اختر الایمان کی نظم ”مسجد“ ایک جائزہ


اختر الایمان جدید اردو شاعری کے ایسے منفرد و ممتاز شاعر ہیں، جن کی شاعری جدید اردو ادب میں ایک مستقل عنوان کی حیثیت رکھتی ہے۔ نہ صرف ان کے شعری تجربے بلکہ ان کی نظموں کی تکنیک نے بھی پوری جدید اردو شاعری کو متاثر کیا ہے۔ ان کی شاعری کا بنیادی رویہ تہذیب اور معاشرے میں سماجی اور نفسیاتی اقدار کی کشمکش اور تصادم سے عبارت ہے۔ شکست و ریخت اور داخلی و خارجی ہیجانات کے عہد میں اختر الایمان نے انسانی زندگی میں نا برابری، ذہنی دباؤ اور جذباتی تنہائی کے تجربوں کو شعری پیکروں میں ڈھال کر اردو شاعری کو ایک نئے تجربے سے روشناس کرایا ہے۔

اختر الایمان کی یہ نظم ابتدائی نظموں میں سے ہے یہ نظم شعریت سے بھرپور ہے۔ اس نظم کا موضوع وقت کی جبلت اور قدروں کی شکست و ریخت ہے۔ وقت کے بے رحم اور ناگزیر عمل سے جنم لینے والا وہ المیہ جس کے سامنے ہر مدافعتی قوت بے معنی ہوتی ہے اس نظم کا محرک قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس نظم میں وقت کے گزر جانے اور تغیر و تبدل کا شدید احساس متاثر کن ہے۔ ماضی تاریخ بن جاتا ہے اور وہ جبر و شکست و ریخت جو بیت چکی ہو لیکن اس کے اثرات باقی ہوں تب بھی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ نظم ایک شکستہ اور ویران مسجد کا خاکہ پیش کر رہی ہے۔ یہ نظم کچھ یوں ہے :

دور برگد کی گھنی چھاؤں میں خاموش و ملول جس جگہ رات کے تاریک کفن کے نیچے
ماضی و حال گنہ گار نمازی کی طرح اپنے اعمال پہ رو لیتے ہیں چپکے چپکے
ایک ویران سی مسجد کا شکستہ سا کلس پاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہے
اور ٹوٹی ہوئی دیوار پہ چنڈول کبھی گیت پھیکا سا کوئی چھیڑ دیا کرتا ہے
گرد آلود چراغوں کو ہوا کے جھونکے روز مٹی کی نئی تہہ میں دبا جاتے ہیں
اور جاتے ہوئے سورج کے وداعی انفاس روشنی آ کے دریچوں کی بجھا جاتے ہیں
حسرت شام و سحر بیٹھ کے گنبد کے قریب ان پریشان دعاؤں کو سنا کرتی ہے
جو ترستی ہی رہیں رنگ اثر کی خاطر اور ٹوٹا ہوا دل تھام لیا کرتی ہے
یا ابابیل کوئی آمد سرما کے قریب اس کو مسکن کے لیے ڈھونڈ لیا کرتی ہے
اور محراب شکستہ میں سمٹ کر پہروں داستاں سرد ممالک کی کہا کرتی ہے
ایک بوڑھا گدھا دیوار کے سائے میں کبھی اونگھ لیتا ہے ذرا بیٹھ کے جاتے جاتے
یا مسافر کوئی آ جاتا ہے وہ بھی ڈر کر ایک لمحے کو ٹھہر جاتا ہے آتے آتے
فرش جاروب کشی کیا ہے سمجھتا ہی نہیں کالعدم ہو گیا تسبیح کے دانوں کا نظام
طاق میں شمع کے آنسو ہیں ابھی تک باقی اب مصلٰی ہے نہ منبر نہ مؤذن نہ امام
آ چکے صاحب افلاک کے پیغام و سلام کوہ و در اب نہ سنیں گے وہ صدائے جبریل
کھو گئی دشت فراموشی میں آواز خلیل چاند پھیکی سی ہنسی ہنس کے گزر جاتا ہے
ڈال دیتے ہیں ستارے دھلی چادر اپنی اس نگار دل یزداں کے جنازے پہ بس اک
چشم نم کرتی ہے شبنم یہاں اکثر اپنی ایک میلا سا اکیلا سا فسردہ سا دیا
روز رعشہ زدہ ہاتھوں سے کہا کرتا ہے تم جلاتے ہو کبھی آ کے بجھاتے بھی نہیں
ایک جلتا ہے مگر ایک بجھا کرتا ہے تیز ندی کی ہر اک موج تلاطم بردوش
چیخ اٹھتی ہے وہیں دور سے فانی فانی کل بہا لوں گی تجھے توڑ کے ساحل کی قیود
اور پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی

دراصل مسجد ماضی کی اعلی قدروں کا اعلامیہ ہے۔ نیز رعشہ زدہ ہاتھ ان قدروں کا ایسا امین ہے جو مرنے کے قریب ہے اور ٹوٹا ہوا کلس پاس بہتی ندی کو تکا کرتا ہے ندی کو تکنا وقت کا استعارہ ہے وقت جو مسلسل گزر جاتا ہے رکتا نہیں ہے وقت کے آ گے ہمیشہ انسان کو جھکنا پڑتا ہے۔ اس نظم کا ایک نفسیاتی پہلو بھی ہے وہ یہ کہ اختر الایمان کا تعلق مذہبی گھرانے سے تھا اور وہ حافظ قرآن تھے اس لیے اختر کا لڑکپن مسجد اور مدرسوں میں گزرا۔

گاؤں کی مسجد، برگد کا پیڑ، کڑوے تیل کے دیے، گرنے والا کلس یہ سب چیزیں ان کی نفسیات کا حصہ ہیں۔ لہذا نظم مسجد جہاں ایک تاریخ ہے وہی اختر کی اپنی نفسیات اور نفسیاتی تسلسل کا عکس ہے۔ اختر الایمان کہا سے کہا تک پہنچا ایک مدرسے کی طالب علمی سے فلم انڈسٹری کے شعبے تک لیکن ان کے اندر کی وہ کیفیت یا شخصیت جو ان کے وجود میں گھر کر چکی تھی وہ آخری لمحوں تک قائم رہی۔

مسجد مذہب کا اعلامیہ اور ان قدروں اور چیزوں کا نشان ہے جس کی آج ہمارے معاشرے میں قلت ہے۔ لہذا مسجد کا شکستہ کلس، ٹوٹی ہوئی دیواریں، شکستہ محرابیں، چڑیوں کے گھونسلے اور طاقوں میں بجھی ہوئی شمعوں کے آثار جہاں وقت کی تباہ کاریوں کی داستان سنا رہے ہیں وہی دوسری طرف موسم سرما میں اپنے مسکن کے لیے منتخب کرنے والی ابابیل سرد ملکوں کی داستان سناتی ہے۔ اس لیے قاری کا ذہن مذہب اور ایک زوال پذیر تہذیب کی عظمت رفتہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک نقطہ ذہن میں آتا ہے کہ ابابیل جیسے کمزور پرندے کا آخر امن اور زندگی اسی مسجد یعنی مذہب میں ملتی ہے۔

ایک طرف دیوار پر چنڈول بیٹھا ہے اور دوسری طرف دیوار کے سائے میں سستانے والا گدھا اور سستانے کی غرض سے آنے والا خوف زدہ مسافر اور ہر شام کو دیا روشن کرنے والا رعشہ زدہ ہاتھ ایک طرف تاریخ کا نوحہ ہے تو دوسری طرف زندگی کی رگوں میں دوڑنے والا احساس اور امید بھی ہے کہ دنیا ابھی مذہب سے خالی نہیں ہوئی اور مذہب نے ایک صاحبان مہیا کر رکھا ہے سستانے کے لیے ایک جگہ دی ہوئی ہے لہذا یہ مسجد امید اور مسرت کا ایک استعارہ بھی ہے۔

یہ نظم مسجد، ندی اور رعشہ زدہ ہاتھ علامتیں ہیں ایک مسجد کا اشاریہ ہے دوسرا وقت کی روانی کا اور تیسرا دم توڑتے ہوئی مذہبی رجحانات کا اشاریہ ہے۔ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے اور پیش کرنے والا ایک دکھ، درد اور کرب میں مبتلا ہے اس داستان میں امید کی رمق تو باقی ہے لیکن اس کی نفسیاتی الجھنیں ایک دوسرا پیغام دے رہی ہیں اور یہ پیغام ہمارا آج ہے۔ یہ نظم حال کی کہانی بیان کر رہی ہے۔ یہ نظم مٹتی ہوئی قدروں کا المیہ ہے جسے انجام کار اپنے ہاتھوں انجام دے رہا ہے کیونکہ وہ دنیاوی جاہ و جلال کو حاصل کرنے میں خود کو اس قدر محو کر چکا ہے کہ اسے اپنے پروردگار کی یاد بھی نہیں آتی اور یہی انسان کی ذہنی پستی ہے۔ انسان نے دنیاوی دولت و ثروت کے لیے انتہائی کوششیں کیں اور ان کوششوں کی بدولت مذہب سے بیگانگی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس نظم میں مسجد مرکزی کردار ہے مسجد کو بنانے والے بھی انسان ہیں اور اس کو ویران کرنے والے بھی انسان ہی ہیں۔

اس نظم کے ذریعے شاعر نے سوئی ہوئی عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے موجودہ دور انٹر نیٹ کا دور ہے اس نے انسان کو بہت حد تک لاچار کر دیا ہے اور وہ انہی تمام آ لات کو زندگی سمجھ بیٹھا ہے اسی کی بدولت وہ اخلاقی بحران کا شکار ہو گیا ہے اور مذہب سے دوری پہلے کی نسبت زیادہ ہو گئی ہے۔ نظم کے آخری بند میں مکالاتی فضا پیدا کی گئی ہے یہاں پر شکستہ قوم کی علامت مسجد، ندی سے گزارش کرتی ہے کہ مجھے بھی اپنے ساتھ بہا کر لے جاؤ لیکن ندی اس سے وعدہ کرتی ہے کہ میں کل تمہیں بہا کر لے جاؤ گی اور تمہارے یہ گنبد و مینار پانی پانی ہو جائیں گے اس سے ہم امید کی آخری جھلک دیکھ سکتے ہیں اور اندازہ لگا سکتے ہیں کہ روایت یا قوم ابھی تک مکمل طور پر مردہ نہیں ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments