بد اخلاق معاشرے کی تشکیل میں آپ کیسے کردار ادا کر سکتے ہیں ؟


بداخلاق معاشرے کی تشکیل میں آپ کیسے کردار ادا کر سکتے ہیں؟
اس کا طریقہ انتہائی آسان ہے، آپ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں، آپ اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
والدین کے لئے طریقہ کار :
بچے کو پیدا کریں اور بھول جائیں، جس نے دنیا میں بھیجا ہے وہ پال بھی دے گا، آپ اگلے کی تیاری پکڑیں۔

اگر آپ کے بچے ایک سے زیادہ ہیں تو انہیں بڑے چھوٹے کی تمیز بالکل مت سکھائیں، ہاں خاندان میں سیاست کیسے کرنی ہے، دوسروں کو نیچا دکھانے کے ہر حربے، غیبت او ر مال دار رشتے داروں سے حسن سلوک سے پیش آنے کے گر ضرور سکھائیں۔

انہیں سکھائیں کہ زندگی میں صرف پیسے کی اہمیت ہے اس لئے دوڑ میں شامل ہو جاؤ اور جائز و ناجائز اس کو جیتنے کی کوشش کریں۔

انسان اور انسانیت کا کیا تقدس ہے، مرد عورت میں کیا فرق ہے، کس کا کیا احترام ہے، ایسے فضول موضوعات پر بچے سے بات کر کے اس کا ٹائم ضائع مت کریں۔

اگر بچہ موبائل مانگے تو فوراً لا دیں، اور کبھی بھی اس پر چیک نہ رکھیں۔ ہر مسئلے کا حل اسے ہم عمر دوست بتا دیں گے۔ آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔

گھر میں کیبل، ڈش موجود ہے تو اس کے کانٹینٹ پر کبھی بھی کان نہ دھریں۔ جس قسم کے بھی ڈرامے فلمیں یا ویڈیوز بچے دیکھتے ہیں، انہیں دیکھنے دیں۔ ان کی پرائیویسی میں ہرگز مداخلت مت کریں۔

بچہ آپ کے سامنے ماں، باپ، بڑے بھائی، بہن کسی قریبی عزیز یا عمر میں بڑے محلے دار سے بدتمیزی کرے تو خوش ہوجائیں اب وہ جوان ہو گیا ہے۔ آپ کی ٹینشن ختم۔

اگر بچہ یا بچی گھر آ کر ٹیچر کے نامناسب رویے کا ذکر کرے تو فوراً اگلے دن اس کے ساتھ سکول جائیں اور ٹیچر کو چھٹی کا دودھ یاد کروا کر آئیں۔ وہ زمانے گئے جب استاد کی عزت ہوا کرتی تھی۔ اب آپ بھی ماڈرن ہوجائیں۔

چا ر پیسے کمانے لگ جائے یا لڑکی کھانا پکانا سیکھ لے تو بس ٹھیک ہے شادی کردیں، دھوم دھام سے۔ قرض لے کر بھی ہر طرح کی عیاشی ضرور کریں تاکہ بیٹا یا بیٹی زندگی کی اہم ترین رسموں سے واقفیت حاصل کرسکیں۔

سٹوڈنٹس کے لئے طریقہ کار:

سکول، کالج ہو یا یونیورسٹی کسی بھی جاہل استاد کو زیادہ سر پر چڑھانے کی ضرورت نہیں، انہیں ان کی حد معلوم ہونی چاہیے۔ پاپا کی پرنسس اور کسی سٹڈ ٹائپ بندے کو کوئی استاد ڈانٹے کسی صورت بھی مناسب نہیں۔

کالج یا یونیورسٹی جاتے ہی سب سے پہلے گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ ضرور بنائیں، ورنہ معاشرے میں آپ کی عزت دو کوڑی کی ہو جائے گی۔

یونیورسٹی میں کتابوں کی طرف توجہ دینا، امیچورٹی ہے، وہاں صرف مقابلہ حسن کو ترجیح ملنی چاہیے اور کوشش کریں زیادہ سے زیادہ لوگ آپ کو دیکھ کر اٹریکٹ ہوں۔

لڑکیوں کے لئے شلوار قمیض اور دوپٹے والی دقیانوسی زندگی ترک کرنا ازحد ضروری ہے جو رتبہ جسم کی نمائش سے حاصل ہوگا وہ بہترین سی جی پی اے سے کہیں افضل ہے۔

ٹک ٹاک، یوٹیوب، فیسبک، انسٹا گرام اور دیگر سوشل میڈیا پر موجود ہر طرح کا کانٹینٹ پوری پوری رات دیکھیں اور اتنا دیکھیں کہ حقیقی زندگی میں ان اداکاروں سے آگے نکل جائیں۔

گفتگو کرتے ہوئے اگر گالی کا استعمال نہ ہو تو سواد نہیں آتا۔ نئی تہذیب کو پروان چڑھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔

بریک اپ ہو تو سادہ سگریٹ چھوڑ دیں، عدت پوری کرنے کے بعد دنیا جہاں سے بدلہ لینے کی ٹھان لیں۔ جو بھی ملے اس کے ساتھ وہی کھیل کھیلیں جو کسی نے آپ کے ساتھ کھیلا، زندگی میں اس سے بڑا مقصد اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔

ڈگری حاصل کریں اور اپنی راہ لیں، علم حاصل کرنے جیسے فلسفے پر کان نہ دھریں۔ یہ یہودیوں کا پراپیگنڈہ ہے

مولوی کے لئے طریقہ کار :

ہر اس موضوع پر بات کرنے سے گریز کریں جو انسانیت کا درس دیتا ہو۔ آپ کا مخالف فرقہ کسی صورت بھی انسان کہلانے کے لائق نہیں۔

نوجوان نسل کو اپنی شعلہ بیانی سے خود کش بمبار بنا دیں۔
کسی بھی ایسی نصیحت سے گریز کریں جس سے آپ کی اجارہ داری کو خطرہ لاحق ہو۔

مذہب کو انسانیت سے ہر گز مت جوڑیں، عبادات کا درس دیں، باقی چور، ڈکیت، ریپسٹ تو پیدا ہوتے رہیں گے ہر چیز کی اصلاح کا آپ نے ٹھیکہ تھوڑی لے رکھا ہے۔

میڈیا کے لئے طریقہ کار :
جس کا کھائیں اس کے گن گائیں، باقی سب کتابی باتیں ہیں۔
معاشرے کی اصلاح سے کہیں زیادہ ضروری ہیجان پیدا کرنا ہے۔ اس پر توجہ مرکوز کریں۔

مرچ مصالحے کی فراوانی رکھیں، باسی خبروں کو تڑکا لگا لگا کر بیچیں، لوگ کون سا میڈیا سے پہلے نفسیاتی مریض نہیں ہوا کرتے تھے۔

کہیں کوئی جرم ہو جائے تو اس کی ایسی تشہیر کریں کہ آئندہ پھر ایسے واقعات کا تسلسل ہو جائے۔
واچ ڈاگ نہ سہی ”ڈاگ“ ہی بنے رہیں تو بھی چلے گا۔
سیاستدانوں کے لئے طریقہ کار :

ایک چپ سو سکھ۔ بولیں گے تو کسی نہ کسی طرف سے حمایت کھو دیں گے۔ جو ہوتا ہے ہونے دیں، زندگی مختصر ہے، سٹریس میں گزارنا مناسب نہیں۔

اگر تمام طبقے بتائے گئے طریقہ پر عمل کریں تو تو پاکستان جیسا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ جہاں قتل اور ریپ کے واقعات ہوتے رہیں گے اور لوگ چار دن شور مچا کر اس کی اصل وجہ جانے بغیر پھر کسی اگلے ”شغل“ کے انتظار میں ستو پی کر سو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments