گلگت کا آخری بدھ مت حکمران شری بدت کیا واقعی آدم خور تھا؟


گلگت بلتستان کے قدیم افسانوں میں شری بدت کا افسانہ سب سے مشہور ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ قدیم بدھ مت دور کے حکمرانوں میں شری بدت واحد حکمران ہے جس کا نام آج بھی زندہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک کرشماتی شخصیت کا مالک تھا شاید اس لئے اس کے مخالفین نے اسے فوق البشر، جادوئی طاقت کا حامل بدروح اور آدم خور قرار دیا۔

اکثر لکھاریوں نے گلگت کے آخری بدھ مت حکمران شری بدت کو مقامی روایات کا حوالہ دیتے ہوئے بدی کا پیکر اور ایک آدم خور کے طور پر پیش کیا ہے جبکہ ایک سازش کے تحت شری بدت کے خلاف مقامی آبادی کو اکسا کر شری بدت کے محل کو آگ لگانے والے آذر جمشید کو ایک پری زاد اور مسیحا کے روپ میں پیش کیا ہے۔

شری بدت کے قاتل شہزادے کے بارے میں جان بڈولف لکھتے ہیں کہ ”روایت کے مطابق شری بدت کی ظلم و جبر کے دوران ایک سیاح وادی گلگت پہنچ جاتا ہے جس کے متعلق ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ اجنبی شخص پرشیا ( فارس) کی طرف سے آیا تھا جس کا نام آزر جمشید تھا۔ اس نے وادی گلگت کے لوگوں کو شری بدت کے خلاف اکسایا اور ایک کامیاب سازش کے ذریعے شری بدت کا قتل کیا اور اس کی بیٹیMiyokhay سونی ( شہزادی) کے ساتھ شادی کر کے خود گلگت کا حکمران بن گیا“ ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شری بدت کے کردار کو بدی کا پیکر کے طور پر پیش کرنے کے پیچھے اس دور کے مختلف سماجی، معاشی اور سیاسی مقاصد پوشیدہ تھے اس لئے 740۔ 749 صدی عیسوی کے ان معروضی حالات کا جائزہ لینا لازمی ہے جن سے ریاست بلور دوچار ہوئی تھی۔

جرمنی کی یونیورسٹی آف فریبرگ کے پروفیسر آسکر وان ہنبر کے بقول 745 صدی عیسوی میں پھیلتی ہوئی تبت کی سلطنت نے ریاست بلور پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں بلور ریاست ٹوٹ گئی۔

شری بدت کا دور حکومت بلور ریاست کے ٹوٹنے کے صرف چار سال بعد یعنی 749 صدی عیسوی کی ہے یعنی یہ ایک جنگ سے تباہ حال معاشرہ تھا اور ریاست بلور کی دستیاب تاریخ کے مطالعے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ درحقیقت گلگت کی وادیوں میں 740۔ 747 صدی عیسوی میں لڑی گئی تبتی اور چینی جنگ کے نتیجے میں ریاست بلور ٹوٹ گئی تھی۔

لیٹل بلور پر قبضہ کرنے کے لئے گلگت کی وادیوں میں تبت اور چین نے 747 صدی عیسوی میں ایک خونی جنگ لڑی جس میں تبت کو چین نے شکست دیا۔

گلگت کی وادیوں میں لڑی گئی اس تاریخی جنگ کے بارے میں Susan Whitfield نے اپنی کتاب
بعنوان Life Along the Silk Road میں دلچسپ حقائق بیان کیے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے شائع شدہ اس کتاب میں The Soldier ’s Tale
SEG LHATON، 747۔ 790

کے عنوان سے اس جنگ کے بارے میں وہ رقم طراز ہے کہ سیگ لاتن تبت کے ان جنگی صفوں میں شامل تھے جنہوں نے چینی حملہ کا سامنا کیا تھا۔

وہ ایک اور دن اس جنگ کی کہانی یوں بیان کرتا ہے کہ ”تبتیوں نے ان چھوٹی وادیوں کی سلطنتوں پر اپنی راج قائم کیا تھا جو ان راستوں کو کنٹرول کرتا ہے جو دریائے گلگت کے راستے سے شمالی ہندوستان کی طرف گامزن ہیں۔

740 صدی عیسوی کی دہائی کے اوائل میں تبتی فوج کو کئی بار ان وادیوں میں چینی فوج کا سامنا کرنا پڑا اور ہمیشہ تبتی فوج فاتح رہی مگر 747 صدی عیسوی کے موسم گرما میں وہ اتنے خوش قسمت نہیں تھے کہ انہیں فتح حاصل ہو۔

سیگ Lhaton کو یہ جنگ واضح طور پر یاد ہے کہ ان کی فوج نو ہزار افراد پر مشتمل تھی جو ان پہاڑوں کے اندر چین کے ساتھ برسر پیکار تھے ”۔

گلگت کی وادیوں میں 747 صدی عیسوی میں چین اور تبت کے درمیان لڑی جانے والی اس جنگ میں چین کے دس ہزار افواج کو جنرل Gao کمانڈ کر رہا تھا اور تبت کے نو ہزار زرہ بکتر بند افواج نے اس جنگ میں حصہ لیا تھا یہ جنگ Little Balur میں لڑی گئی لیکن 747 صدی عیسوی کے موسم بہار میں لڑی گئی اس لڑائی میں تبتی اتنے خوش نصیب نہیں ٹھہرے کہ انہیں کامیابی ملے۔ اس جنگ میں چین نے تبت کو شکست دیا۔

( ریاست بلور کی اپنی ایک منفرد تاریخ ہے جس کے متعلق میرا مقالہ ریاست بلور کی گمشدہ تاریخ کے عنوان سے سر بلند نامی علمی مجلہ جلد اول میں شائع ہوا ہے اس علمی مجلہ کو ادارہ برائے تعلیم و ترقی بحرین سوات نے شائع کیا ہے۔ )

تاریخی حقائق سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ تبت اور چین کے درمیان ریاست بلور میں لڑی گئی اس جنگ میں نہ صرف بلور ریاست ٹوٹ گئی بلکہ لیٹل بلور کے آخری حکمران شری بدت کے خلاف بیرونی دشمنوں نے ایک سازش کے تحت اس سے آدم خور کے روپ میں عوام کے سامنے پیش کیا اور مقامی آبادی کو اس کے خلاف اکسا کر ایک رات اس کے محل پر آگ لگائی۔

لیکن یہاں پر یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی شری بدت ایک آدم خور تھا یا پھر بیرونی جارحیت کے لئے راستہ ہموار کرنے کے لئے یہ محض اس کے دشمنوں کی طرف سے پھیلایا گیا ایک نفرت انگیز جھوٹا پروپیگنڈا تھا؟

اس اہم سوال پر اسکالرز میں دو طرح کی رائے پائی جاتی ہے مثال کے طور پر شری بدت پر کیلیفورنیا یونیورسٹی امریکہ سے ڈاکٹریٹ کرنے والے سکالرJohn Mock، Ph۔ D کے بقول ”گلگت کے آخری بدھ مت بادشاہ شری بدت کو آدم خور بنا کر پیش کرنے کا مقصد پرانے معاشرتی نظام کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا کرنا تھا تاکہ ماضی سے عوام کے تعلق کو توڑ کر نئے معاشرتی نظام کی توثیق اور قبولیت کے لئے راستہ ہموار کیا جاسکے“ ۔

دوسری طرف گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے دانشور عزیز علی داد اپنے تحقیقی مقالہ بعنوان Cannibalism In Gilgit میں شری بدت کے افسانے کے متعلق لکھتے ہیں کہ ”سب سے زیادہ امکان یہ ہے کہ اس کے دور حکومت میں یہاں قحط سالی پیدا ہوئی ہو، جس نے لوگوں کو اپنی بقا کے لئے نربہ خوانی پر مجبور کیا ہو۔ ممکن ہے کہ قحط نے خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کیا ہو ایک ایسی خانہ جنگی کی صورتحال جہاں ہر ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار ہو جس نے اس ریاست کو تباہ کر دیا ہو“ ۔ عزیز کا کہنا ہے اس آدم خوری کی باقیات شینا اور دیگر زبانوں میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر شینا میں خانہ جنگی جیسے حالات کو ”اک سے اک کھوک“ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ایک دوسرے کو کھانے کے ہیں۔ اس میں کھانا لازمی نہیں کہ انسان کا گوشت ہی کھائیں بلکہ یہ قتل غارت کی کیفیت کو کہا جاتا ہے۔

مشہور فلاسفر تھامس ہوبس اپنی شاہکار کتاب لیویتھن میں اس طرح کی صورتحال کے متعلق لکھتے ہیں کہ انسان کی فطری حالت جنگ اور تنازعات میں سے ایک ہے، جب تک کہ معاشرتی زندگی کے اصولوں پر عمل نہیں کیا جاتا ہے۔

مشہور فلاسفر تھامس ہوبس اپنی شاہکار کتاب لیویتھن میں اس طرح کی صورتحال کے متعلق لکھتے ہیں کہ انسان کی فطری حالت جنگ اور تنازعات میں سے ایک ہے، جب تک کہ معاشرتی زندگی کے اصولوں پر عمل نہیں کیا جاتا ہے۔

بقول تھامس ہوبس معاشرتی معاہدہ کا عہد ختم ہونے کے ساتھ ہی، معاشرے کا ٹکراؤ ہو جائے گا اور پھر ہر آدمی ہوگا ہر ایک کے خلاف، اور اس کا نتیجہ لامحالہ ایک ایسی حالت جنگ کا ہوگا کہ ”قانون کی حکمرانی کے بغیر، انسان کی زندگی تنہائی، غریب، گندی، سفاک اور مختصر ہوگی۔

ان تاریخی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ عین ممکن ہے کہ ریاست بلور کا معاشی نظام اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گیا ہو اور ریاست قحط سالی کا شکار ہوئی ہو جس کے نتیجے میں معاشرہ فطری حالت جنگ کی لپیٹ میں آ گیا ہو اور اندرونی خانہ جنگی نے معاشرے میں قتل و غارتگری جیسے حالات پیدا کیے ہوں کیونکہ قانون کے بغیر انسان حیوان سے بھی بدتر ہے اور قانون کے اپنے وجود کا انحصار ریاست پر ہے۔

عزیز علی داد کے نقط نظر کے مطابق بیرونی مسلط شدہ جنگ اور قحط سالی نے اندرونی خانہ جنگی کو جنم دیا ہو اور شری بدت کے ظالمانہ طرز حکمرانی کی وجہ سے ریاست اور معاشرے کی داخلی کمزوریوں نے ایک نئی ریاست کے لیے بنیاد مہیا کی ہو اور خارجی طاقتوں کو اپنے مفاد میں ان کا استحصال کرنے کا موقع فراہم کیا ہو اور وہ معاشرہ اندرونی تنازعات اور سازشوں کے ذریعہ کرایہ پر دستیاب تھا چنانچہ شری بدت کی بیٹی اور اس کے وزیر نے اس کے قتل کی سازش میں اہم کردار ادا کیا۔

الغرض تاریخی شواہد کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ شری بدت دراصل لیٹل بلور ریاست کا آخری مقامی بدھ مت حکمران تھا جس کا اصلی نام چندرا شری دیوا وکرما دیتہ تھا جس سے گلگت بلتستان کے مقامی لوگ شری بدت کے نام سے جانتے ہیں۔

شری بدت کا افسانہ دراصل بدھ مت دور کا افسانہ ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں نے اپنی طرف سے مافوق الفطرت باتیں شامل کی ہیں۔

گلگت کی وادیوں میں 740۔ 747 صدی عیسوی میں لڑی گئی تبتی اور چینی جنگ کے نتیجے میں معاشرہ فطری حالت جنگ کی لپیٹ میں آ گیا تھا لہذا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ریاست بلور ٹوٹنے کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک کامیاب سازش کے تحت بیرونی افراد نے لیٹل بلور ( گلگت ) کے آخری مقامی حکمران شری بدت کو آدم خور قرار دے کر آبادی کو اس کے خلاف متنفر کر کے اپنے حق میں استعمال کیا اور مقامی حکومت کا خاتمہ کیا جس کے ثمرات نسل در نسل ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

نوآبادیاتی دور حکومت میں ہر اس بات کو فراموش کرنے اور مٹانے کی کوشش کی گئی جو اس خطے کے عوام میں باہمی ہم آہنگی اور اتحاد میں شدید دلچسپی اور محبت محسوس کرا سکتی تھی اس لئے مقامی افسانوں میں بھی مقامی حکمرانوں کو شیطان کی روپ میں پیش کیا گیا

اور بیرونی حملہ آوروں اور قاتلوں کو مسیحا بنا کر پیش کیا گیا جو کہ نوآبادیاتی سوچ اور کردار کی عکاسی کرتی ہے اس لئے اس طرح کی سوچ، فلسفہ اور بیانیہ کو چیلنج کرنا نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ اس کے تدارک کے لئے اپنے خطے کی مشترکہ ہزاروں سال قدیم گمشدہ تاریخ کو از سر نو تشکیل دینا وقت کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments