اپوزیشن جماعتوں کا سیاسی مستقبل


پاکستان کی موجودہ اور مستقبل کی سیاسی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے ہر سیاستدان کو خواہ وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں۔ انتہائی کمزور کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں کو اتنا بے بس کر دیا گیا ہے کہ وہ بس اپنے مسائل اور اپنے مفادات میں گھرے ہوئے ہیں۔ العزیزیہ ریفرنس اور ایون فیلڈ میں سزاؤں کے خلاف میاں نواز شریف کی اپیلیں خارج کر دی گئی ہیں۔ پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں جن کے بارے میں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپوزیشن بینچز پر خوشی خوشی بیٹھنے پر راضی ہیں۔ کہ چلیں ہمیں اپوزیشن بینچز پر بیٹھنے تو دیا جا رہا ہے۔

اپوزیشن کے حوالے سے بات کی جائے تو مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف صاحب پر کچھ سیاسی تجزیہ کار اور سوشل میڈیا پر کچھ ان کی اپنی پارٹی کے لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ مقتدر حلقوں سے بات چیت کر کے اپنے لیے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری صاحب اور ان کے والد آصف علی زرداری صاحب پر بھی ایسے ہی الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ وہ اقتدار کے حصول کے لیے کسی خفیہ ڈیل کا حصہ بن رہے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے حوالے سے شکوک و شبہات اپنی جگہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کو بھی شہباز شریف صاحب اور آصف علی زرداری صاحب کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں کہ اپوزیشن میں شامل یہ دونوں رہنما اقتدار کے حصول کے لیے کسی نہ کسی پلاننگ کا حصہ ہیں۔ اور ان کی پلاننگ کہیں میری حکومت کو چلتا نہ کر دے، اسی لیے عمران خان صاحب نے اب تک شہباز شریف صاحب اور آصف علی زرداری صاحب کو کیسز میں الجھائے رکھا ہے اور اب تک شہباز شریف صاحب اور ان کی پارٹی کے دیگر رہنما سیاسی کیسز میں جیل کی ہوا کھا چکے ہیں جبکہ آصف علی زرداری صاحب بھی کچھ عرصہ جیل کی ہوا کھا چکے۔

اب ایک بار پھر شہباز شریف صاحب ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز صاحب اور آصف علی زرداری صاحب کے خلاف حکومت کی جانب سے کیسز درج کیے جا رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں شہباز شریف صاحب اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز صاحب کو دوبارہ گرفتار کر لیا جائے اور عین ممکن ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ دیگر نون لیگ کے رہنماؤں پر بھی دوبارہ کیسز درج کر کے ان کو دوبارہ گرفتار کر لیا جائے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے حوالے سے بھی حکومت کی پلاننگ اس پلاننگ سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔

میری رائے میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم نون کے پارٹی صدر شہباز شریف صاحب اقتدار کے حصول کے لیے کسی بھی پلاننگ کا حصہ نہیں ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ شہباز شریف صاحب کے پاس اس حوالے سے کوئی پلان نہیں ہے۔ وہ اداروں سے مفاہمت کی پالیسی کے تحت چلنا چاہتے ہیں اور مفاہمت کی پالیسی کے تحت ہی مشکلات میں گھری ہوئی اپنی پارٹی کو مشکلات سے نکالنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ سوچ ہے کہ مقتدر حلقوں سے بات چیت کے ذریعے مسلم لیگ نون کے لیے آزادانہ سیاست کی راہ ہموار کی جائے۔ جبکہ دوسری طرف آصف علی زرداری صاحب بھی مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے بجٹ قومی اسمبلی میں پیش ہو چکا اور اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ میں حکومتی ارکان سے سوائے دھینگا مشتی کے، اپنا کوئی کردار ادا نہ کر سکیں۔ میری رائے میں مسلم لیگ نون کے پاس اگلے دو مہینے ہیں جن میں وہ اداروں سے بات چیت کے ذریعے اپنے لیے آزادانہ ماحول میں سیاست کرنے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا شہباز شریف صاحب اپنے بھائی نواز شریف صاحب کو اس حوالے سے منا پاتے ہیں؟ کہ وہ اداروں کے خلاف سخت رویہ اختیار نہیں کریں گے اور سیاست سے خود کو اور اپنی صاحبزادی مریم نواز صاحبہ کو دور رکھیں گے۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ البتہ پاکستان کے اہم ادارے شہباز شریف صاحب اور بلاول بھٹو صاحب سے کافی خوش ہیں اور یہی بات وزیراعظم عمران خان صاحب کی پریشانی کا سبب ہے۔

میری ناقص رائے میں آئندہ آنے والے دنوں میں، یا مہینوں میں کوئی نئی سیاسی ڈیویلپمنٹ نہیں ہو گی اور ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال جوں کی توں رہے گی بلکہ اپوزیشن خصوصاً نون لیگ کے لئے آئندہ کی صورتحال موجودہ صورتحال سے بھی زیادہ بدتر ہو سکتی ہے۔ اداروں کو شہباز شریف صاحب تو قابل قبول ہیں لیکن ان کو نواز شریف صاحب اور مریم نواز صاحبہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری صاحب تو اداروں کو قابل قبول ہیں لیکن آصف علی زرداری صاحب پر ادارے کسی صورت اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں۔ جے یو آئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی اداروں کو قابل قبول نہیں ہیں۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صوبہ پنجاب وزیر اعلٰی عثمان بزدار صاحب سے چل نہیں پا رہا۔ بیورو کریسی پرفارم نہیں کر رہی۔ عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہو رہے۔ آئے دن نئے سے نئے کرپشن کے سکینڈلز منظر عام پر آ رہے ہیں اور صوبہ پنجاب کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے پھر شہباز شریف صاحب کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ ان کی گورننس کا عثمان بزدار صاحب کی گورننس سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ لیکن میری رائے میں پنجاب میں ناکام گورننس کے باوجود بھی عثمان بزدار صاحب ہی بدستور پنجاب کے وزیر اعلٰی رہیں گے۔ فرض کریں اگر عثمان بزدار صاحب کسی بھی وجہ سے پنجاب کے وزیر اعلٰی برقرار نہیں رہتے تو ایسی صورت حال میں بھی عثمان بزدار صاحب جیسے ہی نئے پنجاب کے وزیر اعلٰی ہوں گے ۔ جن کو وزیراعظم عمران خان صاحب اسلام آباد سے کنٹرول کریں گے۔

رہی بات عمران خان صاحب کی موجودہ حکومت کی جس کا ابھی دو سال سے زائد کا وقت باقی ہے یا پھر بات ہو جائے 2023 میں ہونے والے آئندہ کے عام انتخابات کی۔ میری ناقص رائے میں موجودہ حالات کے تناظر میں، عمران خان صاحب وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے پانچ سال پورے کریں گے۔ اور آئندہ 2023 کے عام انتخابات بھی 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے زیادہ مختلف نہیں ہوں گے ۔ قوی امکان ہے کہ 2023 کے عام انتخابات کے نتیجہ میں بھی عمران خان صاحب ہی ملک کے دوبارہ وزیراعظم بنیں۔ جبکہ اپوزیشن جماعتوں خصوصاً پاکستان مسلم لیگ نون کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور عین ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی بھی 2023 کے عام انتخابات کے نتیجہ میں صوبہ سندھ میں اپنی صوبائی حکومت نہ بنا پائے۔

کیونکہ جب وزیر اعظم عمران خان صاحب کے ہوتے ہوئے تمام مقاصد پورے ہو رہے ہیں اور ان سے کسی کو کوئی مسئلہ بھی نہیں۔ سب ایک پیج پر ہیں تو پھر کیونکر شہباز شریف صاحب اور آصف علی زرداری صاحب کو موقع دیا جائے۔ اس وقت بہترین آپشن شہباز شریف صاحب یا بلاول بھٹو زرداری صاحب نہیں بلکہ عمران خان صاحب ہیں۔

آپ کا میری رائے اور میری سوچ سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

منصور احمد قریشی
Latest posts by منصور احمد قریشی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

منصور احمد قریشی

Mansoor Ahmed Qureshi is an independent journalist, columnist, blogger, researcher and content writer. He writes about politics, international affairs and social issues.

mansoor-ahmed-qureshi has 7 posts and counting.See all posts by mansoor-ahmed-qureshi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments