آپ کا تعلق کس سیاسی گروپ سے ہے؟


کچھ عرصہ پہلے جب کسی فورم پر سوشل میڈیا، کسی تقریب یا عام گیدرنگ میں بات چیت کرنے کا موقع ملتا تھا یا فرضی حال احوال ہوتا تھا یا تھوڑا بہت کسی مذہبی موضوع پر بحث ہوتی تھی تو روایت تھی کہ آپ سے فوراً مذہب، مسلک، مرشد یا شجرہ پوچھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ جب کبھی کسی قبائلی موضوع پر بات کرنے کا موقع ملتا وہاں آپ کی شناخت کا پوچھا جاتا تھا یا قبائلی تعلق بلکہ ذیلی شاخ تک بھی جانا ضروری سمجھا جاتا تھا یعنی کہ آپ کا نام یا کردار بہت ہی کم معانی رکھتا تھا اور قبیلے کا نام بتانا یا نام کے ساتھ لکھا ہوا لازمی امر ہوتا تھا۔

لیکن پھر ایک وقت آیا حال احوال میں آپ سے تعلیم کا پوچھا جانے لگا اور ساتھ ساتھ کام کا بھی یا ملازمت کا لیکن اب ان سب سے بڑھ کر کسی بھی مسئلے پر بات کرنے، ملکی پالیسی پر سماجی معاملات پر اوپن فارم پر یا سوشل فارم پر آپ اگر اپنے ذاتی خیالات کو بولنے یا لکھنے کی شکل دیتے ہیں تو آپ سے آپ کی پارٹی کا پوچھا جاتا ہے یعنی کہ سیاسی جماعت یا سیاسی فرد سے تعلق کا۔ اگر آپ کی ایسی کوئی شناخت نہ ہو یعنی باقاعدہ کسی سیاسی پارٹی یا شخص سے منسلک نہ ہو تو آپ کو خود ہی کسی مخالف گروپ یا پارٹی سے منسوب کرنا لازمی سمجھا جانے لگا ہے یعنی صرف خدا کا بندہ ہونا اب کسی مصیبت سے کم نہیں ہے۔

میری بدقسمتی ہے یا خوش قسمتی مگر میں ابلاغ عامہ اور عمرانیات کے شعبے سے منسلک ہونے کی وجہ سے میرے تعلقات لوگوں سے مشترکہ طور پر ہوتے ہیں یعنی جملہ سیاسی نمائندے یا پھر مذہبی یا کسی بھی مسلک کے لوگوں سے جہاں اختلاف ہو وہاں اختلاف جہاں حمایت ہو سکے وہاں حمایت کو لازمی بناتے ہوئے تعلق برقرار چل رہے ہیں کیونکہ میں اکثر کہتا ہوں ذاتی تعلقات کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہونی چاہیے۔ مگر میں نے اپنی زندگی میں جب سے لکھنے کا کام شروع کیا ہے مجھ سے ہر دوسرا بندہ سیاسی پارٹی سے تعلق پوچھتا ہے۔

خیر میرے جیسے بہت ہوں گے جن سے اس شناخت کا پوچھا جاتا ہوگا۔ اور جس علاقے سے میرا تعلق ہے وہاں پارٹی لیول کی سیاست کا فقدان ہونے کی وجہ سے دو ہی گروپس کے گرد سیاسی لین دین چلتی ہے اور دونوں گروپس میں گروپ کا بندہ بننے کے لئے صرف اعلان لازمی ہے باقی آپ اندر باہر والا کھیل کھیل سکتے ہیں کیونکہ ان گروپس میں نظریات کی لین دین نہیں ہوتی مفادات کی ہوتی ہے اور یہ بدلتے رہتے ہیں مگر شرط یہ کہ آپ کو ایک کے بعد دوسرا گروپ یا پارٹی جوائن کرنی ہے۔

لکھاری یا سماجی سہولت کار ہونے کی وجہ سے علاقے میں جب کوئی سیاسی سانحہ یا معاملہ ہوتا ہے یا سیاسی گروپوں میں اونچ نیچ آتی ہے تو دونوں سیاسی گروپس کے لوگوں کا زیادہ فوکس ہم جیسوں کی مومنٹ پر ہوتا ہے۔ کہ ہم ہمارا قلم یا زبان کو زور طرف ہے یعنی اس دوران سب سے زیادہ پریشان طبقہ ہم جیسوں کا ہوتا ہے کیونکہ یہ جانتے ہوئے صرف عام شہری ہونا یا سماجی ورکر ہونا ہمارے حلقے میں کسی مصیبت سے کم نہیں۔ آپ مصنف ہو، آپ صحافی ہو، آپ عالم ہو، آپ کوئی سرکاری ملازم ہو گو کہ کسی بھی شعبے سے منسلک ہونا تب تک آپ کے لیے خطرے سے کم نہیں جب تک آپ کوئی سیاسی گروپ جوائن نہیں کرتے یا عارضی منسلکی بھی لازمی ہے۔

جس کے لئے ایک دو گروپ تصاویر دو تین بیان بس فارمیلٹی مکمل ہونے کے بعد سکھ کا سانس لے سکتے ہیں۔ لیکن گروپ لیڈرز بھی اب سمجھنے لگے ہیں کہ الیکشن میں ان لوگوں نے مل کر اس ستم کا بدلہ لینا ہوتا ہے یعنی ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے ہمارے علاقے میں سیاسی اعلانات سے الیکشن کا رزلٹ مختلف ہوتا ہے تب تک لوگوں کا برداشت کرنا ہی واحد حل ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں سیاسی گروپ سے تعلق کا اظہار اس حد تک لازمی ہو گیا ہے کہ سیاسی گروپ کی وابستگی اس دنیا فانی سے رحلت کر جانے والے کے لیے بھی ضروری بن گئی ہے۔ یعنی ایک شخص عمر بھر کسی عہدے پر فائض رہے، اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دے، علاقے میں ذاتی پہچان رکھنے کے باوجود اس کی وفات کی خبر جو بطور اطلاع لوگوں کی دی جاتی ہے اس میں یہ لکھنا لازمی سمجھا گیا ہے کہ فلاں، دیرینہ ساتھی تھا، سینئر ممبر تھا یا رہنما تھا جبکہ اس کا سیاسی بصیرت کے علاوہ کردار چاہیے کتنا بھی مضبوط کیوں نہ ہو اور اس میں سیاست کے علاوہ جو بھی علاقائی سطح پر قربانیاں تھی یا کردار تھا یا ذاتی پہچان وہ مسخ کر کے بات فوتگی کی خبر فلاں سیاسی وابستگی کی حد تک محدود کردی جاتی ہے ”اب یہ بھی ناجا سمجھا جائے سیاسی گروپ کو دیکھ کر جنت یا دوزخ میں جانے کا تعین کیا جائے گا“

ہمیں صرف ایک فائدہ ہوتا ہے دونوں گروپس کے چھوٹے بڑے درمیانی نمائندگان کی باتیں، گروپ کے اندر گروپ بندیاں، ایک دوسرے پر غصے کی آڑ میں گروپس کی پوشیدہ باتیں جس کو لے کر ہم اپنے سماجی کام کے ساتھ ان کے شغل میلے سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ درحقیقت ان میں چند ہی ہوتے ہیں جن میں سیاسی سمجھ بوجھ ہوتی ہے اور جن میں گروپ لیڈر کے لیے حقیقی محبت کا تصور دیکھا جاسکتا ہے باقی سارے وہی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے الیکشن کا رزلٹ بالکل امید کے خلاف آتا ہے اور بعد ازاں الیکشن رزلٹ آدھا کام قسموں سے چلاتے ہیں کیونکہ ان کو پتا ہوتا ہے ایک دو دن کی بے عزتی کے بعد سب کچھ بہتر ہو جائے گا اور اکثر ہوتا بھی ایسا ہی ہے پولنگ رزلٹ خراب آنے کے بعد آپ نے ایک دو اشتہار دینے ہوتے ہیں جو اظہار تشکر کے ہو یا ازلی خاندانی وفاداری کی صورت میں ہو۔

آپ لوگوں نے بادشاہوں کے دور کے بارے میں، مغلوں کے دور یا نوابوں کے دور کے متعلق پڑھا ہوگا۔ ان کے نزدیکی لوگوں میں دو تین چار لوگ ہوتے تھے وہ نا ان کی فیملی سے ہوتے تھے نا خطے میں مقیم کسی بڑی برادری یا قبیلے سے اور نا ہی ان کا خاندان کسی بڑے پیمانے پر محیط ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ وقت کے حاکم کے خاص ہوتے تھے اور آج بھی آپ لوگ اپنے ارد گرد ایسا دیکھ سکتے ہیں دراصل اس کی مضبوط وجہ معلوم نہیں ہے مگر جہاں تک مجھے اندازہ ہے وہ اگلی کسی تحریر میں مخصوص اس گروہ کے لیے لکھوں گا۔

لیکن ان کے اختیارات دیکھ کر حلقے کے بڑے بڑے قبائلی لوگ یا علاقائی معززین یا معتبرین اندر ہی اندر بیچارے کوستے ہیں لیکن حاکم سے کچھ نہ کہتے ہوئے الیکشن میں بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن تاریخ میں یہ بھی آپ لوگوں نے پڑھا ہوگا اقتدار میں شکست کی وجہ یا حاکمیت بادشاہت کے خاتمے کی وجہ وہی چند لوگ بن جاتے ہیں جو حاکم کو اسی آئینے تک محدود رکھتے ہیں جو ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments