شیر کا بچہ اور گھونسلے میں تیار بیٹھا شہباز


سیاست پر بات کرنے سے پہلے جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جو نواز شریف کے العزیزیہ ریفرنس اور ایون فیلڈ ریفرنس کی اپیلیں خارج کی ہیں ۔ اس پر تھوڑی بات ہو جائے ۔ اگر اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا یا ن لیگ کے بیانات دیکھوں تو لگتا ہے فیصلہ ان کے قائد کے خلاف آیا ہے ۔ مطلب وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ عدالتیں انصاف کرنے میں ناکام رہیں ۔

میرا ایسا ماننا بلکل بھی نہی ہے ۔ ایسے ہی فیصلے 2003 میں بھی آئے تھے جنہیں بعد میں چیلنج کیا گیا اور فیصلے نواز شریف کے حق میں ہوئے ۔ ابھی بھی وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے ۔ نوازشریف کو ریلیف دے دیا گیا ہے ۔ عدالت نے ان کی اپیلیں خارج کیں ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ جب تک نواز شریف سرینڈر نا کریں یا جب بھی وہ گرفتار ہوں ۔

مطلب وقت کی کوئی قید نہی ۔ تاریخ ، سال کی کوئی قدغن نہی ۔ تو اس سے بڑا ریلیف اور کیا ہو سکتا ہے ۔ اب نواز شریف جتنا عرصہ مرضی لنڈن میں رہیں ۔ ان پر کوئی پابندی نہی ۔ زندگی کے کسی بھی حصے میں پاکستان واپس جا کر اپنی اپیل کا حق استعمال کر سکتے ہیں ۔ اب یہ خدا کی رحمت کہیں یا کسی اور کی کرم نوازی اللہ بہتر جانتا ہے ۔ ورنہ کسی بھی عام ملزم کی غیر حاضری کی صورت میں اپیلیں خارج کر دیں جاتیں ہیں ۔ اور 30 دن کے اندر اندر اپیل کرنا ضروری ہوتا ہے اور اگر ملزم 30 دن میں اپیل نہی کرتا تو وہ آگے سپریم کورٹ میں بھی اپیل کرنے کا حق سے محروم ہو جاتا ہے۔

میرا خیال ہے اب لوگوں کے سمجھنے کے لئے اتنی تفصیل کافی ہے ورنہ جنہوں نے نہی ماننا اور سمجھنا ان کے لئے سارا دن بھی لکھتی رہوں تو بےکار ہو گا ۔ لہذا میں ان  سے مخاطب ہوں جو سمجھتے ہیں ۔

اب ایک طرف اتنی بڑی کامیابی اور دوسری طرف یہ خبریں گردش کرنا شروع ہو جائیں کہ نوازشریف کسی وقت بھی پاکستان آ سکتے ہیں ۔پاکستان کی سیاست میں جو کچھ سامنے نظر آ رہا ہوتا ہے ۔ ویسا ہوتا بلکل بھی نہی ہے ۔ بند دروازوں کے پیچھے کہانی کچھ اور ہوتی ہے ۔اور ہمارا کام بھی وہی ہے ۔ جو ہمیں دکھایا اور بتایا جا رہا ہو ہم ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ۔ وہ سب دیکھنے کی کوشش کریں جو ہم سے اپ سے چھپایا جا رہا ہوتا ہے۔

میرے نزدیک جو سٹوری یا خبر اپ تک خود پہنچ جائے یا پہنچائی جائے سمجھ جائیں کہ اس خبر کو پھیلانا ہی ان کا مقصد ہے۔ کیونکہ اگر بات چھپانا مقصود ہو تو انسان اپنے سائے سے بھی شئیر نہی کرتا ۔

ابھی آنے والے دنوں میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی بھی اپیلوں کی سنوائی ہے ۔ جس کا مجھے قوی یقین ہے ۔ ان کو بھی ریلیف مل جائے گا ۔ ورنہ نیکسٹ پیشی میں بری ہو جائیں گے ۔اگر آنے والے دنوں میں ہونے واقعات کو میرے جیسا عام انسان بھی سمجھ جائے کہ بہت کچھ سیٹ ہو چکا ہے ۔ مریم نواز کو ریلیف ملتے ہی نواز شریف بھی پاکستان واپس آ جائیں گے ۔

“ اب معاملات باہر والوں کی بجائے کسی اور کے ہاتھوں سے واپس لینے کی جنگ ہو گی “

بس میرا اتنا اشارہ کافی ہے ۔ سب کچھ ابھی لکھ دیا تو  اگلی تحریر میں کیا لکھوں گی ؟  ۔ اس لیے دھیرے چلنا اچھا ہوتا ہے۔

ہم کشتیاں تب جلاتے ہیں ۔ جب واپسی کے تمام راستے مکمل بند ہو چکے ہوں ۔ جب ہم واپس جانا ہی نہی چاہتے ہوں ۔ لیکن سیاست میں کشتیاں نہی جلائی جاتیں ۔ واپسی کے راستے کھولے رکھے جاتے ہیں ۔پاکستان میں سیاست ویسی بلکل بھی نہی ہونے جا رہی ہے جیسے کہ ہم سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں ۔ گراونڈ پر اصل سیاست ہو رہی ہے ۔ سب سیاستدان جیلوں سے تقریباً باہر آ چکے ہیں ۔

حالیہ دنوں میں حمزہ شہباز اور آصف علی زرداری کی چوہدری پرویز الہی سے مولقاتیں آنے والے الیکشن کی صف بندی ہے ۔ جہاں چوہدری پرویز الہی کا یہ جملہ کہ ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ دغا نہی کرتے ادا کرتے ہوئے ساتھ میں یہ بھی کہنا کہ پنجاب میں کون مقبول ہے اس کا اندازہ اپ ضمنی الیکشن سے لگا لیں ۔ اگر کوئی نا مانے تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں ۔ بہت ہی اہم تھا ۔

ادھر آزاد کشمیر کے الیکشن میں کیا ہونے جا رہا ہے سب پہ عیاں ہے ۔ ٹی وی پر سوشل میڈیا پر ہم چاہے جیسے بھی بیانات سن لیں کہ مفاہمت کی سیاست ن لیگ کو نقصان پہنچا رہی ہے وغیرہ ۔ دراصل کچھ لوگ اس کبوتر کی طرح ہیں ۔ جو آنکھیں بند کئے بلی کی حقیقت کو ماننا ہی نہی چاہتے ۔ ہم سب کو معلوم ہے ۔

اجکل نظریے کی سیاست کون کرتا ہے کیونکہ نظریے پر صرف چند سیٹیں تو جیتی جا سکتی ہیں ۔ حکومت نہی بنائی جا سکتی ۔ جب ہر طرف یہ نعرہ لگ رہا تھا کہ ن لیگ ہی ازاد کشمیر کا الیکشن جیتے گی ۔ تب میں نے کسی سے کہا تھا ۔ جوش میں ہوش نا کھو دیجئے گا ۔ وہاں ایسا کچھ نہی ہونے جا رہا ۔ آپ کے اپنے لوگ اپ کو چھوڑ جائیں گے ۔ کیونکہ سیاسی پرندے کمزور گھونسلوں میں مسکن نہی بنایا کرتے ۔ اور ویسے بھی اگر ہم پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاست اور ان کے نمائندوں پر نظر دوڑائیں تو وہ اپوزیشن میں رہنے کے عادی نہی ۔ جب جب ن لیگ پر مشکل وقت آیا سب موسمی پرندے اڈاری مار گئے۔

اب اپ پوچھیں گے اس مرتبہ ایسا کیا چمتکار ہوا کہ سب جڑے رہے پارٹی کیساتھ ؟

اس کا جواب بہت ہی سادہ اور آسان ہے ۔ “ شہباز شریف “ ہے وہ ڈور جس نے اڑان بھرنے والے سیاسی پرندوں کو ن لیگ سے باندھے رکھا ہے۔ ورنہ تو یہ سیاسی کوے کب سے کایں کایں کر رہے ہیں ۔ ان کو شہباز شریف حکومت ملنے کی چُوری یہ کہہ کر کھلاتے جا رہے ہیں ۔ کہ بس کچھ پل کی ہے دوری ۔

پارٹی کی خاطر قربانیاں بھی سب سے زیادہ شہباز شریف نے ہی دیں ہیں اور اس کے صلے میں مفاہمت کا طوق بھی انھیں کے گلے میں ڈالا جاتا ہے۔ورنہ یہ کیسی مفاہمت تھی کہ خود بھی جیل میں رہے اور اپنے بیٹے کو بھی 22 ماہ جیل میں رکھا ۔کیا پایا کیا کھویا اس کا فیصلہ بہرحال شہباز شریف کو ہی کرنا ہے ۔

ہر انسان کو حق ہے کہ وہ اپنے لئے جئیے اور مرضی کی سیاست کرے۔

اگر تو شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی کی سربراہی میں ہی ساری زندگی سیاست کرنی ہے تو پھر وہ کبھی کھل کر فیصلے نہی کر پائیں گے اور وہ تاریخ میں بڑے بھائی کا چھوٹا بھائی ہی بن کر رہ جائیں گے۔ ان کی اپنی کیا شناخت ہو گی ؟ تاریخ ان کو کس کردار کے طور پر یاد رکھے گی ؟ اس کا فیصلہ انھوں نے ہی کرنا ہے۔

کیونکہ نواز شریف تو اپنی بیٹی کو اپنے وارث کے روپ میں دنیا کے سامنے رکھ چکے اور وہی ان کی وارث بھی ہیں ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے پاکستان میں بادشاہت نہی ہے اور اگر پارٹیوں میں جمہوریت ہے تو اس کا فیصلہ بھی آنے والے دنوں میں سب پہ عیاں ہو جائے گا۔

بلاشبہ مریم نوازپاکستان کی سیاست میں ایک طاقت بن کر ابھری ہیں ۔ اور ان کو بھی پورا پورا حق ہے اپنی مرضی کی سیاست کرنے کا۔لیکن ابھی وہ پاکستان پر راج کرنے لئے پوری طرح تیار نہی ہیں ۔ وہ کبھی اسمبلی کا حصہ نہی رہیں ۔ ابھی تو وہ اسمبلی کا حصہ بن کر مزید سیاست کے داو پیچ سکھیں گی ۔ لیکن ابھی ان کو پوری طرح شائن کرنے میں وقت درکار ہے ۔ اور یہی حقیقت بھی ہے ۔

مجھے معلوم ہے میری اس بات کو پڑھ کر مسلم لیگی سپوٹرز میرے خون کے پیاسے ہو جائیں گے، لیکن میں تو وہی لکھوں گی جو مجھے سچ لگے گا۔

آپ تھوڑا یاد کریں کہ ن لیگ کے قائد نواز شریف نے جب بھی کوئی بیان دیا یا پھر سوشل میڈیا پر ٹویٹ کی ۔ اسے ان کے کتنے پارٹی کے نمائندوں نے سوشل میڈیا پر اون کیا ؟کتنے ان کے جماعت کے منتخب نمائندوں نے ٹی وی پر جا کر اس بیان کو دہرایا یا کہا کہ جو وہ کہہ رہے ہیں ۔ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں ؟

اگر اپ نمائندوں سے بات کریں ۔ تو ان کا جواب ہوتا ہے ۔ ہم نے پاکستان میں رہنا ہے ۔ اپنے حلقے کی سیاست کرنی ہے ۔ ہم ریاست کے ساتھ ٹکر لے کر سیاست سے باہر نہی ہونا چاہتے ۔شائد ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نواز شریف بھی کچھ فیصلے کرنے والے ہیں ۔

چلیں اب تھوڑا شہباز شریف کے بارے میں بات کر لیتے ہیں ۔ اکثر تجزیہ نگار ان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مفاہمت پسند ہیں ۔ اور اسی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ ان کو بار بار دھوکہ بھی دیتی ہے ۔ میرا سب سے سوال ہے اگر شہباز شریف اپنی مفاہمت کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں تو پھر بنا مفاہمت کئے فائدے کون اٹھا رہا ہے ؟شہباز شریف کے بارے میں یہ بات بہت پرزور طریقے سے پھیلائی جا رہی ہے ۔ کہ وہ وزیراعظم بننے کے لئے  بہت ہی بیتاب ہیں ۔

میرا ایسا ماننا بلکل بھی نہی ہے ۔ کیونکہ اگر وہ خیرات میں ملی بھیک کی صورت میں اس تخت پر بیٹھنا چاہتے تو وہ کب کے بیٹھ چکے ہوتے۔ اگر انھیں وزیراعظم بننے کا اتنا ہی شوق ہوتا تو مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے نااہل ہونے کی صورت میں وہ یہ کہہ کر انکار نہی کر دیتے کہ میں ابھی پنجاب پر فوکس رکھنا چاہتا ہوں الیکشن سر پہ ہیں ۔ اور نا ہی ابھی شہباز شریف کو عمران خان کو گرا کر خود کو وزارت عظمی کی کرسی پر براجمان ہونا چاہتے ہیں ۔

بات کچھ اور  ہے جسے  تجزیہ نگار سمجھنے سے قاصر ہیں ۔

جہاں تک میں انکی سیاست کو یا ان کی شخصیت کو سمجھ پائی ہوں ۔ شہباز شریف اپنے بل بوتے پر اپنی محنت سے اس تخت تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ جو انھوں نے پنجاب اور وہاں کے لوگوں کی خدمت کی ہے۔ لوگ اس خدمت کو عزت دیتے ہوئے انھیں ووٹ دیں ۔ اور یہ انکی بلکل جائز خواہش بھی ہے ۔ جس پر کسی بھی شخص کو اعتراض نہی ہونا چاہیے۔

شہباز شریف اس وقت پاکستان کے علاوہ انٹرنیشنل دنیا میں بھی فیورٹ کھلاڑی بن کر سامنے آئے ہیں ۔ ان کے پاس کارکردگی کا شاندار ماضی ہے ۔اور یہ بات ہماری پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو بہت اچھے طریقے سے سمجھ آ چکی ہے۔ یہاں پر دوسرا امیدوار بلاول بھٹو کی صورت میں بھی تیار ہے ۔ دوسرا کھلاڑی اس لئے تیار کیا گیا ہے کہ اگر شہبازشریف اپنے بھائی کی محبت میں پھر بہک گئے اور عین وقت پہ انکار کر دیا تو ان کے پاس بیک اپ پلان موجود ہو ۔

شہباز شریف اس وقت بھائی کی محبت اور اپنے مستقبل کے ایک ایسے بھنور میں پھنسے ہیں ۔ جہاں سے انھیں ان کے علاوہ کوئی نہی نکال سکتا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments