اپنا گھر ٹھیک کریں


ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کو 27 میں سے 26 شرائط پوری کرنے کے باوجود گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ خطے کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں کوئی حیران کن خبر نہیں ہے۔ ہمارے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور کچھ حکومتی رہنماؤں کی طرف سے اس کا میڈیا میں کھل کر اظہار بھی ہوتا رہا ہے۔ وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ تعین کرنا ہوگا کہ ایف اے ٹی ایف ایک تکنیکی فورم ہے یا پولیٹیکل؟

وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں ایک امریکی ٹی وی چینل سے انٹرویو میں دو ٹوک انداز میں امریکہ کو پاکستان میں اڈے دینے اور اسلام آباد کو دوبارہ سی آئی اے کی آماجگاہ بننے سے معذرت کر دی ہے۔ خان صاحب کے متذکرہ انٹرویو سے نہ جانے یہ تاثر کیوں ابھرا کہ یہ فرمائشی تھا اور انٹرویو کرنے والے نے چبھتے ہوئے سوال کیوں نہیں کیے حالانکہ امریکی چینل نے ریپ کے بارے میں سوال کر کے خان صاحب کو مشکل میں ڈال دیا جس سے خاصی حد تک انٹرویو کے باقی جوابات پس پردہ چلے گئے اور نئی بحث چھڑ گئی۔

خان صاحب نے انٹرویو میں پاکستان کے موقف کو بڑی صراحت سے بیان کیا اس کے بعد امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں وزیراعظم نے پاکستان کے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے ’ڈو مور‘ کے امریکی مطالبے پر عمل سے انکار کر دیا ہے۔ افغانستان کے معاملے میں یقیناً پاکستان ایک گرداب میں پھنس گیا ہے اور ”نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن“ کی صورتحال سے دوچار ہے۔ تاریخی طور پر افغانستان کے حوالے سے ہماری دفاعی حکمت عملی اسی تزویراتی گہرائی کے تحت ہی گھومتی رہی ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کے پیشرو آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دور میں اس کا ذکر کم سے کم ہونے لگا اور اب تو بالکل ہی نہیں کیا جاتا۔ اس تھیوری یا مفروضے کے تحت حکومت پاکستان کی قومی پالیسی یہ رہی ہے کہ افغانستان ہمارے حلقہ اثر میں شامل ہے۔ 2010 ء میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی، اس وقت کے بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ امریکہ کے دورے پر گئے، وہ کئی صفحات پر مشتمل خود تیار کیا ہوا ڈوزئیر بھی ساتھ لے گئے، جسے امریکی صدر اوباما کو پیش کیا۔

امریکہ سے واپسی پر انہوں نے بڑے فخر سے جی ایچ کیو میں میڈیا کو خصوصی بریفنگ میں اس کی تفصیلات بتائیں۔ اس کا متن پاکستان کی افغان پالیسی کی بھرپور تشریح تھی۔ ایک فقرہ خاص طور پر چونکا دینے والا تھا جو ایک قسم کی درست پیشگوئی تھی۔ کیانی صاحب کا کہنا تھا کہ امریکیوں کے پاس گھڑیاں ہیں لیکن وقت نہیں! طالبان کے پاس وقت ہے اور مستقبل انہی کا ہے اگرچہ سٹریٹجک ڈیپتھ کا ذکر نہیں کیا جاتا لیکن عملی طور پر افغانستان میں طالبان کی حکمرانی ایک تاریخی حقیقت ہے جسے تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔

اس کے برعکس ہم یہ رونا روتے ہیں کہ ہم دہشت گردوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں، پاکستان تو خود دہشت گردی کا شکار ہے اور اس کے ستر ہزار شہری دہشت گردی کی کارروائیوں میں شہید ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں لاہور میں حافظ سعید کی اقامت کے قریب دہشت گردوں کی کارروائی کے تانے بانے بھارتی ”را“ سے ملائے جا رہے ہیں۔ اس واقعہ سے دہشت گردی کے گہرے بادل پھر منڈلاتے نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان پر یہ تو واضح ہے کہ امریکہ اپنی تاریخ کی طویل ترین اور ناکام جنگ سے جان چھڑا کر اپنا لاؤ لشکر لے کر وہاں سے جلد از جلد راہ فرار اختیار کرنا چاہتا ہے۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا ایک ٹی وی انٹرویو میں اینکر کی طرف سے اسامہ بن لادن جو مئی 2011 ء میں امریکی نیوی سیلز کے آپریشن میں مارا گیا تھا، کو دہشت گرد کی ہلاکت یا شہید قرار دینے کے بارے میں سوال کا جواب دینے سے اجتناب افغانستان کے بارے میں پاکستان کی موجودہ پالیسی کی غمازی کرتا ہے۔ وزیراعظم کو گلہ ہے کہ امریکہ پاکستان کی افغان پالیسی کو ہمیشہ سے شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور امداد کا دباؤ ڈال کر اپنے ڈھب کی پالیسیوں پر عملدرآمد چاہتا ہے۔

انٹرویو میں امریکہ کی طرف دست تعاون بڑھاتے ہوئے کہا کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے تیار ہے، پاکستان پہلے بھی طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لایا لیکن امریکہ نے انخلا کی تاریخ دی تو طالبان پر ہمارا کنٹرول ختم ہو گیا، نیز وزیراعظم کا یہ بھی فرمانا ہے کہ طالبان کو فوجی حل کے بجائے مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے اور مسئلے کا سیاسی حل نکالا جائے۔ یہ بات اصولی طور پر تو درست ہے لیکن یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جوں جوں امریکہ کا انخلا قریب آ رہا ہے اور ستمبر میں یہ عمل مکمل ہونا ہے طالبان کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں اور ان کی پیش قدمی بڑھتی جا رہی ہے۔

یہ جنگجو افغانستان کے پچاس اضلاع پر قبضہ مکمل کر چکے ہیں۔ اس صورتحال میں طالبان کی حکومت بنانا صرف وقت کا تقاضا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن وائٹ ہاؤس میں افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کر چکے ہیں۔ ملاقات میں امریکی صدر نے کہا کہ افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ افغانستان کا مستقبل افغانوں کے ہی ہاتھ میں ہے حالانکہ دیکھا جائے تو جو بائیڈن عملی طور پر اپنی جان چھڑا کر بھاگ رہے ہیں۔

ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ پر رہنے کے فیصلے کو ہمارے بعض تجزیہ کار اور حکومتی زعما مغرب کی طرف سے پاکستان پر دباؤ ڈالنا قرار دے رہے ہیں کہ وہ اس کی پالیسیوں پر صاد کرے۔ اس بارے میں کہا جا رہا ہے کہ 27 میں سے 26 شرائط پوری کر دی گئی ہیں لیکن ایک شرط گرے لسٹ پر برقرار رکھنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے، نیز نیا 7 نکاتی ایکشن پلان بھی دے دیا گیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکوس پلئیر نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان نے کئی معاملات میں بہتری دکھائی ہے، تاہم 7 ویں نکتہ پر بھی مکمل کام کرنا ہوگا۔

بعض رپورٹس کے مطابق پاکستان کو اس کے علاوہ مزید 6 نکات پر کام کرنے کا کہا گیا ہے۔ مارکوس کے مطابق فنانشل ٹیررازم کے منصوبے پر کارروائی کی ضرورت ہے۔ جن کے مطابق اقوام متحدہ کے نامزد کردہ 1373 دہشت گردوں کو سزائیں دینا ہوں گی ، ایف اے ٹی ایف کے اغراض و مقاصد کا تعلق دہشت گردوں کے لیے غیر ملکی فنڈنگ سے ہے اور یہی ایک نکتہ پاکستان کے گرے لسٹ میں رہنے کی وجہ بنا ہے۔ ہماری حکومت کا موقف ہے کہ یہ ”را“ کی کارستانی ہے۔ یہ رونا دھونا چھوڑ کر حکومت کو اپنے تئیں اس قسم کے عناصر کے خلاف ایکشن کرنا چاہیے۔ اپنا گھر ٹھیک کرنا چاہیے تاکہ ایف اے ٹی ایف کی سر پر لٹکتی تلوار ہٹ سکے۔

بشکریہ: نائٹی ٹو نیوز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments