اسلامی نظام: کوہ قاف کی پری


میں نے کوہ قاف کی پری تو نہیں دیکھی لیکن بچپن میں عمرو عیار کی کہانیاں ضرور پڑھی تھیں۔ کوہ قاف کا سلسلہ روس اور جارجیا وغیرہ میں پھیلا ہوا ہے۔ ان کی عورتیں اگرچہ خوبصورت ضرور ہیں لیکن مولانا طارق جمیل کے معیار پر ہرگز پوری نہیں اترتیں۔ یعنی امکان نہیں کہ کہیں ہمارا ٹکراؤ اس حسین ماورائی مخلوق سے ہو جائے۔ ایک جھیل سیف الملوک کے بارے مشہور ہے کہ وہاں آتی رہتی ہیں۔ لیکن کئی راتیں گزارنے کے بعد بھی دیدار نصیب نہیں ہوا۔

ہماری سادہ دل عوام بھی اسلامی نظام کے نعرے پر یوں اچھلتی ہے کہ گویا وہ ایک جادوئی چھڑی ہے جس کے ہوا میں ہلاتے ہی سارے دکھ درد دور ہوجائیں گی۔ راوی چین ہی چین لکھے گا۔ کفار مغلوب ہوں گے۔ امریکہ اور روس ہمارے قدموں میں بیٹھے ہوں گے۔ اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ پھر غزوہ ہند کی تیاری شروع ہوگی۔ مہدی اترے گا۔ اور دمادم مست قلندر۔

اسلامی نظام کیا ہے؟ کسی کو علم نہیں۔ حضرت محمد کی زندگی کے آخری چند سال، زیادہ سے زیادہ عمر بن عبدالعزیز کا دور اور چند واقعات پر مشتمل ہمارے سامنے ایک کوہ قاف کیپری رکھی گئی ہے۔ کوئی اس سے بالاتر پیغمبر کی مکی زندگی کی تکلیفات نہیں دیکھتا۔ جنگ احد میں صحابہ کرام کی ایک صرف نظر سے جیتی ہوئی جنگ ہارنا کسی کو یاد نہیں۔ چار خلفائے راشدین میں سے تین کی مدینہ ہی میں شہادت کوئی یاد نہیں رکھنا چاہتا۔ کیوں کہ ہم ان تکالیف کے اٹھائے بغیر ایک رفاہی معاشرہ چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ زمین پر ہماری کوئی شے گر جائے تو کوئی اسے بری نظر سے بھی نہ دیکھے۔ لیکن خود سبیل پر رکھے گلاسکو بغل میں دبا لیتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے حکمران چور اور ڈاکو نہ ہوں لیکن خود ٹیکس سے لے کر بجلی چرانے تک کے ماہر ہیں۔

پاکستان کے قیام کے مخالف علماء پاکستان کے بنتے ہی اس کے ختنے پر تل گئے۔ لیاقت علی خان اور پھر ملٹری بیوروکریسی نے مہمیز دی اور چل سو چل ”پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الاللہ“ کا جھنڈا اٹھا اور ایک ان پڑھ، جاہل اور اسلام سے ناواقف عوام کو صحابہ کرام بنانے کا عملبراہ ڈنڈا کریسی شروع ہو گیا۔

بر صغیر میں پہلے تو اسلام اصلی صورت میں آیا نہیں۔ قرآن کو بنیاد بنانے کی بجائے ہوا میں اڑنے والے، پانی پر چلنے والے، قبروں سے ہاتھ نکال کر دینے والے اولیاء اور ان کے مجاوروں کی قوالیوں والا کوئی سکھ ہندو اسلام کے ملغوبہ کو اسلام کا نام دیا گیا۔ مسلمان بے شک اقلیت میں تھے لیکن انہی کی حکومت تھی۔ اسی سے نوے فیصد غیر مسلموں کو بھی ساتھ لیکر چلنا پڑا۔ یوں اکبر سے لے کر اورنگزیب تک نے ”نہ کوئی نماز چھوڑی اور نہ کوئی بھائی“ ۔

برصغیر کا بٹوارہ ہوا تو جلد ہی انہی مذہبی پیشواؤں نے جو اس تقسیم ہی کے خلاف تھے، ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کا گڈا ہمیں ہاتھ میں پکڑا دیا۔ بس پھر اللہ دے اور بندہ لے۔ اسلامی شریعہ اور نظام مصطفے ٰ کے نام پر کتنے ڈھکوسلے ہوئے لیکن ہم کوہ قاف کی پری کے انتظار میں وظائف پڑھتے رہے، چالیس چالیس دنوں کے چلے کاٹتے رہے، شوکت اسلام کے جلوس نکالتے رہے۔ اور ہاں خانہ کعبہ کے غلاف کو خصوصی ریل میں ملک کے ہر کونے پر اس کا سایا ڈالنے کی بھی کوشش کی۔

اسلامی نظام کے نعرے نے ہمیں کہیں کا نہ رکھا۔ آپ ایک ٹی وی بھی لیتے ہیں تو اس کا مینول پڑھے بغیر نہیں چلا سکتے اب وہ دور گیا جب بڑے بڑے ٹیوب والے ٹی وی جوتا مار کر چل پڑتے۔ لیکن اگر اسلامی حکومت کے خدو خال بارے اگر کوئی پوچھے تو یہی جواب ملتا ہے کہ وہی نظام جو پیغمبر نے جاری کیا۔ آپ کے پاس اللہ کی براہ راست تاکید آتی تھی۔ اب تو صرف اپنی جلد بچانے کے لئے آپ سے خواب منسوب کر سکتے ہیں۔ خلافت کی تحریک چلتی ہے لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ ہر خلیفہ اقتدار میں آتے ہی اپنے بھائیوں کے سر قلم کرتے تھے۔

چنانچہ ہم ڈر کے مارے اسلامی نظام کے نام ہی سے جذبات میں آ جاتے ہیں۔ ان جذبات کو حور وغلمان کا تڑکا دیں اور لیجیے آپ کے لئے خودکش بمبار تیار۔ کون حکومت کرے گا؟ کس مسلک کی فقہ ہوگی؟ وہ فرضی مسائل جو در مختار نے تفصیل سے بیان کیے ہیں، آج کل نہ صرف پورنوگرافی بلکہ بیسٹیئیلیٹی میں بھی آتے ہیں۔ اس لئے ناقابل بیان ہیں۔ پاسپورٹ کا کیا کریں گے؟ شوریٰ کا انتخاب کون کرے گا؟ غیر مسلموں کو ہم نے جنگ سے مغلوب نہیں کیا، اس لئے جذبے کا مسئلہ بھی اٹھے گا۔

سود حرام ہے لیکن درہم و دینار ہوا ہوئے اور کاغذ کا ٹکڑا رہ گئے۔ بینک کے علاوہ کہیں سے اس کی قبولیت نہیں اور بینک سود پہ چلتے ہیں۔ ہمارے ایک مربی ساری عمر سرکاری تنخواہ اور پینشن وصول کرتے رہے۔ لیکن ایک ہمارے ایک مشترکہ دوست نے ایک دوسرا پرائیویٹ میڈیکل کالج جوائن کیا تو انہیں طعنہ ملا کہ یہ تنخواہ حرام ہے کیونکہ اس کالج نے سود پر قرضہ لیا ہوا ہے۔ حالانکہ اول الذکر اسی سرکاری پینشن کو جائز سمجھتے ہیں جو حکومت کو سودی قرضے پر ملا ہوا ہے۔ ہم نے عام بینکاری کا ختنہ تک نہ کیا لیکن نام بدل کر اسلامی بینک رکھ دیا۔ چند شیخ القرآن اور شیخ الحدیث بورڈ پر بیٹھے اور سودی بینکاری تھوڑی مہنگی لیکن حلال ہو گئی۔ مولانا مودودی اور پروفیسر خورشید احمد نے سود پر کتابیں لکھیں لیکن اس پر نفرین بھیجنے کے علاوہ کوئی ٹھوس متبادل نظام نہ دے سکے۔

تاہم معاشرے کی بنیادی اقدار بہتر بنائے بغیر ہم نہ تو ڈنڈے کے ذریعے عوام کو نیک بنا سکتے ہیں اور نہ اسلامی نظام کا شائبہ تک لا سکتے ہیں۔ جب تک ہم بچوں کے سامنے جھوٹ بولتے رہیں گے، وہ ہمیشہ سچ کو افسانہ سمجھیں گے۔ جب تک ہم دوسرے انسان کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھیں گے، کسی مسلمان کو نفع پہنچانا ایک انجانا کام ہی رہے گا۔ پیغمبر تو جانور چھوڑ کے نباتات کے لئے بھی سراپا رحمت رہے۔ ہمارے بچے کتوں بلیوں کو پتھر مارنے کا مشغلہ رکھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے پشاور میں ہر طرف خوبصورت پرندے ہوتے تھے۔ تاہم اب کوے اور چیل کے علاوہ کم ہی پرندے رہ گئے ہیں۔ باقی ہم شکار کر کے نوالہ بنا چکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں دلی کے ایک پارک میں بنچ پر بیٹھا تو کئی پرندے میرے ہاتھ سے چنے کھانے بے جھجک میری گود میں پھڑپھڑاتے ہوئے آئے۔

معاشرے کو فی الوقت سخت ضرورت ہے اخلاقیات کا قبلہ درست کرنے کا۔ یہ اخلاقیات کائنات یہیں۔ جھوٹ سے پرہیز، انسان تو کیا جانوروں تک پر رحم، معاشرے میں امن، دیانت داری، ماحولیات کی فکر، تعلیم، انصاف کی فراہمی، استحصال کا خاتمہ، بھوک سے نجات، صحت کو اہمیت دینا مختلف مذہبی مسائل پر لڑنے سے کہیں پہلے آتے ہیں۔ اسلام امن و صلح کا مذہب ہے۔ اس کی اس بنیاد پر ہی کسی نظام کا ڈھانچہ کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن (سابقہ پی ایم ڈی سی) کا عالمی طبی اخلاقیات پر مشتمل جو قانون ہے۔ اسے کویت کے میڈیکل کمیشن نے دفعہ بر دفعہ سنت کی روشنی میں دوبارہ لکھا ہے۔ اسی طرح ہمارے لئے ایک اسلامی آئین بنے تو کسی کو اعتراض نہ ہو۔ لیکن اس بھیانک جن کو محض نعرے سے کوہ قاف کی پری نہیں بنایا جاسکتا۔

قوموں کے عروج و زوال کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ تاہم بڑے بڑے امراض میں انصاف میں تاخیر، پیسے یا دھونس دھاندلی کا استعمال، خیانت اور وہ بھی خصوصاً ان عہدوں پر جن کے پاس بڑے بڑے فیصلے کرنے کا اختیار ہوتا ہے ؛ علم دشمنی یعنی تعلیم سے لاپرواہی، لاقانونیت، سفارش، قابلیت کی جگہ اقربا پروری، لاقانونیت اور جرائم میں اضافہ، آمدن میں حد درجہ تفاوت وغیرہ وہ لعنتیں ہیں جو تاریخی اور بڑی بڑی سلطنتوں کو گرا چکی ہیں۔

برصغیر ہی کی مثال لے لیں۔ ذات پات کے چکر میں پورا معاشرہ تقسیم ہو کر رہ گیا۔ ہمسایہ ممالک سے حملہ آور جو زیادہ تر مسلمان تھے، پورے ہزار سال تک اسی نوے فیصد اکثریت پر حکومت کرتے رہے یہاں تک کہ ان حکمرانوں کی بھی عیاشیاں اتنی بڑھ گئیں کہ کی کی عزت باقی نہ رہی۔ پانچ ہزار میل دور سے ایک بدیشی انگریز راج آسانی سے اس لئے قائم ہو گیا کہ عوام مفت میں اپنے ہڈ حرام بادشاہوں، راجاؤں اور نوابوں کے لئے کٹ مرنے پر تیار نہ تھی۔

کمال کی بات یہ ہے کہ پورے دو سو سال کی برطانوی راج کے دوران کسی ایک وقت میں بیس ہزار سے زائد بدیشیوں سے زیادہ کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ دس کروڑ چرنے والے جانوروں کے لئے بھی بیس ہزار سے زیادہ چرواہوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ دنیا کی ستائیس فیصد جی ڈی پی رکھنے کے باوجود، چونکہ عوام کسی قانون نہیں بلکہ نوابوں، شہزادوں اور بادشاہوں کے اشارہ ابرو پر مرتے اور جیتے رہے۔ انگریز دو سو سال میں اس عظیم خطے ساری دولت اس طرح لے اڑا کہ ہندوستانیوں ہی کو ٹٹو بنایا اور مال غنیمت انہی کے کندھوں پر لاس کر اپنے دیس لے گیا۔ جب ہندوستان کا بٹوارہ ہو رہا تھا تو اس وقت اس کی جی ڈی پی، دنیا کی جی ڈی پیکا 0.4 فیصد رہ گئی تھی۔ یعنی انگریز بہادر نے ہمیں اچھی طرح نچوڑ کر چھوڑا، پر ہمارے بزرگ اب بھی برٹش راج کی کم ازکم ظاہری انصاف، قانون کی عملداری اور تعلیم کے گن گاتے ہیں۔

بر صغیر کے کی رنگارنگ اقوام میں صرف بنگال میں کچھ کچھ غیرت کی رمق باقی رہی۔ آزادی کی تحریکیں ہوں یا پاکستان کی پیدائش، وہی ہماری جنگ لڑتے رہے۔ تاہم آزادی کے بعد مغربی پاکستان کے حکمران بنگالیوں کو ”چھوٹی نسل“ کے غلام سے زیادہ کی اہمیت دینے کو تیار نہ تھے۔ قد میں چھوٹے لیکن عقل کے بڑے وہی بنگالی اب ہماری ہی کپاس خرید کر دنیا کی بڑی ٹیکسٹائل اقتصادیات میں شمار ہوتے ہیں۔ شنید ہے کہ 2030 ء تک وہ ترقی پذیر (بھکاری) ممالک کی فہرست سے نکل کر ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہوجائیں گے۔

یہ وہی قومیں جسے چرچل تک ”خرگوشوں کی طرح بڑھنے والی“ نسل کہتا تھا (چرچل ایک نہایت تعصب پرست گورا تھا) ، اب اپنی آبادی کی بے تحاشا بڑھوتری کو بند باندھ چکا ہے۔ آزادی کے وقت بنگلہ دیش کی آبادی ہم سے زیادہ تھی لیکن آج ہماری آبادی کا بم پھٹنے کو ہے۔ ایک طرف ایٹم بم رکھا ہے اور دوسری طرف بے ہنگم، جاہل اور ان پڑھ آبادی کا بم ہے۔

بنگلہ دیش میں بھی اسلام مذہبی جماعتوں کا سب سے بڑا ہتھیار رہا لیکن ابتدائی سالوں کی فوجی اور سول آنکھ مچولی کے بعد بالآخر ایک سیکولر حکومت ان پر قابو پا چکی ہے۔ ان کا سب سے بڑا ہتھیار ایٹم بم نہیں بلکہ تعلیم، خواتین کی ترقی اور اپنے کام سے کام رکھنا ہے۔ اسے نہ چھ گنا بڑے ہمسائے سے ڈر لگتا ہے اور نہ امریکہ، روس یا چین کا لیسہ بردار ہے۔ سب سے اچھا تعلق ہے لیکن ہر فیصلہ ملکی مفاد میں ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں مولوی پاکستان کی مخالفت سے لے کر اب اس پر حکومت کے خواب دیکھ رہا ہے۔ طالبانائزیشن نے اس کا اصلی بہروپ بہت خوبی سے دکھا دیا ہے۔ اس لئے سوائے ظاہری نعروں کے، کوئی بھی اسلامی مملکت کے خواب نہیں دیکھتا۔ وہ ڈراؤنے خواب ”خونی چوک“ بن چکے ہیں۔ اس لئے تمام مذہبی پارٹیاں مل کر بھی چند سیٹیں نہیں جیت سکتیں۔ ان کو اب آئینے میں اپنا عکس دیکھنا چاہیے۔ ہاں پھر بھی اگر کچھ لوگوں کو ان اقتدار پسند مولویوں کے نعروں سے تھوڑی بہت امید ہے تو اپنے پچھواڑے میں طالبان کی امارت قائم ہونے والی ہے، بوریا بستر لے کر ابھی سے وہیں چلے جائیں۔ اور ہمیں بنگلہ دیش سے سبق حاصل کرنے دیں۔ اسی طرح سے ہم جگہ جگہ بھیک مانگنے، چوکیدار، ڈرائیور اور مینول لیبر کی ایکسپورٹ کیب جائے ”علم اکانومی“ کا حصہ بن جائیں۔ پہلے سے ہی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے ہی۔ اب تھوڑا انسان بن کر بھی دیکھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments