مفتی کی زیادتی اور پاکستان کے مذہبی ٹھیکیداروں کی خاموشی



گزشتہ ہفتے پاکستان میں بڑے بڑے واقعات ہوئے۔ ان بڑے بڑے واقعات میں ایک واقعہ لاہور کے مشہور مفتی کی اپنے شاگرد کے ساتھ بد فعلی کی ویڈیوز تھی جس نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کر دیا۔ اس پورے واقعے میں ظالم بھی مرد تھا اور مظلوم بھی۔ ویڈیوز تو سوشل میڈیا پر آ گئی اور تباہی مچا دی پہلے پہل تو مفتی نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ یہ کام مجھے نشہ آور چیز پلا کر زبردستی کروایا گیا ہے اور میں ہوش میں نہیں تھا، مگر ویڈیو میں مفتی بھرپور متحرک نظر آرہے ہیں۔ اب جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو خبر مل رہی کہ مولوی نے اپنا جرم قبول کر لیا ہے اور لڑکے کے ساتھ بدفعلی کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔

واقعہ تو ہو گیا اور بہت سے لوگوں کو غصہ بھی آیا۔ لیکن کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ کوئی جلوس نہیں نکلا۔ کوئی ریلی نہیں نکلی۔ مدرسے کے باہر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔ کوئی فتوی بھی نہیں آیا۔ جمعہ بھی گزر گیا اور ملک گیر تو دور کجا شہر گیر احتجاج بھی دیکھنے میں نہ آیا۔ سب سے زیادہ حیرت ان پر ہوئی جو مسلمانیت کے ٹھیکیدار نظر آتے ہیں جو دوسرے مسلک کو کافر گردانتے ہیں اور فحاشی کی وجہ خواتین کو قرار دیتے ہیں مگر اس واقعے کے بعد یہ سارے پردے میں چلے گئے۔ ان کو کوئی جا کر کان میں چیخ چیخ کر بتائے کہ بدکاری ایک 70 سالہ باریش مفتی نے ایک نوجوان لڑکے ساتھ کی ہے اور ایک بار نہیں درجنوں بار کی ہے۔ بلکہ لڑکے کے مطابق یہ عمل اکثر جمعے کے دن کیا جاتا تھا۔

یہ زیادتی یا بدکاری ایک یا دو بار نہیں ہوئی، یہ مسلسل ہونے والا عمل ہے۔ یہ بہت سے مدرسوں میں ہوتی ہے اور مدرسوں کا نظام کچھ ایسا ہے کہ شاگرد اس میں پھنستا جاتا ہے۔ ایک تو وہ ذہنی طور پر اتنا تباہ ہوجاتا ہے اور دوسرا گھر سے دور، جیب میں پیسے نہیں، اگر شکایت کی جائے تو مدرسے سے نکل جانے کا خوف اور سچ بتانے پر جان کا خطرہ الگ۔ گزشتہ ہفتے آنے والی ویڈیوز میں اس ظلم کا نشانہ بننے طالب علم کا کہنا تھا کہ یہ عمل کئی سالوں سے جاری تھا اور وجہ بلیک میلنگ تھی۔

یہ واقعہ پہلا نہیں ہے اور بدقسمتی سے نہ آخری ہے۔ اس سے پہلے بھی درجنوں واقعات ہوئے مگر نتیجہ کیا نکلا؟ کچھ بھی نہیں۔ اس سے پہلے ہونے والے واقعات میں اور اس واقعہ میں فرق یہ ہے کہ یہ بڑی عمر کے لڑکے ساتھ پیش آیا جس نے ویڈیو بنالی ثبوت کے طور پر ورنہ اس سے پہلے چھوٹے بچے ہوتے تھے جنھیں سمجھ بھی نہیں آتی ہوگی کہ ان کے ساتھ کیا عمل ہو رہا ہے اور وہ معصوم اپنے استاد کا کہنا ماننے پر مجبور ہوتے تھے۔

اس واقعہ پر دو چار مولویوں کے علاوہ سب نے خاموشی اختیار کر لی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمل اسلام کی بے حرمتی میں نہیں آتا؟ کیا یہ مدرسوں کے خلاف سازش میں نہیں آتا؟ کیا یہ دین کا مذاق اڑانے کے زمرے میں نہیں آتا؟ کیا توہین مذہب اس مقام پر نہیں ہوتی ہے۔ مذہبی کتابوں کے مطالعے کے ساتھ غلیظ حرکت پر اکسانے والے مفتی پر توہین کا مقدمہ بنتا ہے یا نہیں؟ سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ اگر مدرسے میں ہونے والی اس زیادتی پر آواز اٹھائی جائے تو آواز اٹھ جائے گی کہ یہ مدرسے کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے زیادتی کا واقعہ مدرسہ کا ہو یا یونیورسٹی کا یہ ظلم ہے اور ظلم مسلک، ادارہ یا مذہب نہیں دیکھتا ظلم ظلم ہوتا ہے اور ظالم کو سزا ملنی چاہیے وہ پروفیسر ہو، وہ مولوی ہو یا پھر مفتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments