مودی سرکار کی کشمیری سیاسی رہنماؤں سے ”مشاورت“


مجھے یہ لکھتے ہوئے ہرگز فخر نہیں محسوس ہو رہا کہ بھارت کی مودی سرکار 5 اگست 2019 کے روز لئے اقدام سے قبل تیار کیے منصوبے پر مزید آگے بڑھنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس کالم میں بارہا اس منصوبے کے خد و خال بیان کرتا رہا ہوں۔ مودی سرکار کا واضح ارادہ یہ تھا کہ چند ماہ گزر جانے کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر کے ”ریاستی تشخص“ جسے بھارت میں ”State Hood“ کہا جاتا ہے کو بحال کر دیا جائے۔ جس ”ریاست“ کو تاہم بحال کیا جائے گا یہ وہ ”ریاست“ نہیں ہوگی جو 1948 تک ڈوگرہ راج کے زیر تسلط ریاست جموں وکشمیر کہلاتی تھی۔ پاکستان کے گلگت اور بلتستان کے علاوہ موجودہ آزادکشمیر کے علاقے بھی اس ریاست کا حصہ تھے۔ مقبوضہ کشمیر کا لداخ بھی اس کا اہم ترین علاقہ تھا۔ جس ”ریاست“ کو اب ”بحال“ کرنے کی تیاری ہو رہی ہے اسے لداخ سے الگ کر دیا گیا ہے۔ وہ دلی سے براہ راست چلائی Union Territoryہی رہے گا یعنی ”وفاق کے زیر انتظام“ علاقہ۔

لداخ سے الگ کیے مقبوضہ جموں وکشمیر کو اب درحقیقت ایک صوبے ”کی حیثیت میں“ بحال ”کیا جائے گا جو آئینی اعتبار سے بھارت کے دیگر صوبوں کی طرح اس ملک کا“ اٹوٹ انگ ”ہو گا۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت جموں وکشمیر کو فراہم ہوئی“ خصوصی حیثیت ”اب بحال نہیں ہوگی۔ یوں اپنے تئیں بھارت کشمیر کے دیرینہ مسئلہ کو“ حل ”کردے گا۔ اس کی دانست میں یہ بین الاقوامی مداخلت کا طالب قضیہ نہیں رہے گا۔

جموں وکشمیر اب بطور ”صوبہ“ بحال ہو گا تو وہاں کے انتظامی امور کی نگہبانی کے لئے ”منتخب صوبائی اسمبلی“ بھی درکار ہوگی۔ جس روز میں یہ کام لکھ رہا ہوں اس دن بھارتی وزیر اعظم نے مقبوضہ کشمیر کے ”نمائندہ“ سیاسی رہ نماؤں کو مشاورت کے لئے مدعو کر رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا معروف ”بھارت نواز“ خاندان یعنی شیخ عبداللہ کے وارث فاروق عبداللہ اور موصوف کے صاحبزادے عمر فاروق جمعرات کے روز ہوئی کانفرنس میں کوئی پیشگی شرط عائد کیے بغیر شرکت کو رضا مند ہوچکے ہیں۔ فقط محبوبہ مفتی نے اس تناظر میں لیت ولعل سے کام لیا۔ اس کے والد کی بنائی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP) کے چند اہم اور متحرک کارکن کئی مہینوں سے گھروں میں نظر بند یا سری نگر سے بہت دور جیلوں میں بھیج دیے گئے تھے۔ مودی کی بلائی کانفرنس میں شرکت سے قبل محبوبہ ان کی رہائی چاہ رہی تھی۔ اس کی جانب سے اس ضمن میں پیش ہوئے چند مطالبات مان لئے گئے۔ وہ شرکت کو رضا مند ہو گئی۔ رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے اگرچہ اس نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ مذکورہ کانفرنس کے دوران وہ مقبوضہ کشمیر کی آرٹیکل 370 کے تحت فراہم ہوئی ”خصوصی حیثیت“ کی بحالی کا بھی مطالبہ کرے گی۔ فاروق اور عمر عبداللہ نے اس پہلو کے بارے میں معنی خیز خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ مذکورہ کانفرنس میں آزادیٔ کشمیر کے حوالے سے معروف ہوئے ایک قدآور رہ نماکے صاحبزادے سجاد لون بھی شریک ہوں گے۔ موصوف کے والد کو پراسرارانداز میں آج سے کئی برس قبل قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے قاتلوں کا ابھی تک سراغ نہیں ملا۔

جمعرات کے روز جو ”مشاورت“ ہونا ہے اس کا بنیادی مقصد مقبوضہ کشمیر کے وہاں مدعو کیے سیاسی رہ نماؤں کو اس امر پر رضا مند کرنا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیرکی متوقع طور پر بحال ہونے والی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بھرپور انداز میں حصہ لیں۔ لداخ کے بغیر جموں وکشمیر کے جو علاقے ہیں وہاں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لئے نئی ”حلقہ بندیاں“ بھی ہوں گی۔ یہ فیصلہ بھی ضروری ہے کہ متوقع صوبائی اسمبلی میں اب نشستوں کی کل تعداد کیا ہوگی۔

بھارتی وزارت خارجہ اور دفاعی امور سے متعلق اداروں تک رسائی کے حامل صحافی بہت اعتماد سے دعویٰ کر رہے ہیں کہ مودی سرکار نے لداخ سے الگ کیے جموں وکشمیر کی ”صوبائی شناخت“ کی بحالی کی جانب پاک۔ بھارت ”خفیہ مذاکرات“ کی بدولت بڑھنے کا ارادہ کیا ہے۔ وہ یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم کا مشیر برائے قومی سلامتی۔ اجیت دوول۔ بھارت کی جانب سے ان مذاکرات میں حصہ لے رہا ہے۔ اس کی گفتگو پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی یعنی معید یوسف سے ہو رہی ہے۔ پاکستان نے سرکاری طور پر مذکورہ دعویٰ کی اگرچہ تصدیق نہیں کی ہے۔

کشمیر کے معاملات پر نگاہ رکھنے والے چند بھارتی صحافیوں کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ 24 جون کے روز دلی میں ہوئی مشاورت سے ایک دن قبل معید یوسف صاحب کی اپنے بھارتی ہم منصب سے تاجکستان کے دوشنبہ میں ایک ملاقات بھی ہوگی۔ اس شہر میں ایس سی او کے نام سے علاقائی تعاون کی خاطر بنائی تنظیم کے تحت افغانستان کے مستقبل کے بارے میں متفقہ پالیسی تیار کرنے کی خاطر ایک کانفرنس ہوئی ہے۔

بھارتی صحافیوں کا گماں تھا کہ اس کانفرنس کے دوران پاکستان اور بھارت کے مشیران برائے قومی سلامتی کے مابین ون آن ون ملاقات بھی ہوگی۔ معید یوسف صاحب نے مگر اردو میں لکھے ایک ٹویٹ کے ذریعے مذکورہ ”خبر“ کو جھٹلادیا۔ اردو میں لکھے اس ٹویٹ کی بابت خارجہ امور پر کئی برسوں سے نگاہ رکھنے والی میری عزیز ترین دوست ماریانہ بابر تلملا اٹھی۔ ٹویٹ لکھ کر سوال اٹھانا شروع ہو گئی کہ معید یوسف نے مذکورہ ٹویٹ اردو میں کیوں لکھا ہے۔ گویا کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

ماریانہ کے طیش سے میں گھبراتا ہوں۔ اس کے اٹھائے سوال کی بابت قیاس آرائی سے تاہم گریز کروں گا۔ ٹھوس حقائق تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے معید یوسف کا دعویٰ مگر تسلیم کرنا چاہوں گا۔ بھارتی صحافیوں کے اس دعوے کو اگرچہ میں شدت سے جھٹلا نہیں سکتا کہ پاکستان نے سفارت کارانہ مہارت سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کو خاموشی سے تسلیم کر لیا ہے۔ نظر بظاہر ہمارے وزیر خارجہ مصر رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے تیار ہوئی بھارتی آئین کی شقیں پاکستان کے لئے اہم نہیں ہیں۔ ہماری اولین ترجیح کشمیر کو بین الاقوامی ثالثی کا طالب ”مسئلہ“ قرار دینا ہے۔ تلخ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ 5 اگست 2019 کے بعد سے ہم نام نہاد عالمی ضمیر کو اس مسئلے کے حوالے سے بیدارو متحرک کرنے میں ناکام رہے۔ ہماری سفارت کاری کی بنیادی توجہ افغانستان پر ہی مرکوز رہی۔ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد نمودار ہونے والے ممکنہ مناظر ہماری پریشانی کا گزشتہ کئی مہینوں سے اصل سبب ہیں۔

خارجہ امور کی بابت رپورٹنگ کی بدولت جمع ہوئے تجربے کی وجہ سے یہ بھی سوچنے کو مجبور ہو رہا ہوں کہ لداخ سے کاٹے مقبوضہ کشمیر کی صوبائی حیثیت اور اسمبلی کی بذریعہ انتخابات بحالی کے لئے مودی سرکار کو بنیادی طور پر امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ نے راغب کیاہے۔ وائٹ ہاؤس پہنچ جانے کے دن سے امریکی صدر تواتر سے ”بنیادی انسانی حقوق“ اور جمہوریت سے والہانہ وابستگی کا اظہار کیے چلے جا رہا ہے۔ اس ضمن میں اس کے دعوے یقیناً ہم سادہ لوح افراد کو منافقانہ محسوس ہوتے اگر امریکہ کا ان دنوں قریب ترین ہوا دوست یعنی بھارت اپنے زیر تسلط جموں وکشمیر کو بدستورمقبوضہ غزہ کی طرح بنائے رکھنے کو بضد رہتا۔
بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments