو اہمیت دی ہی نہیں۔ ان کے یہ خیالات ایک دم نہیں بدل گئے ان کی زندگی میں آئی لاتعداد خواتین اور تین شادیاں ان کی پرسنیلٹی کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔ وہ بار بار ایک لائن بولتے ہیں مجھ سے بہتر ویسٹ کو کوئی نہیں جانتا، کبھی ان سے کسی نے پوچھنے کی جسارت کی کہ سرکار اپ ویسٹ کو جاننا کسے کہتے ہیں؟

خیر اب تھوڑا آگے بڑھتے ہیں۔

میں نے اس ٹاپک پر ٹویٹر پر موجود خواتین اور مرد سے پوچھا۔ ان کی رائے لی کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے بیان پر کیا کہیں گے۔

مجھے یہ جان کر تھوڑی خوشگوار حیرت بھی ہوئی کہ جہاں ان کے اپنے پی ٹی آئی کے سپورٹرز کی بہت بڑی تعداد نے اس بیان سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ وہاں بہت سارے لوگ اسلام کو درمیان میں لا کر عمران خان کے بیان کا دفاع کرتے بھی پائے گئے۔ اور اختلاف کرنے والوں پر کفر اور اسلام سے دوری کے فتوے بھی لگاتے رہے۔

یہ کہتے رہے۔ اپ خود جو سکرٹ پہنتی ہیں۔ پاکستان سے باہر رہتی ہیں۔ اپ کیا جانیں اسلام کیا ہے وغیرہ۔

اور اگر میں نے جواب میں کہہ دیا کہ عمران خان کے پاس حکومت ہے۔ پاور ہے۔ ایک حکم صادر کر دے کہ اب سے سب خواتین پردہ کریں گی۔ تو جناب وہ خواتین و مرد منہ سے جھاگ نکالے میرے خون کے پیاسے نا ہو گئے۔ کہ ایک اکیلا عمران خان کیا کر سکتا ہے۔ ساری دنیا اس کے پیچھے پڑ جائے گی۔ یہ سب کا انفرادی فعل ہے۔ میں نے جواب میں کہہ دیا۔ چلیں وہ اپنی بہنوں اور اپنی پارٹی ممبرز کے لئے ہی حکم صادر کر دیں۔ کہ وہ آئندہ سے پردہ کریں گی۔ تاکہ وہ اسمبلی میں موجود دوسری پارٹیز کے مرد حضرات کے جذبات بھڑکانے کا باعث نا بنیں۔ جناب پھر کیا تھا ایک خاتون چیختی ہوئی بولیں

سفینہ اپ کو شرم آنی چاہیے ایسی بات کرتے ہوئے۔ اپ نے تو ”اپنے الفاظ سے ہی عمران خان کی بہنوں اور ان کی جماعت کی خواتین کا ریپ کر دیا ”

جی آپ لوگوں نے درست پڑھا مجھ پر یہ جملہ ادا کرنے کی وجہ سے ریپ کرنے کا الزام تک لگ گیا۔ ہم کون سے ڈرنے والے دن پیدا ہوئے ہیں۔ ہم نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دے ڈالا کہ میرے الفاظ سے تو چند خواتین کا ریپ ہوا۔ وہ جو آپ کے ملک کے وزیراعظم نے بیان دے کر پورے پاکستان کی خواتین کا ریپ کیا۔ اس کے بارے میں کیا کہیں گے۔

قصہ مختصر ہماری اس بحث کا انجام کچھ اچھا نہیں تھا۔ خیر ایسا تو ہوتا ہے پھر اس طرح کے کاموں میں۔
مرد حضرات عورت کے بارے میں کہتے پائے جاتے ہیں۔ عورت نا ہوتی زندگی بے رنگ ہوتی اس عورت کی چاہ کو پانے کے لئے مرد پاگل رہتا ہے۔ اگر مل گئی تو محبوبہ، اگر نا ملے تو بے وفا۔

اگر مرد ٹھکرا دیا جائے تو پھر عورت فحاشہ، آوارہ وغیرہ۔

چھت کی منڈیر پر کھڑی الہڑ جوان دوشیزہ ہو یا ٹیڑھی سیدھی بل کھاتی پگڈنڈیوں پر چلتی مٹیار ہو یا کالج، سکول کے یونیفارم میں ملبوس بچیاں ہوں شاید سب ہی مردوں کے جذبات بھڑکانے کا سبب بنتی ہیں۔

میری ناقص رائے میں اگر عمران خان پاکستان کا وزیر اعظم نا ہوتے اور یہ بیان دیتے تو اسے ایک شخص کا انفرادی بیان سمجھ کر اگنور کر دیتی۔ لیکن پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے یہ بیان کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔ وہ اپنی ذمے داریوں میں ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے مظلوم کو قصوروار اور ظالم کو بری الزمہ نہیں ٹھہرا سکتے۔

اب ہمارے معاشرے میں ان کے اس بیان کے بعد کریمنل مائنڈڈ لوگ اس کو اپنے فائدے کے لئے کھلم کھلا استعمال کر کے سارا الزام عورت ہر ڈال رہے ہیں۔ جیسے پی ٹی آئی کے علما و مشائخ ونگ کے مفتی قوی کی ایک نازیبا ویڈیو کے سوشل میڈیا پر چرچے ہیں۔ جس کا انھوں نے یہ کہہ کر دفاع کیا کہ ”اس خاتون نے مجھے گندے میسج کر کے میرے جذبات بھڑکائے اور پھر میری نازیبا ویڈیو بنا لی گئی“
اب ایسی معصومیت پہ کون نا مر جائے ہا ہا ہا۔۔۔۔

اپ ہم تھوڑا ہم عورت سے ہٹ کر اس بات پر آ جاتے ہیں۔ کہ روز آئے دن چھوٹے بچوں کے ساتھ ہونے والے ریپ کیسز ہماری سوسائٹی کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے۔ آج پھر ایک مشہور عالم علامہ مظہر حسین نجفی کی طالب علم کے ساتھ بد فعلی کی ایک نہیں دو نہیں پوری سات نازیبا ویڈیو منظر عام پر آئی ہے۔

ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔ کیا ان چھوٹے معصوم بچوں نے بھی مختصر لباس پہنا ہوتا ہے۔ اور ہو سکتا ہے۔ ان بچوں کی ہاف سلیوز والی شرٹ اور چھوٹی نیکر بھی ان مردوں کے جذبات بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا ہو۔

مولانا عزیز الرحمان کے بھی جذبات بھی 15 سال کے مدرسے کے طالب علم کیے مختصر کپڑوں کو دیکھ کر ہی مجروح ہوئے ہوں گے۔ تبھی تو وہ مسلسل ایک طالب علم کو پاس کر دینے کا لالچ دے بدفعلی کرتے رہے اور پکڑے جانے پر قرآن پر جھوٹا حلف دیتے رہے۔ کیا ان دین کے ٹھیکیداروں نے اسلام کو صرف دوسروں پر فتوے اور اپنے بچاو کے لئے ہتھیار نہیں سمجھ رکھا۔ دوسروں کو یہ باتیں فرشتے بننے کی کرتے ہیں اور خود حرکات ایسی کہ شیطان بھی شرما جائے۔

ایسے اسلام کے ٹھیکیداروں کو دوسروں سے زیادہ اور سخت سے سخت سزائیں دینی ہوں گی۔ کیونکہ یہ مساجد ہمارے مدرسے وہ واحد جگہ ہے جہاں والدین اپنے بچوں کو آنکھ بند کر کے اس یقین کے ساتھ چھوڑ کے جاتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا گھر ہے۔ ہمارے بچے اللہ کی پناہ میں ہیں۔ خدارا ایسے واقعات کے بعد اسے اسلام پر حملہ اور مدارس کے خلاف سازش کہہ کر دبانے کی کوشش مت کریں۔ ہمیں ماننا ہو گا کہ ہمارے بچے مساجد اور مدارس میں محفوظ اس لئے نہیں ہیں کیونکہ وہاں پر درندہ صفت انسان ان معصوم بچوں کو درندوں کی طرح نوچ رہے ہیں۔

یہ سب خواتین کے مختصر لباس کی وجہ سے تو بالکل بھی نہیں ہو رہا۔ کیونکہ اگر ایسا ہو رہا ہوتا تو پاکستان میں روزانہ 6 سے 15 سال کے 8 بچے جنسی زیادتی کا شکار نا ہو رہے ہوتے۔ کیونکہ یہ بچے تو اتنے معصوم ہوتے ہیں نا تو وہ اپ کے بھڑکتے جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور نا ہی اپ کے جذبات کو بھڑکانے کی قابلیت رکھتے ہیں۔

میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی یہ درندے ہمارے معاشرے میں ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ کیا ہماری سیاسی پارٹیوں میں خواتین کا استحصال نہیں ہوتا؟ کیا دفاتر میں ہاسپٹلز میں سکول میں ہمارے بچے ہماری مائیں، بہنیں محفوظ ہیں؟ میرا جواب ہے بالکل بھی نہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں نوجوان کی تنگ جینز نے بھی ضرور اس کے باقی ساتھیوں کے جذبات بھڑکائے ہوں گے تبھی تو اس نوجوان کا گینگ ریپ کیا گیا۔

معاشرے عورتوں کے لباس کے مختصر ہونے یا نا ہونے سے خراب نہیں ہوتے۔ معاشرے میں حکومتیں اور حاکم وقت اپنے فرائض سے غافل ہو جائیں۔ جب ادارے انصاف نا کر پائیں۔ تو پھر بچے، بچیاں اور بہن، بیٹیاں اپنے والد، بھائی، چاچا، اور ماموں کی درندگی سے بھی نہیں بچ سکتے۔ جب تک ہم ایسے کرداروں کو عبرت ناک سزائیں نہیں دیں گے۔ یہ جنسی درندگی کا کاروبار دن دوگنی رات چگنی ترقی کرتا رہے گا۔ درندوں کے حوصلے بڑھتے رہیں گے۔ عورت کو کمزور کہنا اور سمجھنا چھوڑ دیں۔ سوچیں جس عورت کا لباس ہی اپ کو بہکا دے۔ جیسے دیکھ کر اپ اپنے جذبات قابو میں نا رکھ پائیں وہ خود کتنی طاقتور ہو گی۔ یہ الگ بات ہے کہ یہی عورت اپنے باپ، بھائی، بیٹے شوہر کی خاطر کبھی ونی کر دی جاتی ہے۔ تو کبھی گھر کی وراثت بٹ جانے کے ڈر سے ساری زندگی بھائیوں کی چوکھٹ پر پڑی رہتی ہے۔ دل پہ ہاتھ کر رکھ کے بتائیں کیا یہ قربانیاں خود کو طاقتور کہنے والا مرد کر سکتا ہے؟ نہیں۔

عورت کو جو عزت اور مقام میرے رب نے میرے دین نے دیا ہے۔ وہ تو شاید اپنا وہی حق مانگتی ہے کہ اسے بھی گوشت کا لوتھڑا سمجھنا چھوڑ دیا جائے۔ اسے بھی بھائی، باپ، شوہر اور بیٹے کی عزت کی خاطر قربان کرنا چھوڑ دیں۔ کیونکہ مرد ہی نہیں عورت بھی اشرف المخلوقات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments