بیٹے کی آس میں آٹھویں زچگی کے دوران زندگی اور موت کی جنگ: ’ڈاکٹر صاحبہ میری بیوی کی جان ضرور بچا لینا‘

عزیز اللہ خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور


مجھے تو بچے اور بیوی سب پیارے ہیں لیکن جب ڈاکٹر میری بیوی کا آپریشن تھیٹر لے جا رہی تھیں تو میں نے ان سے کہا ’ڈاکٹر صاحبہ میری بیوی کی جان ضرور بچا لینا۔‘

جب سات بیٹیوں کی پیدائش کے بعد بیٹے کی پیدائش کی امید ہو اور زچگی کے دوران ماں اور بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے تو ایسے میں دعاؤں کے بعد مریض اور رشتہ داروں کی امیدیں ڈاکٹروں سے وابستہ رہتی ہیں۔ محبت خان بھی اس کشمکش میں تھا اور ساری جمع پونجھی اس پر لگا دی کہ بیوی اور بچے کی جان بچ جائے۔

’ڈاکٹروں نے میری بیوی کی حالت بتائی تو میں ہر طرف بھاگا، صوابی کے بعد مردان میڈیکل کمپلیکس گیا لیکن کوئی امید نظر نہیں آ رہی تھی، اس کے بعد پشاور پہنچا لیکن یہاں بھی ابتدا میں کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ زچگی کے اس کیس کے لیے خون کے او نیگیٹو گروپ کے تقریبا 15 بوتلیں خون کی چاہیے تھیں اور ڈاکٹر اس طرح کا کیس لینے کے لیے تیار نہیں تھے کیونکہ یہ انتہائی مشکل تھا جہاں زچہ اور بچہ کے بچنے کا امکان انتہائی کم تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

زچگی میں حاملہ ماؤں کی بپتا: پاکستانی مردوں کو کیا کرنے کی ضرورت ہے؟

پاکستان میں بچے کی پیدائش پر کتنا خرچ آتا ہے؟

’دوران حمل ذیابیطس کنٹرول میں نہ رہنے سے بچے کی موت بھی ہو سکتی ہے‘

بچوں میں وقفہ: ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں اندر سے ختم ہو گئی ہوں‘

طیبہ بی بی کے شوہر محبت خان بیوی کی تشویشناک صورتحال سے پریشان تھے اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے گائنی وارڈ کی سیڑھیوں پر سر پکڑ کر نا امید بیٹھے تھے کہ اتنے میں ہسپتال کا ایک ملازم آیا اور کہا آؤ تمھارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

لیڈی ڈاکٹر تنویر شفقت نے اس کیس کی ذمہ داری لی حالانکہ ان کے بقول یہ انتہائی مشکل کیس تھا کیونکہ بار بار آپریشن کے ذریعے بچے پیدا کرنے سے بچے دانی کے اندر پلیسینٹا جڑیں پکڑ لیتا ہے اور اس صورتحال میں مثانہ تک متاثر ہو چکا تھا جس سے مریضہ کا خون بہنا شروع ہوجاتا ہے اور اسے کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر تنویر شفقت نے محبت خان کو بتایا کہ اس آپریشن سے کچھ بھی ہو سکتا ہے دونوں جانیں جا سکتی ہیں اور اس کے لیے مکمل رضا مندی تحریری طور پر دینا ہوگی جس کے لیے محبت خان راضی ہوگیا لیکن محبت خان کایہی کہنا تھا کہ میری بیوی کو ضرور بچا لیں۔

سات بیٹیوں کے بعد بیٹے کی امید لیکن صورتحال خطرناک

محبت خان اور طیبہ بی بی کی شادی سال 2006 میں صوابی میں ہوئی اور چار سال تک ان کی اولاد نہیں تھی ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس گئے، منتیں مانگی اور بہت جتن کرنے کے بعد ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی، چار بیٹیاں نارمل ڈیلیوری سے ہوئیں لیکن پانچویں بچی کے وقت ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ آپریشن سے ہوگا جس کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں ہاں کہنا پڑی۔ محبت خان نے بتایا کہ چھٹی اور ساتویں بچی بھی آپریشن سے پیدا ہوئی تھیں۔

محبت خان نے بتایا کہ اس کے بعد انھوں نے دو سال کا وقفہ دیا اور پھر جب بیوی حاملہ ہوئیںش تو الٹرا ساؤنڈ کرایا تو ڈاکٹر نے کہا کہ اس مرتبہ بیٹا ہے لیکن کیس بہت مشکل نظر آتا ہے کیونکہ پلیسنٹا کی پوزیشن نارمل نہیں ہے۔

صوابی میں ڈاکٹروں نے کہا کہ پشاور لے جائیں اس دوران مردان میں ڈاکٹر نے حامی بھری لیکن وہاں بھی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا کیونکہ اس کے لیے کہا گیا تھا کہ ایک ڈاکٹر یا سرجن نہیں بلکہ پوری ٹیم چاہیے ہوگی جو اس کیس کو دیکھیں گے۔

صوابی اور مردان میں ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا اور انھیں پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال بھیج دیا گیا تھا۔ ڈاکٹرں نے بتایا کہ جب زچہ اور بچہ دونوں کی جان کو خطرہ لاحق تھا تو اس وقت محبت خان کا کہنا تھا کہ اگر صرف ایک کی جان بچ سکے تو پھر میری بیوی کی جان بچا لینا اور جب بچے کی جان بچ گئی اور خاتون کا آپریشن پھر بھی جاری تھا تو خاتون کے شوہر کا کہنا تھا کہ اس وقت تک وہ بیٹے کی مبارکباد قبول نہیں کرے گا جب تک کہ ان کی بیوی کی جان نہ بچ جائے۔

ایسی حالت میں ڈاکٹر کیا کر سکتی ہے؟

یہ آپریشن لیڈی ڈاکٹر تنویر شفقت کی نگرانی میں ہوا اور ان کے لیے یہ انتہائی مشکل وقت تھا جب ان کے بقول بچے دانی میں پلیسنٹا کی جڑیں پھیل چکی تھیں مثانے میں مسئلہ تھا اور خون بہنے سے مشکل بڑھ گئی تھی ایسے میں سرجن کو بھی طلب کیا گیا تھا۔

لیڈی ڈاکٹر تنویر شفقت نے بتایا کہ یہ آپریشن ڈھائی سے تین گھنٹے تک جاری رہا، اس دوران خون بہت بہہ چکا تھا۔ محبت خان کا کہنا تھا کہ اس آپریشن سے پہلے ان کی بیوی کا ایچ بی آٹھ درجے تک چکا تھا جس سے واضح ہو رہا تھا کہ خون کی کمی تھی اس لیے انھوں نے کتنی مشکل سے یونیورسٹی اور کالجوں میں اپیلیں کرکے او نیگیٹو گروپ کے خون کا انتظام کیا تھا۔

آپریشن تھیٹر میں ڈاکٹر نرسز اور دیگر عملہ اس کشمکش میں تھے کہ کیسے زچہ اور بچہ کی جان بچائی جا سکتی ہے جبکہ ہسپتال میں مریضہ کے رشتہ دار بڑی تعداد میں جمع تھے۔ محبت خان نے بتایا کہ ان کے گاؤں میں ختم قران جاری تھے اور سب زچہ اور بچہ کی صحت کی دعائیں کر رہے تھے۔

لیڈی ڈاکٹر شفقت تنویر نے بتایا کہ ’اگرچہ خاتون کا آپریشن ڈھائی تین گھنٹے تک جاری رہا تھا لیکن بچے کی پیدائش شروع میں ہو گئی تھی۔ خاندان کے افراد بچے کی پیدائش پر اس وقت تک خوش نہیں تھے۔‘ محبت خان کا کہنا تھا کہ ان کی بیوی آ جائے پھر خوشیاں مناؤں گا۔

انھوں نے کہا کہ ’حالانکہ بچہ پیدا ہوگیا تھا لیکن سب کو فکر خاتون کی تھی اور وہ اسی انتظار میں تھے۔ جب مریضہ کو آپریشن تھیٹر سے باہر لایا گیا اور انھیں کہا گیا کہ آپریشن کامیاب رہا ہے زچہ اور بچہ دونوں محفوظ ہیں تو اس وقت سب کی خوشی کی انتہا نہیں تھی، خاتون کے شوہر نے اس کے بعد بچے کو گلے سے لگایا اور کان میں ازان دی۔‘

محبت خان نے طیبہ بی بی کو آپریشن تھیٹر کیسے بھیجا

میری بیوی بہت خوفزدہ اور پریشان تھی، گھر میری ڈاکٹروں کے ساتھ جو باتیں ہوتی تھیں وہ سن لیتی تھی اسے معلوم ہو چکا تھا کہ اس کی اور اس کے بچے کی حالت انتہائی خطرے میں ہے۔ محبت خان یہ باتیں بتاتے ہوئے خاموش ہوا اور پھر کہا کہ میری بیوی مجھے بہت پیاری ہے۔ میری بیوی سب گھر والوں کا خیال رکھتی ہے اس لیے سب لوگ اس کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔

’آپریشن تھیٹر میں جاتے وقت وہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتی دو مرتبہ آپریشن تھیٹر سے باہر نکل آئی تھی۔ کہتی تھی میں زندہ واپس آ جاؤں گی یہ روشنیاں یہ کمرے اور اپنا گھر دوبارہ دیکھ سکوں گی یا نہیں‘۔

محب خان نے بتایا کہ وہ رونا چاہتے تھے لیکن ضبط کیے رکھا کہ ’کہیں میں رونے لگا تو طیبہ کو رہا سہا حوصلہ بھی ٹوٹ جائے گا ۔ آپریشن کا یہ وقت بہت مشکل تھا گھنٹوں انتطار کے بعد جب اطلاع ملی کہ آپریشن کامیاب ہوا ہے تو بس پھر جان میں جان آئی تھی۔‘

ڈاکٹرز

صوابی میں جشن ہے

اس آپریشن کے بعد ان کے گھر لوگوں کا تانتا بندھ گیا ہے۔ سب لوگ مبارکباد کے لیے آ رہے ہیں۔

محبت خان نے بتایا کہ ان کے علاقے میں روایت ہے کہ مٹھائی کے علاوہ لوگوں میں مونگ پھلی تقسیم کی جاتی ہے اور اب تک مونگ پھلی کی چار بوریاں وہ تقسیم کر چکے ہیں اور اب پانچویں بوری وہ لینے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ کی خواہش تھی کہ بیٹا ہو اب بیٹا پیدا ہوگیا ہے لیکن والدہ نہیں ہیں وہ آٹھ ماہ پہلے انتقال کر گئی تھیں۔

زچگی میں ایسی حالت کب اور کیوں ہوتی ہے؟

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی سینیئر لیڈی ڈاکٹر تنویر شفقت نے بی بی سی کو بتایا چند سالوں سے اس طرح کے کیسز زیادہ آ رہے ہیں اور اس کی بڑی وجہ بچوں کی پیدائش کے لیے بڑے آپریشن کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک بچے کی پیدائش اگر بڑے آپریشن سے ہو جائے تو پھر خاتون کے اندرونی اعضا میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جس سے بچے دانی متاثر ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نارمل ڈیلیوری کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہونے کے امکان نہ ہونے کے برابر ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’طیبہ بی بی کے پہلے سیزیرین ہو چکے تھے اس وجہ سے ان کی جان کو اب زیادہ خطرہ لاحق تھا لیکن کامیاب آپریشن سے ماں اور بچے دونوں کی جان بچ گئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان سمیت اکثر ڈاکٹروں کو ایسی صورتحال کا سامنا رہتا ہے لیکن اس طرف کوئی آگہی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp