عذر خواہی کی سیاست اور عذاب رت کے ملول پنچھی


20  دسمبر 1971 کی رات سرد اور سیاہ تھی۔ سنہ ہجری 1391 تھا اور ذی قعد کی یکم تاریخ۔ معلوم انسانی تاریخ میں کسی قوم نے شاید ہی ایسا المیہ دیکھا ہو۔ دشمن ہمسایہ ملک نے دو ہفتے سے بھی کم لڑائی میں آدھے سے زیادہ ملک چھین لیا تھا۔ اس سے بڑا حادثہ یہ تھا کہ الگ ہونے والے حصے کا بچہ بچہ سابقہ پاکستان کا مخالف تھا حتیٰ کہ متعدد ممالک میں ہمارے سفارت خانوں نے نوزائیدہ بنگلہ دیش سے وابستگی کا اعلان کر دیا تھا۔ ملک کے 93 ہزار بیٹے غنیم کی قید میں تھے اور باقی ماندہ پاکستان کے پانچ ہزار مربع میل رقبے پر حریف قابض تھا۔ ان حقائق کا پس منظر اس سے بھی شرمناک تھا۔ 16 دسمبر کی سہ پہر جب رمنا ریس کورس گراونڈ میں ہتھیار ڈالنے کی تقریب ہو رہی تھی، مغربی پاکستان میں اخبارات کے دفاتر میں ایک نئے آئین کا مسودہ پہنچایا جا رہا تھا۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اس آئین کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ یحییٰ خان پاکستان صدر اور فوج کے سربراہ ہوں گے۔ یہ آئین 20 دسمبر کو نافذ کیا جانا تھا لیکن اقتدار کی غلام گردشوں میں ایک خوفناک کشمکش کے بعد 20 دسمبر کی سہ پہر ذوالفقار علی بھٹو نے صدر پاکستان کا حلف اٹھا لیا۔

کچھ مہربان اب بھٹو کو سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ مغربی پاکستان کے اکثریتی رہنما بھٹو کس دستوری بندوبست کے تحت سرزمین بے آئین کی حکومت سنبھالتے۔ رات دس بجے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھٹو صاحب کی تقریر نشر ہوئی۔ بلیک آؤٹ کی تاریکی میں سکڑے سمٹے لوگ بھٹو صاحب کی انگریزی تقریر سن رہے تھے۔ آپ کا یہ نیاز مند ایک ملگجے کمبل میں لپٹا کم عمر لڑکا تھا، انگریزی کیا خاک سمجھتا۔ البتہ بہت برس بعد میجر جنرل (ر) حکیم ارشد قریشی کی کتاب The 1971 Indo-Pak War: A Soldier’s Narrative پڑھنے کا موقع ملا تھا۔ اقتباس حاضر کرتا ہوں۔ (کالم کی تنگنائے میں ترجمے کی گنجائش نہیں۔)

It was not a Niazi, or a Yahya, even a Mujib, or a Bhutto…, who alone were the cause of our break-up, but a corrupted system and a flawed social order that our own apathy had allowed to remain in place. At the most critical moment… we failed to check the limitless ambitions of individuals with dubious antecedents and to thwart their selfish and irresponsible behavior. It was our collective ‘conduct’ that had provided the enemy an opportunity to dismember us.

ان حالات میں بھٹو صاحب نے ایک نیا پاکستان تعمیر کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ہمارے قیدی آزاد ہوئے، ہمارا مقبوضہ رقبہ واپس ملا۔ ہم نے آئین مرتب کیا۔ 1974 میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو قومی سلامتی کے لئے ایٹمی پروگرام کا آغاز ناگزیر قرار پایا۔ بھٹو صاحب کی سیاسی بصیرت کا کیا ٹھکانہ تھا لیکن یہ بھی دیکھیے کہ ان کے رفقا کون تھے، محمود قصوری، مبشر حسن، ملک محمد جعفر اور حفیظ پیرزادہ۔ اہلیت، تدبر اور دیانت کے ان پتلوں نے شکست خوردہ پاکستان کو پراعتماد تشخص بخشا۔ یہ سب ہوا لیکن غلطیاں بھی ہوئیں۔ حزب اختلاف کے ساتھ جمہوری تال میل پیدا نہیں کیا گیا، جمہوری بندوبست میں آزاد صحافت کا کردار تسلیم نہیں کیا اور ایک اہم غلطی یہ کہ ماضی سے پیوستہ طاقت کے ان سرچشموں کو لگام نہیں ڈالی گئی جنہوں نے قوم کو دسمبر 1971ءکی ندامت سے دوچار کیا تھا۔ چنانچہ ہمارا پہلا جمہوری تجربہ آمرانہ عزائم کی بارودی سرنگوں میں غبار ہو گیا۔

نصف صدی گزر چکی۔ ہمیں ایک نئی دنیا کا سامنا ہے۔ اب نہ سرد جنگ ہے اور نہ ساٹھ کی دہائی میں جنم لینے والے خواب۔ اکیسویں صدی میں بے رحم معاشی مقابلے کی دنیا میں ہمارے پاس بنیادی معاشی سکت ہے اور نہ بصیرت سے بہرہ مند قیادت۔ اداروں کی ساکھ مخدوش ہے اور بے پناہ سماجی انتشار ہے۔ آبادی میں پھیلاؤ، غربت میں اضافے اور تعلیمی پسماندگی نے ہمارے امکانات گل کر دیے ہیں۔

اوپر تلے ہونے والے واقعات دیکھیے۔ ایف ٹیف نے ہمیں بدستور گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس پر ہمارے وزیر خارجہ ایف ٹیف کے تیکنیکی اور سیاسی پہلو جانچ رہے ہیں۔ کیا نہیں سمجھتے کہ جو ہمیں مزید ایک برس کے لئے معلق رکھ سکتے ہیں، اصولی مباحث بھی وہی طے کریں گے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے چین کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری آئی ہے اور اب ہم افغانستان پر کوئی واضح موقف اپنانے کی بجائے مغرب کو مورد الزام ٹھہرانا چاہتے ہیں۔ طالبان نے اچھے وقتوں میں ہماری نہیں سنی، اب تو خیر سے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ سجن سکارے جائیں گے اور نین مریں گے روئے۔

دنیا ہمارا فون سننے کی روادار نہیں اور ہم سافٹ امیج اور احساس کمتری پر بھاشن دے رہے ہیں۔ ستمبر 2019 میں امریکہ سے واپسی پر جو ورلڈ کپ جیتنے جیسی خوشی کا اعلان کیا تھا، خدا معلوم وہ احساس کمتری تھا یا برتری۔ بھارت نے کشمیری قیادت کے معتدبہ حصے سے معاملت کر کے ہمیں اس محاذ پر بھی بے دست و پا کر دیا۔ اور جو اندرون ملک دیکھیں تو پرسکون پانیوں کی تہ میں طوفان پل رہے ہیں۔ شہباز شریف، آصف زرداری اور پرویز الٰہی بذات خود اچھے لوگ ہیں لیکن اگر تینوں کی سیاسی سرگم میں ایک ہی بندش نظر آئے تو جان لیجئے کہ آئندہ سیاسی منظر بھی گزشتہ کا تسلسل ہو گا۔ اقتدار کی بندر بانٹ میں نئے مہرے تو سامنے آ سکتے ہیں، عوام کے لئے کسی اچھی خبر کی امید مت رکھیے گا، قوم کی آزمائش ختم نہیں ہو گی۔ مرحوم اعزاز احمد آذر کا شعر دیکھیے

درخت جاں پر عذاب رت تھی نہ برگ جاگے نہ پھول آئے

بہار وادی سے جتنے پنچھی ادھر کو آئے ملول آئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments